تحریر : محمد ریاض پرنس
ابھی جون شروع ہی نہیں ہوا کہ سورج نے اپنا آپ دیکھنا شروع کر دیا ہے ۔اور غریب عوام کو اپنی تپتی ہوائوں میں جکڑ لیا ہے ۔جیسے ہی سورج نے اپنا رنگ دیکھایا عوام بلک اٹھے اور ہر طرف گرمی ہی گرمی کی لہر دوڑ گئی ۔سورج نے آگ برسنا شروع کر دی، انسان اور جانور ٹھنڈا پانی پینے کو ترس اٹھے ۔بجلی کا بار بار ٹرپ کر جانا عوام کے وابالے جان بن چکا ہے اسکی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بجلی نہ ہونے سے بہت سی اموات ہو رہی ہیں ۔ گرمی کی بڑھتی ہو شدت کی وجہ سے لوگ اس کی لپیٹ میں آگئے ہیں۔ ہر طرف گرمی ہی گرمی اور ‘ہو’ کا منظر دیکھائی دے رہا ہے ۔
مگر ہمارے حکمران گھروں میں ACلگا کر خوب عوام کی نمائندگی کر رہے ہیں ۔ ہمارے حکمرانوں کو عوام کی کوئی فکر نہیں ۔ان کو کوئی علم نہیں کہ ہماری عوام کا کیا حال ہے وہ صرف کرسی کے نشے میں ایک دوسرے کے اوپر ایوانوں اور جلسے جلوسوں میں ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے ہیں ۔اس لئے ہمارے حکمران ایوانوں میں بیٹھ کر ایک دوسرے کے اوپر کیچڑ اوچھلنے میں مصروف ہیں ۔بجلی کی لوڈشیڈنگ نے عوام کا جینا اجیرن کر دیا ہے ۔مگر ہمارے نمائندے عوام کا پیسہ کھانے میں مصروف ہیں ۔اسمبلی کے اجلاس کا ایک دن کا خرچہ اگر آپ کو پتہ چل جائے آپ حیران رہ جائیں گے ۔ کہ ہمارے نمائندے ہر روز اسمبلی کے اجلاس میں کتنا عوام کا پیسہ اڑ ا رہے ہیں۔ مگر رزلٹ کچھ بھی نہیں ۔ ہر روزاجلاس ہوتے ہیں مگر کروڑوں کا خرچہ کرنے کے بعد اجلاس ملتوی کر دیا جاتا ہے۔
ہمارے حکمرانوں اور نمائندوں کو عوام کا کوئی خیال نہیں ہر روز ان کے نئے وعدے سننے کو ملتے ہیں ۔ہم وہ کردیں گے یہ کردیں گے ۔ مگر ان سے ہوتا کچھ بھی نہیں ۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے نمائندے خود ہی نہیں چاہتے کہ عوام کا کچھ بھلا ہو سکے۔ وہ اس لئے کہ اگر عوام خوشحال ہو گئی تو پھر ان کو ن پوچھے گا ۔ کون ان کے پیچھے چکر لگائے گا ۔ کون ان کے وعدوں کا اعتبار کریگا۔ کون ان کی امیدوں پر زندگی گزارے گا ۔ایک وجہ تو یہ ہے اس لئے یہ عوام کو الیکشن کے دنوں میں بیوقوف بنا کر ان سے ووٹ لے لیتے ہیں۔ اس کے بعد پھر آپ کو پتہ ہی ہے ۔ اگر امیر کی شادی ہو تو لاکھوں لوٹاتے ہیں ۔اور اگر کسی غریب کی ہو تو اس کی شادی پر چکر لگانا اور اس کی خوشی میں شامل ہونا بھی اپنی توحین سمجھتے ہیں۔اور دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ جب یہ نمائدے کسی منصوبے کی منظوری کروالیتے ہیں تو دوسری پارٹی ،یعنی مخالف گروپ اس کے خلاف سٹے لے لیتا ہے اور وہ کام ہونا تو کیا وہ منصوبہ ہی دفن ہو جاتا ہے اور اس گرانٹ کو کچھ مل کر کھا پئی لیتے ہیں ۔
حکمرانوں یہ وہی عوام ہے جو آپ کو سڑک سے اٹھا کر ایوانوں میں پہنچاتی ہیں آپ سب اس کے منہ سے نوالہ چھین رہے ہیں ۔ کوئی شرم ہوتی ہے ۔ مگر آپ سب تو اب بے شرم ہو چکے ہیں ۔آپ سے عوام کیا امید کرسکتی ہے ۔ اور آپ عوام کے لئے کیا کرسکتے ہیں کبھی آپ نے سوچا ہے ۔ مگر آپ کو کبھی اس عوام کے بارے میں سوچنے کی فرصت ہو تو پھر ہے نا۔ آپ کو عوام کا پتہ ہو کہ وہ کس حال میں ہے اور ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ۔ آپ تو عوام کے پیسے پر راج کر رہے ہیں ۔ مگر عوام دن بدن آپ کے وعدوں کی نظر ہو رہی ۔
پاکستان کے نوجوانوں کے لیڈر کپتان صاحب پتہ نہیں کس دور کی سیاست کر رہے ہیں ۔ اگر میں یہ کہوں کہ عمران خاں صاحب نے اپنی سیاست کا بیڑا غرق کر لیا ہے تو وہ درست ہو گا ۔ عمران خاں صاحب کو جو کام اسمبلی میں بیٹھ کر کرنا چاہئے تھا وہ تو وہ کر نہیں رہے ۔ بس صرف ایک ہی بات وہ بار بار کرتے رہتے ہیں ۔ میاں صاحب ہم آپ کے ساتھ وہ کر دیں گے یہ کردیں گے ۔ او بھائی کچھ کر کے دیکھائو گے تو عوام کو پتہ چلے گا ۔نعرے لگانے اور ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے سے انسان نہ تو برا ہوتا ہے اورنہ اس کا ہم کچھ کر سکتے ہیں جب تک ہم ظلم کے خلاف آواز بلند نہیں کریں گے تو ظلم کو کیسے ختم کریں گے ۔ظلم کو ہاتھ سے روکیں گے تو وہ ختم ہو گا۔ صرف باتیں کرنے سے نہیں ۔کبھی بھی نہیں ۔
اس لئے کہ ہم اپنی عوام کے ساتھ ہیں ہی نہیں ہم تو صرف کرسی کے نشے میں پتہ نہیں کیا کچھ کہہ دیتے ہیں ۔ جس کا بعد میں کوئی رزلٹ ہی نہیں آتا بس ہر کوئی عوام کو کھانے اور پریشان کرنے میں لگا ہواہے۔ ہر روز عوام کو نئے وعدوں اور امیدوں سے نواز دیا جاتا ہے ۔ اور فائدہ صرف ہمارے نمائندوں کے رشتہ داروں کو ہوتا ہے ۔ جو بھی ملتا ہے وہ پہلے ان کے لئے بعد میں عوام کو کیا ملنا صرف وعدے ۔اس لئے اگر برا ہو رہا ہے تو ملک پاکستا ن کی غریب عوام کا اور اگر فائدہ ہو رہا ہے تو صرف ہمارے سیاستدانوں کا ۔
ہمار ا پیار ملک ان سیاستدانوں کی غلط منصوبہ بندئیوں کی بدولت مقروض ہوا ہے ۔ اگر یہ سیاستدان اس ملک کی کرسی حاصل کرنے کیلئے ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے ہیں تو عوام کے ساتھ کہاں مخلص ہوں گے ۔ ہمارے ملک میں کتنے بڑے بڑے سیاستدان موجود ہیں اگر وہ پاکستان اور اس کی عوام کے خیرخواہ ہیںتو اپنی اپنی دولت پاکستان کا قرضہ اتارنے کے لئے پیش کریں ۔پھر دیکھیں گے کہ کون کتنے پانی میں ہے او ر کون پاکستان اور اس کی عوام کے ساتھ مخلص ہے ۔دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا اور کون کون پاکستان چھوڑ کر جاتا ہے ۔یہ بھی پتہ چل جائے گا۔ اگر یہ سب مل کر ایسا کردیں تو ہمار ا ملک قرضے سے پاک ہو جائے گا۔ہمارے اوپر ہر سال سود کی مد میں بہت سا پیسہ قرضے میں شامل ہو رہا ہے جس کی وجہ سے ہم آج خوشحال نہیں ہو رہے اور ہمارا ملک ترقی نہیں کر رہا۔ اس سے بچنا پڑے گا ۔ تب جا کر ہم ترقی کر سکیں گے ۔
آج ہمارے یہ سیاستدان جو عوام کی نمائندگی کرنے کے لئے منتخب ہوتے ہیں ۔ اگر وہ عوام کے ساتھ مخلص ہیں تو اپنا سرمایہ پاکستان میں لگائیں اور اس کی عوام کی بہتری کے لئے اپنا کردار ادا کریں ۔اپنی عوام کو لوڈشیڈنگ ،بے روزگاری ،دہشت گردی جیسے عذاب سے نکلائیں ۔اور پاکستان کے بہتر مستقبل کے لئے اچھی منصوبہ بندی کریں اور اس ملک کی عوام کو خوشحال بنائیں ۔اور ایک دوسرے کے اوپر کیچڑ اچھانے سے گریز کریں ۔ایسا کرنے سے آپ کبھی ایک اچھاانسا ن اور ایک اچھا سیاستدان نہیں بن سکتے ۔جب تک آپ اپنے ملک اور اس کی عوام کے ساتھ مخلص نہیں آپ کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکے۔اور کبھی بھی آپ کو کوئی اچھا انسان نہیں سمجھے گا۔ اگر اچھا انسان اور سیاستدان بننا ہے تو پاکستان کے نوجوانوں کے بہتر مستقبل کے لئے اپنا پھر پور کردار اداکرنا ہو گا۔ تاکہ پاکستان کے بچے بچے کو انصاف مل سکے اور وہ خوشحال زندگی گزارسکیں۔
تحریر : محمد ریاض پرنس
03456975786