تحریر : علی عمران شاہین
بنگلہ دیش میں حسینہ واجد نے ایک اور مظلوم کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا۔ 73 سالہ مطیع الرحمن نظامی جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیر تھے۔ ملک کے دو مرتبہ وفاقی وزیر بننے والے مطیع الرحمن نظامی کو جس جرم کی سزا دی گئی ،اس کی ایف آئی آر بھی دنیا میں کوئی درست قرار نہیں دے سکتا۔ حسینہ واجد نے اس مطیع الرحمن نظامی کو پھانسی دی ہے، جن کی جماعت کے ساتھ وہ اس سے پہلے اتحاد بھی بنا چکی ہے۔ حسینہ واجد کی حکومت نے 2009ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد ایک خصوصی ٹربیونل قائم کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ 1971ء کی جنگ کے حوالے سے جرائم کا جائزہ لے گا اور اس میں ملوث لوگوں کو سزا دے گا۔ اب تک اس ٹربیونل نے 6لوگوں کو سزائے موت دے کر پھانسی کے پھندے پر لٹکایا ہے جبکہ 170سے زائد لوگوں کے مقدمات زیرالتوا ہیں۔ 73سالہ مطیع الرحمن نظامی کی سزائے موت کے خلاف پاکستان اور بنگلہ دیش کے علاوہ دنیا بھر میں احتجاج ہو رہا ہے۔ ترکی نے تو غیرت رفتہ کا تاریخی مظاہرہ کر کے بنگلہ دیش سے اپنا سفیر تک واپس بلا لیا ہے۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر ترک صدر رجب طیب اردوان نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ وہ ایسے تمام مسلمان سربراہان مملکت کی پرزور مذمت کرتے ہیں جو اس ظلم و دہشت گردی پر خاموش ہیں۔
حیرت تو ہمیں اپنے ملک اور اپنے ملک کے حکمرانوں پر ہے کہ جو 2010ء سے یہ ظلم دیکھ رہے ہیں اور انہیں اس پر ٹس سے مس ہوتا دیکھا نہیں جا رہا۔ مطیع الرحمن نظامی کی پھانسی کے بعد قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی نے مذمتی قرارداد پاس کی، حکومتی عہدیداران کے مخالفانہ بیانات بھی سامنے آئے لیکن سوچنے کی ، بات یہ ہے کہ کیا یہ ردعمل اس ردعمل کا پاسنگ بھی قرار دیا جا سکتا ہے جو پانامہ لیکس کے حوالے سے ہمارے وزیراعظم، ان کی ٹیم اور دیگر حکومتی کیمپ کے لوگ مسلسل دے رہے ہیں۔ پانامہ لیکس کا معاملہ چونکہ اپنی ذات کا ہے۔
لہذا اس پر ردعمل بھی شدید دکھایا جا رہا ہے۔پانامہ لیکس کے معاملے میںہمارے ملک کی سیاسی پارٹیاں بھی خوب خوب حصہ ڈال رہی ہیں لیکن بنگلہ دیش میں ان مظلوموں کی موت و حیات کی کسی کو فکر نہیں کہ جو پاکستان کو متحد رکھنے کی جدوجہد کی پاداش میں اب بوسیدہ ہڈیوں کے ساتھ پھانسی کے پھندوں پر جھول رہے ہیں۔ ان لوگوں کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے1971ء میں بھارت، بھارتی فوج اور مکتی باہنی کا ساتھ دینے کے بجائے پاکستان کے دفاع کیلئے جدوجہد کی تھی کیونکہ اس وقت تو مشرقی و مغربی پاکستان ایک ہی جسم کا حصہ تھے اور ایک ملک کے رہنے والو یہی کو کچھ کرنا چاہئے تھا۔
جب سقوط ڈھاکہ ہو گیا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا تو وہاں کے رہنے والے لوگوں نے بنگلہ دیش کو اپنا وطن بھی تسلیم کر لیا اور اس کے آئین و قانون کو تسلیم کر کے اسی کے مطابق وہاں زندگی بسر کرنا شروع کر دی۔ 45سال کے عرصہ میں کوئی یہ نہیں بتا سکتا کہ آج عمر کے آخری حصوں میں پھانسی گھاٹوں پر پہنچنے والے ان عمر رسیدہ لوگوں نے بنگلہ دیش کے وجود کے خلاف کبھی کوئی لفظ بھی اپنی زبان سے ادا کیا ہو بلکہ انہوں نے تو اپنے نئے مل کے ساتھ وفاداری کا ہر حق ادا کیا لیکن پھر بھی یہ آج معتوب ٹھہرے ہیں۔ تاریخ میں تو یہ رقم ہے کہ 9اپریل 1974ء کو پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے مابین ایک سہ فریقی معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت یہ قرار پایا تھا کہ 1971ء کی جنگ کا کوئی مقدمہ اب کوئی ملک کسی دوسرے ملک کے شہری پر یا اپنے ملک کے شہری پر نہیں چلائے گا۔
شیخ مجیب الرحمن نے اس موقع پر کھلے لفظوں میں کہا تھا کہ ہم ماضی کو بھلا کر آگے بڑھ سکتے ہیں اور ہمیں یہ کرنا ہو گا۔ اس معاہدے کے تحت بھارت اور بنگلہ دیش سے پاکستانی فوجی افسران و جوان رہا ہو کر آئے تھے۔ آج جب 45سال بیت چکے ہیں تو حسینہ واجد نے بھارت کی شہ پر اپنے ہی محب وطن شہریوں کو صرف اور صرف پاکستان سے محبت کے نام پر قتل کرنا شروع کر دیا ہے۔ مطیع الرحمن نظامی کی شہادت کے بعد تو بھارت نے باقاعدہ طور پر اس مجرمانہ اور شنیع فعل کی بھرپور تائید کی۔کون نہیں جانتا کہ اس وقت بنگلہ دیش میں عملی طور پر بھارت ہی کی حکومت ہے اور دونوں ملک پاکستان دشمنی پر جمع ہیں۔
چند ماہ پہلے جب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ڈھاکہ کا دورہ کیا تھا تو اس وقت اس نے حسینہ واجد کو جو تصویر بطور تحفہ پیش کی تھی وہ ریس کورس میدان ڈھاکہ میں پاکستانی جنرل اے کے نیازی کی جانب سے بھارتی جنرل اروڑہ کے سامنے ہتھیارڈالنے کی تھی۔ اسی وقت نریندر مودی نے کہا تھا کہ اسے اس بات پر فخر ہے کہ اس نے پاکستان توڑ کر بنگلہ دیش بنانے کے عمل میں حصہ لیا تھا۔ افسوس کہ وہی مودی پاکستان میں بن بلائے مہمان کے طور پر جب لاہور پہنچا تو اس کا ایسا استقبال کیا گیا کہ جیسے وہ پاکستان کا محسن اعظم ہے۔
حسینہ واجد کی پاکستان دشمنی اس قدر حد سے گزر چکی ہے کہ اس نے پاکستان سے اپنے ہاں ایسے لوگوں کو خاص طور پر یہ اعلیٰ ایوارڈ دینے کے لئے خصوصی دعوت دے کر بلایا تھا جنہوں نے1971ء کی جنگ میں پاکستان توڑنے کے عمل میں حصہ لیا تھا۔ اگر وہ لوگ زندہ نہیں تھے تو ان کی اولاد وہاں مدعو تھی۔ ہمارے ملک کا یہ کیسا المیہ ہے کہ جو جتنا بڑا غدار ہے، وہ اس قدر معزز و محترم ہے۔ اور جو ملک کی خاطر آج بھی پھانسیوں پر جھول رہے ہیں، وہ اتنے ہی بڑے مجرم ہیں۔
دنیا میں احسان کشی سے بڑا کوئی اخلاقی جرم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بنگلہ دیش میں پھانسیاں پانے والے ہمارے وطن کے محسن تھے اور آج اگر ہم نے انہیں بچانے کے لئے کچھ نہ کیا تو تاریخ کا بے رحم احتساب پھر ہمیں ضرور یاد رکھنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کی بھی یہ سنت اور طریقہ ہے کہ وہ آخرت کے عذاب و سزا سے پہلے دنیا میں بھی ایک بڑا حساب کرتا ہے تاکہ آئندہ آنے والی نسلیں اس سے سبق سیکھتی رہیں۔ یہ گواہی بھی تاریخ میں موجود ہے کہ جن جن لوگوں نے پاکستان توڑ کر بنگلہ دیش بنانے میں کردار ادا کیا تھا وہ سبھی عبرتناک انجام سے دوچار ہوئے اور ان کی نسلوں کے بڑے حصے بھی مٹ گئے۔
ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اگر ہم نے مظلوموں کی مدد کے لئے کوئی قدم نہ اٹھایا اور پھر بھی تماشہء فردا بنے رہے تو عذاب الٰہی کا کوڑا ہمارے اوپر بھی برس سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں دیر تو ہے لیکن اندھیر قطعاً نہیں۔ اپنی ذات کو بچانے کے لئے تن من دھن کی بازی لگانے والے یہ کیسے بھول جاتے ہیں کہ دوسرے انسان بھی اسی طرح گوشت پوست کے بنے ہوئے ہیں جیسے کہ وہ خود ہیں۔ یہ بے حسی ختم ہونی چاہئے۔
بنگلہ دیش کے مظلوموں کی مدد کیلئے ہمیں آگے بڑھنا چاہئے تاکہ اس مدد کے نتیجے میں ہمارا رب بھی ہم سے راضی ہو۔ اس کے لئے محض مطالبات پر اکتفا کرنا درست نہیں ہے۔ پاکستان کو فوری طور پر معاملہ اقوام متحدہ، او آئی سی اور عالمی عدالت انصاف میں اٹھانا چاہئے، سہ فریقی معاہدہ سامنے لانا چاہئے۔ بنگلہ دیش سے ہمیشہ کیلئے نہ سہی، وقتی طور پر ہی سفارتی تعلقات منقطع کر کے کچھ تو غیرت و حمیت کا مظاہرہ کر دیں۔
پاکستان کے دنیا میں 200کے قرین ملکوں میں سے محض 80میں سفارت خانے اور سفارتی تعلقات ہیں ۔اگر تھوڑا عرصہ بنگلہ دیش میں غیر متعلقہ ممالک میں شامل ہو گیا تو کوئی قیامت نہیں ٹوٹ پڑے گی۔ ہم ترکی سے میٹروبس، صفائی کا نظام، ٹیکسی سکیم اور دیگر ایسے منصوبے اپنے ملک کے لئے لے سکتے ہیں، تو کیا کچھ تھوڑی سی غیرت ملّی او رانسانی ہمدردی کا سبق نہیں لے سکتے؟
تحریر : علی عمران شاہین
(برائے رابطہ 0321-4646375)