تحریر :محمد اویس
آزاد کشمیر میں الیکشن قریب آتے ساتھ ہی سیاسی درجہ حرارت بڑھ گیا ہے الیکشن میں بڑی تعداد نوجوان ووٹروں کی ہے تمام پارٹیوں کی کوشش ہے کہ نوجوانوں کوقائل کرکے ان کا ووٹ حاصل کیا جائے وہ جانتے ہیں کہ جس پارٹی کے پاس نوجوان ووٹر آجایئں گے وہ مظفرآباد میں حکومت بنانے میںکامیاب ہوگی اس لیے کوئی بھی پارٹی ایسا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی جس میں نوجوا ن ووٹروں تک اپنا پیغام پہنچایا جاسکتا ہواس سلسلے میں اسلام آباد میں برٹس کونسل کے تعاون سے سی پی ڈی آر نے نوجوانوں کے لیے مواقعے اور چیلنچزکے موضوع پر سیمینار منقعد کیا جس میں آزاد کشمیر کے مختلف جماعتوں کے راہنماوں کو بلایا گیا تھاسیمنار میں تمام جماعتوں نے آزاد حکومت اور اسمبلی کو مزید با اختیار بنانے ، تعمیر و ترقی کے لئے متفقہ ریاستی پالیسی تشکیل دینے، گڈ گورننس کے قیام ،معاشی سروے کرنے اور ریاست کے اندر سیاحت اور ہائیڈروپاور جنریشن کے منصوبے شروع کر کے روزگار کے مواقع پیدا کرنے پر اتفاق رائے کیا ہے ۔
مباحثے میںاسلام آباد میں مقیم کشمیری نوجوانوںطلبہ کی ایک بڑی تعداد کیساتھ سیاسی جماعتوں کے کارکنان نے بھی شرکت کی ۔ سیمینارسے سابق وزیر اعظم و مسلم کانفرنس کے صدر سردار عتیق احمد خان آزاد کشمیر کے وزیر خزانہ لطیف اکبر ، مسلم لیگ ن کے سیکرٹری جنرل شاہ غلام قادر،جموں و کشمیر پیپلز پارٹی کے صدر سردار خالد ابراہیم اورپی ٹی آئی آزاد کشمیر کے نائب ذوالفقار عباسی ، ڈپٹی سپیکر اسمبلی شاہین کوثر ڈار ، سی پی ڈی آر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ارشاد محمود اور برٹش کونسل کے ڈپٹی ڈائریکٹر جیمز بوتھ نے خطاب کیا ۔
آزاد کشمیر کے وزیر خزانہ اور پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل چوہدری لطیف اکبر نے کہاکہ آزاد کشمیر فیصلے کرنے میں خود مختار نہیں سارے اختیارات محض کاغذوں میں ہیں وفاق میں جس کی بھی حکومت ہو وہ آزاد کشمیر سے رائٹ آف گورننس چھین لیتی ہے ریاستی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ یہاںکی حکومتوں کو با اختیار بنایا جائے اور متوازی حکومت کے نظام کو ختم ہونا چاہیے۔انہوں نے کہاکہ ہمیں بجٹ صرف کشمیر کا دیا جاتا ہے اور حساب کراچی سے کشمیر تک کا مانگا جاتا ہے اگر کسی نے ہمارا کام دیکھنا ہے تو وہ کشمیر کے اندر دیکھ لے بدقسمتی ہے کہ شعبہ تعلیم کو ڈویلپمنٹ فنڈ میں شمار نہیں کیا جاتا جبکہ یہ ایک ڈویلپمنٹ پروجیکٹ ہے اور اسکے پیسے ڈویلپمنٹ فنڈ سے لیے جاتے ہیں25 فیصد بجٹ ملازمین کی تنخواہوں میں چلا جاتا ہے آج نوجوان سرکاری ملازمت کو ہی نوکری سمجھتے ہیں حکومت کی یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ ہر ایک کو سرکاری نوکری دے ، تاہم روزگار کے مواقع پیدا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے ہمارے نوجوانوں کی اکثریت سرکاری ملازمت اس لیے کرنا چاہتی ہے کہ آرام سے تنخواہیں لیں اس لیے یہ بات مشہور ہے کہ سرکاری اہلکار کام نہ کرنے کی تنخواہ اور کام کرنے کے لیے پیسے لیتے ہیں ۔
پاکستان میں مہاجرین کے 10 حلقوں میں مناسب نمائندگی کے تحت الیکشن کرائے جائیں ۔ آزاد کشمیر میں 1985 کے بعد آج تک شفاف انتخابات نہیں ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی ایک نوجوان لیڈر کی قیادت میں کام کر رہی ہے۔پی پی پی سیاسی عمل میں نوجوانوں کی شمولیت پر یقین رکھتی ہے۔سردار عتیق احمد خان نے کہا کہ معاشی پالیسیوں پر تمام پارٹیوں کو حکومت کی سپورٹ کرنی چاہیے حکومت کی تبدیلی سے معاشی پالیسیوں کو بند نہیں کرنا چاہیے آج آزاد کشمیر حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ پیسوں کی کمی کے ساتھ پیسے خرچ کرنا بھی ہے کیونکہ حکومت کو بجٹ خرچ کرنا نہیں آتا ہے۔ یہ کہنا درست نہیں کہ 1947 کے بعد آزاد کشمیر نے ترقی نہیں کی۔ 1970 میں شرح خواندگی6 فیصد تھی جو اب بڑھ کر 70 فیصد سے زائد ہو گئی ۔ آزاد کشمیر کے 52 سبجیکٹ کشمیر کونسل کے پاس ہونے کی وجہ سے آزاد حکومت مشکلات سے دو چار ہوتی ہے ۔ اس وقت آزاد کشمیر میں دو تین متوازی نظام چل رہے ہیں جس کی وجہ سے خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ مسلم کانفرنس نے اپنے دور حکومت میں ریاست کے اندر فنی تعلیمی اداروں کے قیام کے علاوہ کشمیر بنک، ٹیوٹا، اے جے کے آر ایس پی سمیت نئے ادارے قائم کئے اس وقت ان اداروں کے لئے منتظمین نہیں مل رہے تھے۔ ۔ سردار خالد ابراہیم نے کہا کہ میری باتیں نوجوان نسل بری لگے گیںمگر میں ان سے پیشگی معذرت کرتا ہوں کہ جب ووٹ ڈالنے کی عمر زیادہ تھی تو میں چار مرتبہ اسمبلی کے الیکشن میں کامیاب ہوا تھا مگر جب سے عمر کم ہوئی ہے میں تین مرتبہ ہارا ہوں۔ آزاد کشمیر کے 4 لاکھ سے زائد نوجوان معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں ۔ہماری نئی نسل پیسے کی قدر نہیں کرتی کشمیری بیرون ملک سے پیسے بھیجتے ہیں اور یہاں پر ان کے رشتہ دار اس پیسے سے انصاف نہیں کرتے ۔
یہ تصور غلط ہے کہ کشمیر میں بیرون ممالک سے رقوم بھیجنے سے اکانومی مضبوط ہوتی ہے جب ہمارے لوگ باہر نہیں جاتے تھے اس وقت بھی ہماری اکانومی کی صورتحال بہتر تھی انہوں نے کہاکہ آزاد کشمیر پاکستان کا ڈی فیکٹو صوبہ ہے مگر اس کا اسٹیٹس صوبے سے بڑا ہے جس میں اپنا صدر ، وزیر اعظم اور سپریم کورٹ ہے ۔ غیرترقیاتی بجٹ کی مد میں تعلیم اور محکمہ لوکل گورنمنٹ کے اخراجات کو ڈالنا درست نہیں ۔ یہ دونوں شعبے ترقیاتی کام کر رہے ہیں ۔ تعلیم کے اخراجات کو کس طرح غیر ترقیاتی کہا جا سکتا ہے ۔ آزاد کشمیر میں 40 ہزار سرکاری ملازمین تعلیم و تربیت کے شعبے سے وابستہ ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اور ریاست کا کام نوکریاں فراہم کرنا نہیں بلکہ روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہے۔ آزاد کشمیر صرف ایک جغرافیائی ٹکڑا نہیں آزادی کی تحریک کا نام ہے۔ آزاد کشمیر کی پرانی قیادت دیانتدار تھی اب دیانتداری وصف نہیں رہا ۔ یقین ہے کہ 220آف شور کمپنیوں میں آزاد کشمیر کے سیاستدانوں کی بھی کمپنیاں ہیں جلد ان کے نام بھی سامنے آئیں گیا۔ مسلم لیگ ن کے سیکرٹری جنرل شاہ غلام قادر نے کہا کہ ن لیگ برسراقتدار آکر آزاد کشمیر میں سیاحت اور ہائیڈل پاور کے شعبوں کو ترقی دے گی جس سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونگے اور حکومت کی آمدن میں بھی اضافہ ہو گا ۔ ایجوکیشن سینٹر قائم کیے جائیں گے اور ملا زمتوں سمیت ہر شعبہ میں میرٹ کو فروغ دیں گے ۔
کشمیر کونسل کی سپیکر شاہین کوثر ڈار کا کہنا تھا کہ طلبہ یونینز پر پابندی ختم تو ہو گئی مگر یہ مسائل کا حل نہیں جلد از جلد طلبہ یونینز کے الیکشن ہونا چاہیں کیونکہ یہ سیاست کے لیے نرسریوں کا کردار ادا کرتی ہیں صرف حکمرانوں پر ننقید سے مسائل حل نہیں ہونگے ہمیں بھی اپنے کاموں پر نظر کرنی ہوگی کہ آزاد کشمیر میں استاد سکول نہیں جاتے اور تنخواہیں لیتے ہیں اس لئے ہم بایو میٹرک نظام متعارف کرواہے ہیںسیمینار میں شریک ایک نوجون جو مقرین کی ہر بات کی نفی کررہا تھا میں نے اس سے سوال کیا کہ آپ کا سیاسی راہنماوں کے بارے میں کیا خیال ہے اور کون سی کشمیرپارٹی آپ کے خیال میں صحیح ہے ؟
اس نے جواب دیا تمام پارٹیں باتیں کرتی ہیں کام کوئی نہیں کرتا ہے سارے کرپٹ ہیں میں نے کہا پھرتو آپ کسی کو ووت نہیں دیتے ہوں گے ؟جواب دیا ووٹ تو ڈالنا فرض ہے بڑے جس کی سفارش کرتے ہیں اس کو ووٹ دیتا ہوں آپ اگر پہلے خود ووٹ دیے اور بعد میںکہے کہ یہ سارے کرپت ،۔،۔اور۔ ہیں تو یہ انصاف نہیں ہے ۔سیمینار میں شریک نوجوانوں نے کا ایک ذہن بنایا گیا تھا کہ جس نے بھی کوئی ڈگری کرلی ہے اس کوسرکاری ملازمت دینا حکومت کی ڈمہ داری ہے طلبہ کی اس غلط فہمی کو مقررین نے بڑی حد تک دورکردیا طلبہ کو چاہیے کہ جو بھی سٹیج پرہو اس کی عزت کریں اگر آپ کسی کی عزت نہیں کریں گے توآپ کی بھی عزت نہیں کی جائے گی یہ ایک سادہ سا اصول ہے اگر آپ کسی سے اختلاف رکھتے ہیں تو آپ کو اسکا حق ہے مگر آپ کو یہ حق حاصل نہیں کہ اس کے لیے آپ غلط زبان استعمال کریںاگر آپ سیاسی راہنمائوں پر تنقید کرتے ہیں تو ان کا جواب بھی آپ کو اس طرح سنا چاہیے جس طرح وہ آپ کے سوال کو سنتے ہیں الیکشن میں اپنا ووٹ کا حق استعمال کریں اور جو ممبرآپ کو صحیح لگتا ہے اس کو ووٹ دیںجس کو بھی ووٹ دیں اس کا ماضی اور مستقبل کا منشوردیکھ کرووٹ دیں۔
تحریر :محمد اویس
awaisjournalist1@gmail.com