قوم کی بے چینی، اضطرابی ،ہاراورجیت،زندگی اور موت کی کشمکش نے دم توڑا جب ۲۸ مئی کو پُرسکون جگمگاتے دن کا آغاز نئی جیت اور نئی زندگی کیساتھ ہوا، سورج ڈھلنے سے پہلے دنیا پاکستان کے صوبے بلوچستان کے ضلع چاغی کے سیاہ و سنگلاخ پہاڑوں کو کہکشاں کے رنگوں میں نکھرتے ،بکھرتے دیکھ رہی تھی اور فضا تکبیر کے فلک شگاف نعروں سے گونج رہا تھا،ایک کمسن کی بھی رگوں میں خون جوش مار رہا تھااورتن بدن کی گرمائش سے اُسکا چہرہ بھی سرخ تھا،آنکھیں نم تھیں اور لبوں پے بھی بے ساختہ اللہ اکبر اللہ کا ورد جاری تھا، عجب سی کیفیت تھی،یہ فطری جذبہ حب الوطنی ہی تھی ورنہ آٹھ سال کے بچے کو وطن اور اِس سے محبت اور پھر محبت میں ایسی شدت کی کیا خبر؟نعرہ تکبیر’’اللہ اکبر‘‘ کی روح پرور صدائیں میری سماعتوں سے مدھم ہونے کو نہ تھی شاید یہی وجہ تھی کہ’’۲۸ مئی کو ایٹمی دھماکوں‘‘پر نام تجویز کرنے کے حوالے سے وزیرِاعظم پاکستان کی اپیل پر دل و دماغ میں ایک ہی نام ’’یومِ تکبیر‘‘ نقش بن کر اُبھرا۔ملک بھر سے کروڑوں تجویز کردہ ناموں سے ’’یومِ تکبیر‘‘ کا انتخاب میرے لئے باعثِ اعزاز تھا میری خوشی کی انتہا نہ تھی۔۔ تحریری دعوت نامہ پر پی ٹی وی کے زیرِاہتمام ایک تقریب میں شرکت کی اورمجھے ممنون حسین اور معین الدین حیدر نے وزیرِاعظم کی جانب سے سنداعزاز سے نواز۔یہ میری زندگی کا بہت بڑا دن تھا۔اُن تاریخی لمحات کا تذکرہ کرتے ہوئے مجتبی رفیق آج بھی آبدیدہ ہوگیااور جذباتی انداز میں فی الفور اپنے کندھے پے لٹکے بیگ سے وہ سندِاعزاز اور وزیراعظم کا خط بنام مجتبی ہمارے سامنے ٹیبل پر رکھ دیئے۔ خط کے آخری الفاظ ہیں ’’امید ہے کہ روشنی کے اس سفر میں مجھے آپ کا بھرپور تعاون حاصل رہے گا‘‘۔
کیاہم مجتبی رفیق کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوتے دیکھیں گے جو یوم تکبیر تک کے سفر میں شامل دیگر عظیم کرداروں کے ساتھ ہوتا دیکھا۔ بھٹو کو ۱۹۷۹ کو تختہ دار پر لٹکتے ہم نے دیکھا ہے ۔۔ضیاء الحق نے سفر جاری رکھا تو انکے طیارے کو ایک سازش کے تحت تباہ ہوتے بھی دیکھا ۔ یومِ تکبیر کا تحفہ دینے والے وزیراعظم نواز شریف کو ملیرجیل کے ۱۲۔۱۰ کے ایک کمرے میں منتقل ہوتے دیکھا ۔۔پرویز مشرف کی دورِ حکومت میں پاکستان کو ایٹمی صلاحیت کے سے اہم معلومات دوسرے ممالک کو مہیا کرنے کے الزامات کا سامنا ہوا تو قوم و ملت کے عظیم تر مفاد میں محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو وہ گناہ تسلیم کرتے ہوئے بھی دیکھا جو ان سے سرزد ہی نہ ہوا تھا ۔ مجتبی رفیق پوسٹ گریجویٹ کر کے لندن سے پاکستان تو لوٹ چکے اور اب ہم انہیں باعزت روزگار کے حصول کی جستجو میں گلیوں کی دھول اُڑاتے دیکھ رہے ہیں مگر کہیں سنوائی نہیں۔کوئی ہے جو انکے سوالیہ آنکھوں کی بے بس پکار ایوانِ بالا تک پہنچ سکے کہ ’’یقیناًروشنی کے ہرسفر میں آپ کو میرا بھرپور تعاون حاصل رہے گا‘‘اور مجھے۔؟؟