تحریر : سعید بادشاہ
وفاق کے زیر انتظام ساتوں قبائلی ایجنسیوں میں ایک عشرے تک کی شورش اور بدامنی لہر سے تعلیمی نظام کا ڈھانچہ مفلوج ہونے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ سینکڑوں سکول تباہ اور اتنی ہی تعداد میں جزوی طور پر متاثر ہوئے ہیں۔ جس کا براہ راست اثر خطے میں تعلیمی شرح کم ہونے کی صورت میں پڑ رہا ہے۔
جنگ اور آپریشنز کے بعد آئی ڈی پیز بننے والے والدین نے اپنے ہزاروں بچوں میں سے قلیل تعداد کا اپنے علاقوں سے دور رہ کر بمشکل ہی تعلیمی سلسہ جاری رکھا ہوا ہے جبکہ اکثریت غربت کی وجہ سے چائلڈ لیبر میں جانے پر مجبور ہوئے ۔ ہر دور حکومت میں سیاسی وانتظامی قائدین نے فاٹا میں بدامنی کی وجہ جہالت اور غیر فعال تعلیمی نظام کو قرار دیا جا رہاہے۔اور ہرایک امن وروشن مستقبل کی ضمانت حصول علم کوگردانتے ہیں۔
فاٹا میں فوجی اپریشنز کے بعد کلیئر ہونے والے علاقوں میں متعین سکیورٹی فورسز نے اپنے وسائل سے بعض علاقوں میں ہنگامی طورپرکچھ سکول کھول رکھے ہیں۔اور جہاں پر سکول تباہ ہوئے ہیں یا امن کا مسئلہ ہو وہاں پر سول انتظامیہ کی بھر پور مدد کرکے سکیورٹی کے ساتھ ساتھ ماحول کو ساز گار بنانے کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مگر فاٹا میں سرکاری سکولوں میں درکار سہولیات کافقدان، تدریسی عملے کی بے ترتیب طریقہ کار اور ڈیوٹیوں میں کوتاہیاں ایسے حقائق ہیں جس سے منہ موڑنا مناسب نہیں۔موجودہ حکومت نے بھی فاٹا میں متاثرین کی بحالی سمیت تعلیمی اصلاحات لانے کے اعلانات کئے ہیں۔
گورنر خیبر پختونخوا نے گزشتہ ماہ فاٹا میں تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کرکے خصوصی داخلہ مہم کا آغاز کر دیا تھا،جس کا مقصد قبائلی علاقہ جات میں رہنے والے ہر بچے کے لئے تعلیم لازمی قرار دیا گیا تھا۔اس سلسلے میں میں مختلف مکاتب فکر بشمول عمائدین،محکمہ تعلیم اور پولیٹکل انتظامیہ نے لوگوں میں تعلیم کی افادیت کا شعور اجاگر کرنے کے پروگرام شروع کردیئے واک اور ریلیاں نکالی جانے لگی۔اور سکول سے باہر بچوں کے داخلوں کا آغاز کر دیا گیا۔ بعض علاقوں میں عمائدین،فلاحی تنظیموں نے عطیئے کے طور پر نئے داخل ہونے والے بچوں میں بیگز اور سٹیشنری کی تقسیم شروع کر دی۔ مگر بد قسمتی سے پورے قبائلی علاقوں کے اساتذہ اپ گریڈیشن کے مطالبے کے لئے ایسے وقت اختجاج پر نکل آئے اور سکول بند کرکے عملا کلاسوں کے بائیکاٹ کر دیا۔
جب تعلیمی ایمرجنسی کا یہ داخلہ مہم عروج پکڑ رہا تھا۔فاٹا کے اساتذہ نے اپ گریڈیشن کے لئے آپس کے تنظیمی اور شخصی تمام اختلافات بھلاکر ایکا کرکے اسلام آباد میں طویل دھرنا دیاجبکہ تعلیمی اداروں کو بند کرکے ایجنسی کے سطح کا اختجاج بھی جاری رکھا۔ اس دوران داخلہ مہم میں نئے داخل ہونے والے بچوں سمیت پرانے طلباء وطالبات نے بھی اس ناگہانی چھٹیوں پرڈیوٹی چور اساتذہ سے زیادہ خوشی کا اظہار کیا اور گلی کوچوں میں بھاگتے دوڑتے کھیلتے کھودتے یاد کیا ہوا سبق بھی بھلا بیٹھے۔
اس دوران فاٹا سیکرٹریٹ نے ریشنلائزیشن اور ڈاؤن گریڈ پالیسی بھی متعارف کرائی جس کے تحت 70 سے کم داخل طلباء والے سکول بند کر نے کا اعلامیہ جاری کردیاجس کی وجہ سے رہی سہی کسر بھی نکل گئی۔ کیونکہ جغرافیائی ، قومی اور سم و رواج کے حدود و قیود کے پابند قبائل لڑکیو ں کو دوسرے علاقوں کے سکولوں کو بھیجنے پر راضی نہیں جبکہ پرائمری کے کمسن بچے بھی کئی کلومیٹر دور پیدل جانے سے قاصر ہوئے یوں ہزاروں بچے اس نئی حکومتی پالیسی کی زد میں آکر تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہو رہے ہیں۔ مہمند ایجنسی میں گورنر خیبر پختونخواہ کے تعلیمی ایمرجنسی اور داخلہ مہم کیلئے 13 ہزار سکول سے باہر بچوں کو داخل کرانے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا۔
ابھی داخلوں کا آغاز ہی ہوا تھا کہ اساتذہ کا احتجاج اور ہڑتال شروع ہوا یوں مہم کے لئے مختص مقررہ وقت احتجاج اور دھرنوں میں گزر گیا۔یوں 25 روز ہڑتال کے بعد حکومت نے فاٹا اساتذہ کے مطالبات تسلیم کرتے ہوئے اپ گریڈیشن کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔
ساتھ ہی محکمہ تعلیم نے ہدایات جاری کر دیئے کہ اساتذہ فوری ڈیوٹیوں پر حاضر ہو کر چھوٹنے والی پڑھائی کو جلد از جلد کور کر کے داخلہ مہم بھی شروع کریں اور ساتھ ہی ایجنسی میں جاری پولیو مہم میں بھی بڑھ چڑھ کرحصہ لے۔ جس پر عملدرآمد کر کے اساتذہ نے حاضریاں تو شروع کر دی ہے مگر سٹوڈنٹس اور ٹیچرز سکول آکر کیا پڑھے اور کیا پڑھائے کیونکہ حکومت کی عدم دلچسپی سے نئے کلاسوں کے کتب ابھی تک فراہم نہیں ہو سکی ہے۔
مہمند ایجنسی میں صرف 40 فیصد طلباء کوکتابوں کے ادھورے سیٹ مہیاکی جا چکی ہے۔ مثال کے طور پر جماعت چہارم کے صرف دو کتابیں اور دیگر کلاسوں میں بعض کو سرے سے ملی ہی نہیں اور بعض کو آدھے ملے ہیں۔ اوپر سے جون کے اوائل میں گرمیوں کی چھٹیاں ہونے والی ہے۔ یوں تین مہینوں کیلئے اساتذہ کو پھر آرام ملے گا اور بچوں کے وارے نیارے ہو جائینگے۔ یوں نئے تعلیمی سال کا نصف حصہ احتجاجوں، کتابوں کی فراہمی اور چھٹیوں میں گزر جائیگا۔
اوپر سے جماعت پنجم اور ہشتم کے بورڈ امتحانات بھی آئینگے تو اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ امتحانی نتائج کیسے اور کیا ہونگے۔ گزشتہ کئی سالوں سے فاٹا کے تعلیمی نظام اور سرکاری سکولوں میں تعطل کے ساتھ پڑھائی سے غریب لوگ مایوس ہو کر اپنے بچوں کو چائلڈ لیب، ہوٹلوں اور میکنک ورکشاپوں میں مزدوری کرنے کے لئے دھکیل دیتے ہیں ۔مالدار اور متوسط طبقہ اپنے بچوں کو نجی تعلیمی اداروں میں داخل کرانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پرائیویٹ سکولوں کی تعداد کے ساتھ ساتھ وہاں داخلوں کی شرح میں بھی اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔
محکمہ تعلیم فاٹا کی یہ عدم دلچسپی اور حکومت کی جانب سے غیر موثر اور غیر فعال پالیسی بر قرار رہی تو فاٹا کے دیگر تعلیمی ادارے بھی مرحلہ وار ریشنلائزیشن کا شکار ہو کر بند کر دیئے جائینگے۔ پھر قبائلی عوام اپنے بچوں کو تعلیم خرید کر دلوائینگے۔ اور غریب مزدور ابن مزدور کے طور پر دوسروں کے رحم و کرم پر ہو کر مختاجی اور غلامی کی زندگی گزاریں گے۔
یوں خوشحال فاٹا اور تعلیم یافتہ قبائل منصوبہ نعروں تک محدود رہ کر یہ خواب طویل عرصے تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔ اس لئے ضروری ہے کہ مرکزی حکومت اور گورنر خیبر پختونخواہ فاٹا میں حقیقی تعلیمی ایمر جنسی نافذ کرکے تباہ شدہ سکول کی تعمیر نو، بند سکولوں کو کھولنے، درسی کتب کی بروقت فراہمی اور بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے لئے خصوصی گرانٹ کی منظوری دے۔
متعین اساتذہ کو ڈیوٹی کے ساتھ معیاری تعلیم فراہمی کا سختی سے پابند بنایا جائے ۔ اور کارکردگی جانچنے کے لئے موثر اور خود مختار مانیٹرنگ سسٹم تشکیل دے جو بہترین کارکردگی والے سکولوں اور اساتذہ کی حوصلہ افزائی کے لئے انعامات اور خراب کارکردگی پر سزا تجویز کرنے کا بھی مجاز ہو۔
تحریر : سعید بادشاہ