روہیل اکبر
وزیراعظم صاحب اپنا طبی معائینہ کروانے لندن چلے گئے سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا پاکستان میں ایک بھی سرکاری ہسپتال اور وہاں پر موجود ڈاکٹر اس قابل نہیں ہے کہ وہ ہمارے وی وی آئی پی حضرات کا علاج کرسکیں یا ہمارے حکمران طبقہ کو اپنے ملک کے ڈاکٹروں پر اعتماد نہیں ہے کہ وہ اپنی معمولی سے معمولی بیماری کا ان ڈاکٹروں سے علاج کروائیں اگر ہمارے حکمرانوں کو اپنے ملک کے ڈاکٹروں پر یقین نہیں ہے تو پھر بے چاری مفلس اور غریب عوام کدھر جائے جن کے ووٹ کی طاقت سے ایک عام آدمی اتنا طاقتور بن جاتا ہے کہ وہ اپنے ہی ووٹروں کے ڈر سے سیکیورٹی کے حصار میں جا چھپتا ہے الیکشن سے قبل گرما گرم تقریروں ،دلفریب نعروں اور خوبصورت چہروں سے عوام کو بیوقوف بنانے والے اقتدار میں آکر لوٹ مار کی ایسی مثالیں قائم کرتے ہیں کہ کبھی سرے محل کے قصے گونجتے ہیں تو کبھی لندن میں اربوں روپے کی جائیدادیں سامنے آجاتی ہیں۔ملک کی تقدیر بدلنے والے خود اپنی تقدیر بدل لیتے ہیں مسلسل اقتدار میں رہنے کے باوجود حکمرانوں نے اپنے ملک کے اداروں کو اس قابل نہیں بنایا کہ وہ اپنا علاج اپنے ملک میں کرواسکیں اور نہ ہی انہوں نے پاکستان کو اس قابل چھوڑا ہے کہ انکے بچے یہاں کوئی کاروبار کرسکیں جتنی دولت لوٹ کر باہر لی جاچکی ہے اگر وہ واپس آجائے تو ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے مگر خدمت کے نام پر جو تاریخی لوٹ مار کی گئی اسکی وجہ سے آج ہمارے اداروں تباہ ہوچکے ہیں اور ان میں کام کرنے والے فرعون صفت افسران بھی حکمران بن چکے ہیں اور تو اور سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں نے پھر ہڑتال شروع کردی ہے ایک تو علاج کے نام پر موت بانٹی جارہی ہے اوپر سے ہڑتال کرکے مریضوں کا اور خانہ خراب کردیا ہے خود کو خادم اعلی کہلانے والے میاں شہباز شریف آج تک ملک میں پولیس کا نظام تو ٹھیک نہ کرواسکے باقی انہوں نے کیا کرنا ہے رہی بات عوام کی انہیں تو حکمران کی لوٹ مار پالیسی میں بہت مزہ آرہا ہے برسوں سے روتی سسکتی زندگیوں کو جب بھی موقعہ ملا اپنی تقدیر کے بدلنے کا تو انہوں نے آنکھیں بند کرکے شیر پر مہر لگا دی تو کبھی تیر کو جتوادیا انہوں نے آج تک یہ نہیں سوچا اور نہ ہی دیکھا کہ جسے وہ ووٹ دے رہے ہیں کیا وہ اس قابل بھی ہے کہ وہ غریب عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی کام بھی کرسکیں گے یا صرف ووٹ لیکر اپنا الو سیدھا کرے گا ہمارے ایم پی اے اور ایم این اے کی اکثریت لاہور اور اسلام آباد میں رہتی ہے جو صرف الیکشن کے دنوں میں اپنے حلقوں میں نظر آتے ہیں جن سے آج تک انکے ووٹروں نے نہیں پوچھا کہ ہمارے علاقے میں ہسپتال کیوں نہیں اچھا سکول کیوں نہیں روزگار کا سلسلہ کیوں نہیں اور تو اور تین سال میں لوڈ شیڈنگ ختم نہ کرنے پر اپنا نام شہباز شریف سے تبدیل کرنے والے حاکم اعلی سے کسی نے نہیں پوچھا کہ کیوں انہوں نے ہمارے مقدر میں اندھیرے بھر رکھے ہیں کیا ہمارا یہ قصور ہے کہ ہم نے آپ کو ملک وقوم کی خدمت کے لیے ووٹ دیا مگر آپ نے اپنے خاندان کی خدمت شروع کردی خود تو علاج کروانے لندن چلے جاتے ہوہم کہاں سے علاج کروائیں سرکاری ہسپتالوں میں جو آپ نے ڈاکو بٹھا رکھے ہیں ان سے اپنا آپ کٹوائیں یا جنہوں نے پرائیویٹ ہسپتالوں کے نام پر زبح خانے کھول رکھے ہیں ان سے اپنا آپ لٹوائیں صادق آباد سے لیکر اٹک تک دماغ کا کائی ہسپتال نہیں ہے اگر خدانخواستہ کسی کو سر میں چوٹ لگ جائے اور اسکا اثر دماغ تک چلا جائے تو پنجاب کے کسی ہسپتال میں اسکا علاج نہیں ہے ماسوائے جنرل ہسپتال لاہور کے جہاں مریضوں اورانکے لواحقین کی حالت دیکھ دیکھ کر ہم بھی بے حس ہوچکے ہیں درختوں کے سائے میں لوگ بیٹے ہوتے ہیں اور اندر ایک بیڈ پر مریض نہیں بلکہ مریضوں کی لائن لگی ہوتی ہے دل کے ہسپتال میں آپریشن کے لیے وقت نہیں ڈاکٹر موت کے بعد کا وقت لکھ دیتے ہیں دیہاتوں میں سڑکیں نہیں ،تعلیم نہیں اور علاج نہیں اور ان بے عقلوں کے نام پر عقل والے لوٹ مار میں مثالیں قائم کررہے ہیں انہی مار دھاڑ کی بہتی گنگا میں ملک کی افسر شاہی بھی اپنا حصہ وصول کررہی ہے حکمرانوں نے تو خون پینا معمول بنا رکھا ہے انکی دیکھا دیکھی سرکاری ملازمین نے بھی ات مچا رکھی ہے ہمارے سیاستدانوں نے ملک وقوم کے ساتھ جو منافقانہ چور سپاہی کا کھیل شروع کررکھا ہے اسی وجہ سے آج تک ہم کوئی لیڈر پیدا نہیں کرسکے ۔نیلسن منڈیلا سے انٹرویو کے دوران سیاستدان اور لیڈر کا مطلب پوچھا گیا تو اس نے کیا خوبصورت جواب دیا کہ سیاستدان اگلے الیکشن کا سوچتا ہے اور لیڈر اگلی نسل کا سوچتا ہے مگر بدقسمتی سے ہم نے صرف لٹیرے سیاستدان ہی پیدا کیے اور کسی لیڈر کو پیدا نہیں ہونے دیا جو ہمارے ملک کی تقدیر بدل سکتااب آتے ہیں پاناما پیپرز کے سنسنی خیز انکشافات کی طرف کہ پاناما پیپرز دراصل ہے کس بلا کا نام ،وکی لیکس ،آف شور لیکس اور سوئس لیکس سے بھی بڑا خفیہ دستاویز کا خزانہ اور اب پانامہ پیپرز یا پانامہ لیکس کی صورت میں سامنے آیا ہے ۔یہ ساری معلومات پاناما کی ایک لافرم موزاک فانسیکاکے ڈیٹا بیس سے خفیہ طور پر حاصل کی گئی ہیں جسے جرمن اخبار زیتوسے زائتوگ اور انٹرنیشنل کنسورشیم آف انوسٹی گیٹوجرنلزم نے پاناما پیپرز کے نام سے جاری کیایہ ساری معلومات 2006سے زائد گیگا بائٹس پر مشتمل ہے جس میں مجموعی طور پر ایک کروڑ 15لاکھ دستاویزات پی ڈی ایف فائلز،تصاویراور دیگر مواد شامل ہے جو 1977ء سے 2015ء تک پاناما کی فرم موزاک فانسیکا کا حصہ بنیں یہ لاء کی ایک فرم ہے جو دنیا کے امیر افراد کو ٹیکس سے بچانے کے کام کرتی ہیں اس کمپنی کی خدمات حاصل کرنے والوں میں اکثریت ان افراد کی ہے جنہوں نے غیر قانونی طور پر اپنے اثاثے بنائے ہوتے ہیں غیر قانونی طریقے اور لوٹ مار سے اکٹھی ہونے والی رقم کے مالکان کوقانون کی پکڑ سے بچانے والی کمپنی موساک فانسیکاکی دستاویزات لیک ہوئی ہیں۔یہ دستاویزات 80ملکوں میں 107میڈیا آرگنائزیشن کے حوالے کی گئیں جہاں400کے قریب صحافیوں نے اس کا مشاہدہ کیا پاناما پیپرز کے زریعے انکشافات کا یہ پہلا سلسلہ ہے اور اب تک صرف 150کے قریب دستاویزات شائع کی گئی ہیں اور ابھی مزید سنسنی خیز انکشافات کی توقع ہے آخر میں اپنے ایک دردل دل رکھنے والے دوست محمد اعظم کا شہر جو ہمارے پورے معاشرے کی عکاسی کرتا ہے ۔
انہے ویکھن سینما ،گونگے گاون ہیر
لولے کھیڈن کوڈیاں،گنجے کڈن چیر
تحریر۔روہیل اکبر03466444144