سترہ اپریل سے یکم مئی تک 150 سے زائد ممالک تین کی بجائے دو قسموں کے پولیو وائرس کے خلاف مدافعت پیدا کرنے والی نئی ویکسین بچوں کو پلائیں گے۔
نیویارک: (یس اُردو) پولیو کے خلاف 1988ء میں عالمی مہم شروع ہونے کے بعد سے اب تک اس کے کیسز میں 99 فیصد کمی واقع ہوئی ہے، مگر آخری ایک فیصد کو ختم کرنا زیادہ مشکل ثابت ہوا ہے۔ افغانستان اور پاکستان دو آخری ملک ہیں جہاں پولیو کا اب تک خاتمہ نہیں کیا جا سکا۔ عالمی ادارہ صحت کے انسداد پولیو کے ڈائریکٹر مائیکل زفران نے کہا کہ اس سال دنیا بھر میں پولیو کے 12 کیس سامنے آئے ہیں۔ یہ تمام بچے پاکستان اور افغانستان میں پولیو سے متاثر ہوئے۔ مائیکل کے بقول یہ وائرس ان ممالک کی سرحدوں سے باہر بھی پھیل سکتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس متعدی بیماری کے پھیلاؤ کو ایک سال کے اندر روکا جا سکتا ہے اور اس دہائی کے آخر تک عالمی سطح پر اس مرض کے مکمل خاتمے کا اعلان کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اس کے لیے تیس سال سے مستعمل ویکسین کی جگہ نئی ویکسین استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ اب تک بہت سے ممالک تین قسم کے پولیو وائرس کے خلاف مدافعت فراہم کرنے والی ویکسین استعمال کر رہے تھے۔ ان میں سے ٹائپ ٹو وائرس کا 1999ء میں خاتمہ کیا جا چکا ہے جبکہ اب صرف ٹائپ ون اور ٹائپ تھری قسموں کو ختم کرنا باقی ہے۔ لہٰذا صحت کے حکام کا خیال ہے کہ ٹائپ ٹو کو ویکسین میں شامل رکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ شاذونادر ہونے والے کیسوں میں ویکسین ہی بچے میں ٹائپ ٹو پولیو کا سبب بنی۔ اب صحت کے حکام صرف ٹائپ ون اور ٹائپ تھری پولیو وائرس کے خلاف مدافعت فراہم کرنے والی نئی ویکسین متعارف کروا رہے ہیں۔ 17 اپریل سے یکم مئی تک 150 سے زائد ممالک تین کی بجائے دو قسموں کے پولیو وائرس کے خلاف مدافعت پیدا کرنے والی نئی ویکسین بچوں کو پلائیں گے۔