ننکانہ صاحب(محمد قمر عباس)خاتون محتسب پنجاب اور سماجی تنظیم WISE کے زیر اہتمام ننکانہ صاحب میں منعقدہ سمینار سے مقررین کا خطاب خاتون محتسب پنجاب اور سماجی تنظیم WISE کی جانب سے جنسی ہراسانی کے قانون کے بارے میں آگاہی مہم کی سرگرمیاں اس وقت ضلع ننکانہ صاحب میں جاری ہیں۔ اسی سلسلہ میں 20 اپریل2016 کو ضلع کونسل ہال ننکانہ صاحب میں ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا، جس میں جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی اور محکموں کے ملازمین اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے مرد و خواتین نے بھاری تعداد میں شرکت کی۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے میاں رفیق احسن اسسٹنٹ کمشنر ننکانہ صاحب نے کہا کہ پاکستان کی ترقی میں خواتین کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ گھر ہو یا کوئی ادارہ، خواتین پوری محنت اور جانفشانی کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوارہی ہیں۔ تعلیم، صحت، انتظامی ادارے، پولیس، فوج، فیکٹریاں، میڈیا ،سائنس اینڈ ٹیکنا لو جی غر ض وہ کونسا شعبہ ہے جہاں خواتین اپنی محنت اور لگن سے اپنی خدمات سرانجام نہیں دے رہیں۔ ہماری بہادر اور محنت کش خواتین تعلیم، ہنر اور مہارت کے بل بوتے پر ہر شعبے میں شامل ہورہی ہیں۔ لیکن ان کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ کام ک�ئجگہ پر جنسی ہراسانی ہے۔ اس حساس مسلے کا نوٹس لیتے ہوئے سال 2010میں حکومت پاکستان و حکومت پنجاب نے متحسن قدم اٹھاتے ہوئے جنسی ہراسانی کے خلاف قانون سازی کرکے ملازمت کی جگہ پر خواتین کو تحفظ فراہم کیا۔ اب تمام اداروں کی ذمہ داری ہے کہ ان کے تحفظ اور ترقی کیلئے ٹھوس اقدامات کریں۔بشری خالق، ایگزیکٹو ڈائریکٹر WISE نے کہا کہ اکثر خواتین کی یہ شکایت ہوتی ہے کہ انہیں سڑک، گلی، محلے، ٹرانسپورٹ، بس اسٹاپ یا ملازمت کی جگہ پر جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، پہلے یہ ایک سماجی مسئلہ سمجھا جاتاتھا لیکن ’’ملازمت کی جگہ پر ہراساں کی جانے والی خواتین کے تحفظ کا قانون 2010 ء‘‘ کے تحت اب جنسی ہراسانی ایک جرم ہے۔یہ قانون جنسی ہراسانی کی کسی بھی شکل (چھیڑنا، گھورنا، چھونا، ہراساں کرنا، نفسیاتی دباؤ ڈالنا یا بلیک میل کرنا) کی سختی سے ممانعت کرتا ہے۔ اس قانون کے تحت ہر سرکاری اور غیر سرکاری ادارے پر لازم ہے کہ وہ ضابطہ اخلاق کو اپنے محکمہ/ادارہ کی پالیسی میں شامل کرکے ماحول کو جنسی ہراسانی سے پاک کریں۔ تمام اداروں پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ جنسی ہراسانی کی شکایت کے ازالے کیلئے تین رکنی تحقیقاتی قائمہ کمیٹی تشکیل دیں جس میں ایک عورت کا ہونا لازم ہے۔ ادارے اور انتظامیہ اس امر کی پابند ہے کہ وہ ضابطہ اخلاق کے مندرجات کو آسان زبان میں کسی ایسی جگہ پر آویزاں کریں جہاں تمام ملازمین باآسانی اس کو دیکھ اور پڑھ سکیں۔ ادارے کی انتظامیہ پر لازم ہے کہ وہ اپنے تمام ملازمین کو ضابطہ اخلاق اور تحقیقاتی کمیٹی کے بارے میں مطلع بھی کریں۔ جنسی ہراسانی کے قانون پر عمل درآمد میں ناکامی کی صورت میں ادارے کو جرمانہ بھی ہوسکتا ہے۔ جو ایک لاکھ روپے تک ہو سکتا ہے۔ جنسی ہراسانی سے متعلق شکایت ادارے کی تحقیقاتی کمیٹی یا دفتر خاتون محتسب پنجاب میں درج کرائی جاسکتی ہے۔سیمینار سے سلیم یوسف کنسلٹنٹ، خاتون محتسب پنجاب اور ڈاکٹر اسلم رندھاوا، ی ڈی او ہیلتھ، نے بھی خطاب کیا۔ سیمینار میں تربیت حاصل کرنے والے رضاکاروں میں اسناد بھی تقسیم کی گئیں۔