تروپتی (احمد نثار) ریاست آندھرا پردیش بی جے پی اقلیتی مورچہ کی میٹنگ، شہر تروپتی کے بی جے پی دفتر میں ہوئی۔جس میں ریاستی اور ضلعی سطح کی شخصیات شریک ہو کر مسلم طبقے کے مسائل پر تفصیل سے گفتگو کی۔
اس میٹنگ میں اقلیتی مورچہ کے سکریٹری جناب پی۔ ایوب خان نے کہا کہ مرکزی حکومت کی جانب سے ریاست کو کئی اسکیموں کے لیے گرانٹس ہونے کے باوجود ریاستی حکومت اس پر نہ توجہ دیتی ہے اور نہ ہی کوئی ٹھوس قدم اپنی جانب سے اٹھاتی ہے۔
ریاست میں دس فیصد مسلم آبادی ہونے کے باوجودچندرابابو نائڈو کی سرکار میں ایک بھی مسلم وزیر نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اوقاف اور اقلیتی امور کے وزیر بھی مسلم نہیں۔ وزیر اعلی جناب چندرابابو نائڈو کی شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کیا اتنی بڑی ریاست جس میں تقریباً دس فیصد مسلم آبادی ہو، ایک دو مسلم چہرے نہیں ملے کہ انہیں اقلیتی بہبود و دیگر اقلیتی امور کے وزارتوں پر فائز کرسکے؟
یہ غیر ذمہ داری اس بات کی دلیل ہے کہ وزیر اعلی کو مسلم طبقے سے نہ محبت ہے اور نہ ہی ان کی جانب کوئی توجہ۔ کئی اسکیم ایسی ہیں جو برائے نام کاغذ پر نظر آتی ہیں، جہاں عمل کی بات ہو تو ان کا نام و نشان نہیں۔ مرکزی حکومت کی اسکیمیں نئی منزل، بیٹی بچائو بیٹی پڑھائو ریاست میں اب تک شروع نہیں کی گئیں ۔ ریاستی حکومت کی اسکیمیں جیسے دلہن، ٹرائننگ اور ایمپلائمنٹ وغیرہ کا نام نشان نہیں۔ ریاستی حکومت کی سکیم ‘دلہن’ تو ایک مذاق بن کر رہ گئی ہے ہے۔ حکومت سے مطالبہ کیا کہ آج تک کتنے لوگوں کو اس کا فائدہ پہنچا ہے اسے منظر عام پر لائیں۔ اس اسکیم میں اتنی اڈچنیں کہ درخواست کرنے والا تنگ آکر آخر چپ ہوجائے۔
انہوں نے چندرابابو سرکار پر یہ بھی الزام لگایا کہ ریاست میں اقلیتی بہبودی، اردوترقی کے کوئی کام نہیں ہورہے ہیں۔
٭ اقلیتی امور اور اردو کے سارے کام تتر بتر۔
٭ کیا اردو اکیڈمی ٹھیک چل رہی ہے؟ اگر چل رہی ہے تو پچھلے دو سال کا ریکارڈ بتائیں۔
٭ اقلیتی فائنانس کارپوریشن کا پچھلے دو سال کا ریکارڈ عوام کے سامنے رکھیں۔
٭ ریاستی سطح پر اقلیتوں کے لیے کونسی اسکیمیں ہیں اور کتنے حقدار اس کا فائدہ اٹھائے ہیں اس کا بھی علم عوام کو ہونی چاہئے۔
٭ وقف کے املاک کو قبضہ داروںسے چھٹکارا کب ملے گا؟ کیا یہ املاک حقداروں تک پہنچیں گی بھی کہ نہیں۔ اگر پہنچیں گی تو حکومت کے پاس وہ کونسا منصوبہ ہے جس کے تحت کام کیا جارہا ہے۔ اس تعلق سے سرکار کو اور ضلعی افسروں کو جتنی بھی عرضداشتیں پیش کی گئیں وہ سب کی سب نظر انداز کردی گئیں۔ اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ یا تو سرکار اقلیتوں کی طرف توجہ کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی یا پھر قبضہ داروںکے خلاف اقدام اٹھانے سے ڈرتی ہے۔ کیا حکومت اور سرکاری عملہ اتنا لاغر اور لاچار ہے؟
جناب خلیفة اللہ نے کہا کہ مسلمانوں کی کئی ضروریات ہیں جن میں اقلیتی بی ایڈ، انجنیرنگ، میڈیکل، یونانی کالج ہیں۔ اقلیت کے پاس ان کے قیام کی جب اتنی استعطاعت نہیں تو سرکار کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ مذکورہ سہولتیں فراہم کریں۔ مثال کے طور پر ریاست کے ہر ضلع میں ایک یونانی طبی کالج چاہئے، جہاں مسلم آبادی زیادہ ہے وہاں دو دو طبی کالج چاہئے۔ سرکار اس کے لیے کیا کررہی ہے۔
اگر سرکار ان باتوں کی طرف توجہ نہیں کی تو مسلم طبقہ ضرور احتجاج کرے گا اور مانگ کرتارہے گا، اور اگر ضرورت پڑی تو دھرنے بھی کرے گا۔ ضلع کے بی جے پی صدر جناب چندراریڈی نے کہا کہ یقینا شری چندرابابو نائڈو کو اقلیتوں سے کوئی ہمدردی نہیں ، سرکار بنے دو سال ہوگئے اور مسلم طبقہ آج بھی امید لگائے بیٹھا ہے کہ سرکار کچھ کرے گی، جب کہ حکومت نے کچھ بھی نہیں کیا، اور نہ ہی چاہتی ہے۔
اس میٹنگ میں ضلع چتور سے ریاستی اقلیتی موچہ کے جنرل سیکریٹری جناب پی۔ ایوب خان، ضلع پرکاشم سے ریاستی اقلیتی مورچہ کے معتمد جناب خلیفة اللہ، مقریرین میں سے تھے۔ضلع چتور کے بی جے پی صدر جناب چندراریڈی جناب نوشاد، محبوب باشاہ، شفیق صاحب و دیگر اقلیتی لیڈبھی شریک رہے۔