تحریر : مسز جمشید خاکوانی
وزیراعظم کے استعفی کے لیے اپوزیشن کا اجلاس کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ہی ختم ہو گیا میاں نواز شریف نے مخالفین کو پیغام دیا ہے کہ 2018 تک بلکہ اس کے بعد بھی صبر کریں تاہم قمر زماں قائرہ صاحب نے کہا ہے کہ کوشش کریں گے کل ٹی او آرز پر حتمی فیصلہ کر لیں اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ میاں صاحب بالکل بے قصور ہیں بلکہ مسلہ یہ ہے کہ یہ سب کرپشن کی ڈور میں ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہیں اور ایک دوسرے کو سہارا دینے پر مجبور ہیں اس کی نشاندہی عمران خان نے اپنے لاہور کے جلسے کے خطاب کے دوران کی ہے کہ کرپشن کس طرح کی جاتی ہے اور کرپشن کس طرح دیمک کی طرح ملک کو کھوکھلا کر دیتی ہے اس سلسلے میں جناب رووف کلاسرہ نے ایک بہت زبردست کالم لکھا ہے اس طویل کالم سے اقتباس پیش کرتی ہوں اس سے ہمیں ان اہل اقتدار کی وارداتوں کو سمجھنے میں مدد ملے گی اس کے بعد عمران خان کے خطاب پر بات ہو گی ۔کلاسرہ صاحب لکھتے ہیں 27جون 2013کو اسحاق ڈار نے 340روپے کے گردشی قرضوں کی ایک گھنٹے میں ادائیگی کر دی تھی میری طرح دوسرے رپوٹر بھی اس کھوج میں لگ گئے تھے کہ پیپلزپارٹی تو کہتی تھی پیسے نہیں ہیں مگر نواز شریف جنھیں وزیراعظم بنے دو ہفتے بھی نہیں ہوئے کیسے راتوں رات ساڑھے تین ارب ڈالر کا بندوبست کر لیا؟قارون کا خزانہ کہاں چھپا ہوا تھا۔
َپتہ چلا ڈاکٹر وقار مسعود نے جو زرداری صاحب کو مال پانی کا کھیل سمجھانے کے جرم میں جیل رہ چکے تھے نے اسحاق ڈار کو قیمتی مشورہ دیا تھا کہ گردشی قرضوں کی ادائیگی کا آپ کو ایسا طریقہ بتاتے ہیں کہ سانپ بھی مر جائے گا لاٹھی بھی نہ ٹوٹے گی بلکہ کچھ لکشمی گھر بھی آجائے گی جو کھیل کھیلا گیا وہ یہ تھا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی وزارت کے پاس یو ایس ایف نام کا ایک فنڈ ہوتا ہے جو دراصل وہ ٹیکس ہوتا ہے جو آئی ٹی کمپنیاں صارفین سے وصول کر کے حکومت کو دیتی ہیں تاکہ پس ماندہ علاقوں میں آئی ٹی کے منصوبے شروع کیے جا سکیں اس فنڈ میں باسٹھ ارب روپے پڑے تھے اسحاق ڈار اور ڈاکٹر وقار مسعود نے مل کر وہ رقم نکلوائی اور اسے سٹیٹ بینک کے concolidated fundمیں ڈال دیا کئی سرکاری اداروں سے کہا گیا وہ اپنی پنشن ،بچت اور دیگر رقوم اس فنڈ میں ڈال دیں کچھ اداروں سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ راتوں رات بینکوں سے کمرشل قرضہ لیں اور وہ پیسہ بھی اسی اکائونٹ میں ڈال دیں اس کے ساتھ ہی اسحاق ڈار صاحب نے گورنر سٹیٹ بینک کو ان تمام آئی پی پیز کے ناموں کی فہرست بھیج دی جنھیں ادائیگی ہونا تھی۔
سٹیٹ بینک سے کہا گیا کہ یہ ادائیگی concolidated fundسے کر دیں پتہ نہیں چلتا تھا اس فنڈ میں پیسے کہاں سے آئے کیونکہ اس میں کھربوں روپے ہوتے ہیں جن سے حکومت ادائیگیاں کر رہی ہوتی ہے اس سمندر میں 340ارب کا کس کو پتہ چلنا تھا کہ کہاں سے آئے کتنے سود پر کس بینک سے لیا گیا اور اپنے کس بینکار دوست کو فائدہ پہنچایا گیا سٹیٹ بینک کو جو فہرست بھیجی گئی اس میں کمپنی کا نام اور اس کے سامنے رقم کی مقدار درج تھی جو اسے ادا کی جانا تھی سٹیٹ بینک نے اک گھنٹے کے اندر ادائیگی کر دی جس نے جو مانگا دے دیا گیا کوئی سوال جواب نہیں ہوا حکومت نے یہ خبر بڑے فخر سے قوم کو سنائی تو آڈیٹر جنرل بلند اختر رانا نے فوراً اس کا نوٹس لیا اور اکائونٹنٹ جنرل سے پوچھا کہ کیا 340ارب روپے ان کی اجازت اور دستخطوں سے ان کمپنیوں کو جاری ہوئے اکائونٹنٹ جنرل نے کہا انہیں یہ خبر پریس کانفرنس سے ملی ہے کہ ادائیگی کر دی گئی ہے ان سے نہیں پوچھا گیا۔
قانون کے مطابق یہ ضروری تھا کہ وذارت پانی و بجلی ان کمپنیوں کے 340روپے کے بلوں کی کاپیاں اکائوبٹنٹ جنرل کو بھیجتی وہ اس کا جائزہ لیتے کہ آیا بل درست ہیں کہ نہیں وہ سب رسیدیں چیک کرتے اور یہ بھی جائزہ لیتے کہ بجلی کے کتنے ارب یونٹ ان کمپنیوں سے خریدے گئے ان میں سے کتنے عوام کو بیچے گئے کہیں یہ بل بڑھا چڑھا کر تو نہیں بنا لیے گئے اور کمپنیوں کو کتنی ادائیگی ہو چکی ہے اور کتنی باقی ہے اس کے بعد اکائونٹنٹ جنرل نے سٹیٹ بینک کو لکھنا تھا کہ یہ رقم انہیں ٹرانسفر کر دی جائے وہ ایک چیک لکھتے اور رقوم ریلیز ہوتیں لیکن ڈار صاحب نے اس طویل عمل سے جان چھڑائی اور ایک ہی ہلے میں تین سو چالیس ارب کی ادائیگی ایک گھنٹے میں کر دی اس پر آڈیٹر جنرل نے فوراًگورنر سٹیٹ بینک کو خط لکھا اور انکوائری شروع کرا دی کہ یہ غیر قانونی کام کیسے کیا گیا ہے ؟گورنر نے یہ خط اسحاق ڈار کو بھیج دیا اور ڈار صاحب نے بلند اختر رانا کو سبق سکھانے کا فیصلہ کر لیا ادھر بلند اختر رانا نے بھی اس معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی ٹھان لی اور حکم دیا راتوں رات کی گئی اس ادائیگی کا آڈٹ کیا جائے آڈٹ میں روڑے اٹکانے کی کوشش کی گئی۔
لیکن وہ ڈٹے رہے اس دوران ڈار صاحب نے بڑی چالاکی سے فیصلہ کیا کہ بلند اختر رانا کو اکیلا کر کے اس معاملے سے جان چھڑا لی جائے چنانچہ آڈیٹر جنرل کے اختیارات وذارت خزانہ نے استعمال کرنا شروع کر دیے وذارت نے افسروں کے تبادلے کر دیے فوری طور پر اکائونٹنٹ جنرل کو آڈیٹر جنرل کے کنٹرول سے نکال کر ایک علیحدہ محکمہ بنا دیا گیا اور اس کا سربراہ ایک خاتون کو مقرر کر دیا گیا جس نے پری آڈٹ کے بغیر بھاری رقوم میٹرو بس اور دیگر منصوبوں کے لیے جاری کرنا شروع کر دیں اس کے ساتھ ہی رانا اسد امین کے مشورے سے جو ریٹائر منٹ کے بعد کنٹریکٹ پر وذارت خزانہ میں تعینات تھے آڈیٹر جنرل کے دفتر کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنا لیا گیا۔
بلند اختر رانا نے مزاحمت کی تو ڈار صاحب نے ایک اور کام کیا فوری طور پر قومی اسمبلی میں ایک سطری قانون کا ایک بل لایا گیا کہ وذارت خزانہ مستقبل میں جو بھی ادائیگی کرے گی اس کے لیے اکائونٹنٹ جنرل کے پری آڈٹ یا بلوں کو کلیئر کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی وذارت براہ راست سٹیٹ بینک کو ہدایات دے گی کسی رکن پارلیمنٹ نے اس بل کو نہ سمجھا اور اندھا دھند اس پر دستخط کر دیے یوں کرپشن کا ایک اور بڑا دروازہ کھل گیا درمیان میں چیک اینڈ بیلنس کا جھنجھٹ ہی ختم کر دیا گیا رانا بلنداختر روائتی افسر نہیں ہیں کہ برطرفی کے بعد گھر جا کر بیٹھ جاتے وہ جاتے جاتے خاموشی سے ایک ایسا کام کر گئے جو اب نواز شریف حکومت اور وذارت خزانہ کے گلے کا پھندہ بننے والا ہے۔
قارئین!اس واردات پر قانون کس طرح حرکت میں آتا ہے یہ تو میں نہیں جانتی لیکن قانون کو کس طرح اپنی مرضی کے مطابق استعمال کیا جاتا ہے وہ آپ اچھی طرح سمجھ گئے ہونگے آئین اور قانون کی پاسداری کا ڈھنڈورا پیٹنے والے قانون کے ساتھ کس طرح کا کھلواڑ کر رہے ہیں اور جیل سے چھٹے ہوئے مجرموں کا حکومت کس طرح استعمال کرتی ہے کس طرح اراکین اسمبلی کو مراعات کا لالچ دے کر آنکھیں بند کر کے غیر قانونی بل پاس کرائے جاتے ہیں کیا اس سے یہ ملک کبھی آگے بڑھ سکتا ہے؟ کبھی نہیں ،بلکہ اس کھیل کے لیے تو تعلیم کی ضرورت بھی نہیں ہے کیونکہ اگر لوگ پڑھ لکھ گئے تو وہ ان جرائم میں تمیز کرنے لگ جائیں گے ان کو پتہ چلے گا قانون کہاں توڑا گیا وہ ان جاہل اراکین اسمبلی کی طرح محض اپنے فائدے کے لیے آنکھیں بند کر کے دستخط نہیں کریں گے وہ یہ بھی دیکھیں گے کہ یہ پیسہ کس کو لوٹ کر لایا گیا ہے عمران خان لاہور میں اپنے خطاب کے دوران یہی سمجھا رہے تھے کہ اسے جمہوریت نہیں کہتے یہ آمریت کی بد ترین شکل ہے جس میں آپ کسی کو جواب دہ نہیں ہیں آپ جیسے چاہیں۔ ملک لوٹیں کوئی آپ سے پوچھنے والا نہ ہو۔
اگر کوئی پوچھ لے تو آپ کہتے ہیں جمہوریت کے خلاف سازش ہو رہی ہے جبکہ مغرب میں جہاں حقیقی جمہوریت رائج ہے وہاں ڈیوڈ کیمرون پارلیمنٹ میں آ کر اپنے اس جرم کی صفائی پیش کرتا ہے جو اس نے کیا نہیں چالیس لاکھ وہ بھی وزیراعظم بننے سے پہلے اس نے تھوڑا سا ٹیکس چوری کیا ،امریکہ کے صدر رچرڈ نکسن کو محض اس لیے ریزائن کرنا پڑا کہ اس نے مخالفین کے فون ٹیپ کروائے تھے بل کلنٹن قوم سے صرف جھوٹ بولنے پر رگڑے گئے حالانکہ ان کے دور میں امریکہ نے بے مثال ترقی کی تھی وہ قومیں اپنے لیڈر کا صرف جھوٹ بولنا بھی گوارہ نہیں کرتیں کیونکہ وہ ان سے ہائی مورل سٹینڈر کی توقع رکھتی ہیں چینی کہاوت کے مطابق مچھلی سر سے گلنا شروع ہوتی ہے اور ہمارا سر ہی گل چکا ہے۔
کل میں ایک وڈیو دیکھ ری تھی کہ بطخ کے چند بچے گٹر میں گر گئے اور پولیس والے اپنی وردیوں کی پرواہ کیے بغیر گٹر میں اوندھے منہ پڑے ہاتھ ڈال کر ایک ایک بچے کو زندہ سلامت باہر نکالا اور انکی ماں کے پاس چھوڑا یہ کوئی اور ملک تھا جس کو مغرب کہتے ہیں ہمارے ملک میں بغیر ڈھکن کے گٹروں میں انسان گر کر مر جاتے ہیں مگر اس کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو پولیس پکڑ کر لے جاتی ہے۔
عمران خان نے ایک دلخراش واقعہ سنایا کہ سترہ اٹھارہ سال پہلے جب بلوچستان میں خشک سالی کی وجہ سے جانور مرنا شروع ہو گئے تو وہاں سے لوگوں کی نقل مکانی شروع ہوگئی جس پر بلوچستان میں کیمپ لگائے گئے تو میں بھی وہاں چلا گیا وہاں میں نے ایک عورت کو دیکھا جس کی بالکل پاگلوں جیسی حالت تھی تو میرے پوچھنے پر ایک آدمی نے بتایا اس عورت کی ایک معذور بچی تھی جس کو یہ پیچھے چھوڑ آئی ہے۔ کیونکہ اس کے گھر والوں نے فیصلہ کیا اگر باقی بچوں اور مویشیوں کی زندگیاں بچانی ہیں تو اس کو یہیں چھوڑنا پڑے گا۔ لیکن اس بچی کی چیخیں اس ماں کو چین نہیں لینے دیتیں یہ بے چاری رو رو کر پاگل ہو چکی ہے تو میں نے سوچا اللہ اگر ایسا واقعہ کسی اور ملک میں ہوا ہوتا تو اب تک سرکاری ہیلی کاپٹر بچی کو لے کر آ چکے ہوتے لیکن یہاں انسانوں کی قدر جانوروں سے بھی کم ہے انہوں نے سیالکوٹ کے ساگا سپورٹس سینٹر کی مثال دی کہ اس کے مالک انٹرنیشنل سٹینڈر کے فٹ بال بنایا کرتے جو دنیا بھر میں جاتے وہ شوکت خانم کی مدد کیا کرتے تھے میں نے ایک بار صوفی صاحب سے پوچھا آپ کس ایک انٹر نیشنل سطع کی فٹ بالز بنا کر دنیا کا مقابلہ کرتے ہیں تو انہوں نے کہا اپنے ورکروں کا خیال کر کے ،ان کی خوراک صحت انکے بچوں کی تعلیم علاج معالجے کا دھیان رکھتا ہوں تو وہ بدلے میں مجھے بہترین پروڈکٹ دیتے ہیں۔
عمران خان نے کہا ہمارے لوگ جب باہر جاتے ہیں سب سے بہترین کام کرتے ہیں قانون کی پاسداری بھی کرتے ہیں دیانت داری کی مثالیں قائم کرتے ہیں کیونکہ وہاں ان کا سامنا کرپٹ حکمرانوں سے نہیں ہوتا وہ وہاں ووٹ بھی اپنی مرضی سے دیتے ہیں نہ فوج ہوتی ہے نہ پولیس ،لیکن ہم یہاں شفاف الیکشن کا تصور بھی نہیں کر سکتے انہوں نے کہا میاں صاحب میں خیبرپختونخواہ میں اربوں کا مال بنا سکتا تھا لیکن میں پھر اپنا اخلاقی جواز کھو بیٹھتا جس طرح شوکت خانم کے لیے ایک ایم آئی آر مشین لینی تھی تو ایک غیر ملکی کمپنی کا آدمی میرے پاس آیا اس نے کہا خان صاحب اگر آپ ہم سے مشین خریدیں تو ایک لاکھ ڈالر آپکے باہر کسی بھی بینک اکائونٹ میں جو آپ ہمیں دیں گے اس میں چلا جائے گا میں بڑا حیران ہوا میں نے پوچھا کیا تم نے مشین کی قیمت بڑھائی ہوئی ہے اس نے کہا یہ صرف آپ کا کمیشن ہے۔
اگر آپ مشین کی قیمت بڑھا دیں تو وہ پیسہ بھی آپکی جیب میں جائے گا تو اسی طرح ہم نے ایک اور مشین چالیس کروڑ میں خریدی اور وہی مشین ایک سرکاری ہسپتال نے ساٹھ کروڑ میں خریدی یعنی بیس کروڑ کا اس میں کمیشن کھایا گیا تو بھلا ایسا ملک کس طرح ترقی کر سکتا ہے؟ انہوں نے کہا میاں صاحب ہم سب حساب دیں گے لیکن سب سے پہلے آپ کا احتساب ہو گا اس کے بعد ہم سب اپنا احتساب کرانے کے لیے تیار ہیںشفاف احتساب اور شفاف الیکشن سے جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا وہ اور مضبوط ہوتی ہے لیکن اگر یہ نظام یونہی چلتا رہا تو خدا نخواسطہ ملک کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔
تحریر : مسز جمشید خاکوانی