دل تو نہیں چاہتا تھا کہ اس موضع پر کوئی ’’ گستاخی ‘‘ کروں مگر واپڈا والوں کی مہربانی کہ انہوں نے مجھے یہ موقع بھی فراہم کر ہی دیا ۔ واپڈاوالوں کی چھوٹی چھوٹی ’’ چھیڑ خانیاں ‘‘ تو روز مرہ کی بات ہیں اور میرے جیسا ٹھنڈے مزاج کا آدمی اس پر کالم لکھنے کیلئے اتنی آسانی سے رضامند نہیں ہوتا بقول ابن صفی مرحوم ’’ واپڈا والوں کی حالت اب یہ ہو چکی ہے کہ پانچ سات جوتوں سے عزت جاتی نہیں اور پانچ سات سو مارنے کون آتا ہے ؟ ‘‘
ہوا کچھ یوں کہ رات کے پچھلے پہر اچانک بجلی جو بند ہوئی تو مچھروں نے بھی موقع غنیمت جانا ،پے در پے حملے کرنا شروع کر دئیے جب آنکھیں بند کرنے پر بھی نیند نہیں آئی اور جسم پر پسینے کے آثار واضح ہونے لگے تو میں اندھیرے میں ٹٹول کر موبائل تلاش کرنے کی کوشش کرہی رہا تھا کہ اچانک موذن کی آواز سنائی دی ۔ سو بستر سے اٹھ کر مسجد چلا گیا ، نماز فجر اور ذکر و اذکار کے بعد کافی دیر سے گھر پہنچا ، سورج طلوع ہو چکا تھا ۔ بجلی کا انتظار کرتے کرتے پتہ نہیں کس وقت میں نیند کی گہری وادیوں میں چلا گیا کافی دیر کے بعد آنکھ کھلی تو وقت دیکھا تو چودہ بلکہ پچیس چھبیس طبق روشن ہوگئے اور ہاتھوں کے چڑیاں ، طوطے ، کوّے ، کبوتر سب پُھر سے اڑ گئے جبکہ بجلی ابھی تک نہیں آئی تھی ۔
میں نے کسی فنکشن میں جانا تھا اور وقت انتہائی کم تھا میں نے سوچا واپڈا شکایات دفتر کال کر کے پوچھوں کہ جناب ہم سے کیا غلطی سرزد ہو ئی ہے جسکی یہ سزا ہمیں دی جا رہی ہے ؟
مگر یہ کیا کہ لائن تو پہلے سے ہی مسلسل مصروف ہے تو میں نے صحافت کا تھوڑا سا فائدہ لینے کا سوچا اور گرِڈ اسٹیشن کا نمبر ڈائل کیا وہاں ٹیلی فون کی گھنٹی تو مسلسل بجتی سنائی دیتی رہی مگر کسی نے ہمارے فون کو لفٹ نہیں کرائی ، بس یہاں سے ’’ عزت افزائی ‘‘ کے بعد غصے کے مارے بیگم سے بجلی کا بل منگوایا کہ ذرا بل تو لاؤ میں ایس ڈی او کو کال کروں ، بیگم جو کافی دیر سے ہمیں ٹیلی فون پر ’’ کجھل خراب ‘‘ ہوتے ہوئے دیکھ رہی تھیں ، اور ہر بار ناکامی پر کرکٹ میچ کی طرح رواں تبصرہ بھی کررہی تھیں، ایس ڈی او کا نام سن کر یوں مسکرائیں کہ کچھ نہ پوچھو ۔ جسکا واضح مطلب کچھ یوں تھا کہ آپ کو شکایات دفتر اور گرِڈ والوں نے تو لفٹ نہیں کرائی تو ایس ڈی او کے بارے میں تو سنا ہے کہ ’’ افسر ‘‘ ہوتا ہے سو بیگم کی پشین گوئی درست ثابت ہوئی ایس ڈی او کا نمبر پہلے تو مسلسل مصروف جا رہا تھا پھر بند ہو گیا اور ایک ’’ محترمہ ‘‘ ہمیں ٹیلی فون پر بہ زبان اردو اور انگریزی مسلسل تھوڑی دیر بعد رابطہ کریں کا مشورہ دیتی رہیں کہ صاحب ’’کہیں ا ور مصروف ہیں‘‘ ۔
سو میری حالت اس بندے جیسی ہو گئی جو کافی دیر سے آٹے اور چینی کے حصول کیلئے لائن میں لگاہو ا تھا مگر باری آ ہی نہیں رہی تھی سو اس نے مارے غصے کے آستینیں چڑھائیں اور با آواز بلند یہ کہتا ہوا نکلا کہ میں (ایک سابق صدر جسکا فیس بک پر بڑا چرچا تھا) کو گولی مار کر ہی واپس آؤں گا ، جب کافی دیر کے بعد واپس آکر خاموشی سے لائن میں لگ گیا تو لوگوں نے پوچھا تم تو گولی مارنے گئے تھے پھر واپس کیوں آگئے ہو ؟ تو اس نے کہا کہ ’’ وہاں اس سے بھی بڑی لائن لگی ہوئی ہے ‘‘ ۔ سو ایس ڈی او سے ہٹ کر میں واپس شکایات والی لائن میں آگیا جہاں حسب سابق ’’نو لِفٹ ‘‘ کی ٹوں ٹوں سنائی دے رہی تھی ۔ میں نے پھر گرِڈ کا نمبر ملایا تو اتفاق سے کسی نے فون اٹھایا میں نے حیرت پر قابو پاتے ہوئے مخاطب سے سوال کیا جو آواز سے کوئی چوکیدار باباجی ٹائپ لگ رہے تھے انہوں نے بتایا کہ بجلی ’’ پچھوں ای بند اے ‘‘ وہ کچھ نہیں کر سکے ، بجلی پتہ نہیں کب آئے گی ۔ سو میں نے گلی میں لگے ہوئے نلکے سے پانی لے کر کام چلایا،
شام کو گھر واپسی ہوئی بجلی پھر بھی بند تھی پتہ چلا کہ آئی تو تھی مگر تھوڑی دیر کیلئے ۔ میں نے بجلی کا بل اٹھایا اور ایکس ای این کا نمبر ملایا جو کافی تگ و دو کے بعد آخرِ کار مل ہی گیا جو اتفاق سے میرے جاننے والے تھے ۔ سلام دعا اور تعارف کے بعد میں نے ان کوبجلی کی بندش اوران کے عملے اور ایس ڈی او کی اعلیٰ کاکردگی کا احوال بتایا تو وہ بولے کہ ’’ ہم زیادہ تر فون اس لئے نہیں اٹھاتے کہ لوگ گالیاں دیتے ہیں ہم کیا کریں ‘‘ میں نے کہا اگر گالیاں دینے سے یہ مسئلہ حل ہوتا تو میں آپ کو ’’ باجماعت ‘‘ گالیاں دیتا ۔ انہوں نے ہنستے ہوئے فون بند کر دیا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لوگ گالیاں نہ دیں تو اور کیا کریں ۔ بقول شہنشاہِ طنز و مزاح پطرس بخاری ایک بار انکی گھڑی خراب ہو گئی انہوں نے ایک دکان میں دیوار پر گھڑیاں لٹکی ہوئی دیکھیں ۔ جاکر پوچھا آپ گھڑیاں ٹھیک کرتے ہیں ؟
انہوں نے کہا کہ نہیں ہم گھڑیاں ٹھیک نہیں کرتے ۔ تو آپ کیا کرتے ہیں ؟ انہوں نے پوچھا ۔ جواب ملا : ہم ختنے کرتے ہیں ۔ پطرس بخاری مرحوم نے کہا کہ پھر آپ نے گھڑیاں کیوں لٹکا رکھی ہیں اگر ہم گھڑیاں نہ لٹکائیں تو آپ ہی بتائیں کہ ’’ ہم کیا لٹکائیں ‘‘ جواب ملا ۔
سو قارئین کرام ۔۔۔ واپڈا عوام کے ساتھ جس ’’ حسن سلوک ‘‘ کا مظاہرہ کرتا ہے لوگ گالیاں نہ دیں ’’ تو اور کیا لٹکائیں ‘‘ اوہ ۔۔۔۔ سوری کیا کریں ۔آپ ہی بتائیں؟؟؟