تحریر: ڈاکٹر تصور حسین مرزا
ہماری بدقسمتی اُسی دن سے شروع ہو گئی تھی جب قائد اعظم محمد علی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہم سے بچھڑ کر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے ۔ اگر کچھہ عرصہ قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی وفا کرتی تو شاید اسلامی جموریہ پاکستان آج حقیقی معنوں میں ایک اسلامی و رفاحی مملکت بن چکا ہوتا ۔ اگر ایسا ہو جا تو تو پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گزشتہ دنوں خیبر پختونخوا کے شہر پشاور میں علیشا نامی خواجہ سرا کو مسلح افراد نے فائرنگ کر کے زخمی کردیا اور وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گئی ہیں۔
ہسپتال کے ڈاکٹر علیشا کے ساتھ آنے والے خواجہ سراؤں سے پوچھتے رہے کہ کیا وہ صرف ڈانس کرتے ہیں؟ میڈیا رپورٹس کے مطابق علیشا کو حملے کے بعد پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال لے جایا گیا تھا۔ خیبر پختونخوا کے خواجہ سراؤں کی تنظیم ‘ٹرانز ایکشن الائنس’ (ٹی اے اے) کے فیس بک پیج پر ہسپتال میں علیشا کے ساتھ غیر ذمہ دارنہ رویے کا کئی مرتبہ ذکر کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے لکھا گیا ہے کہ ہسپتال کے ڈاکٹر علیشا کے ساتھ آنے والے خواجہ سراؤں سے پوچھتے رہے کہ کیا وہ صرف ڈانس کرتے ہیں؟ اور وہ بطور معاوضہ کتنے پیسے لیتے ہیں۔ علاوہ ازیں لیبارٹری میں بھی علیشا کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا اسے ایڈز کی بیماری تو نہیں ہے۔ اسی فیس بک پیج پر ایک پوسٹ میں لکھا گیا ہے کہ علیشا کے لیے انہیں ایک الگ کمرہ لینا پڑا کیوں کہ ڈاکٹر نہ اسے مردانہ اور نہ ہی زنانہ وارڈ میں داخل کر رہے تھے۔
علیشا کے لیے الگ کمرہ لینا پڑا کیوں کہ ڈاکٹر نہ اسے مردانہ اور نہ ہی زنانہ وارڈ میں داخل کر رہے تھے
مقامی میڈیا رپورٹس کی مطابق اس برس خیبر پختونخوا میں خواجہ سراؤں کے خلاف تشدد کا یہ پانچواں واقعہ ہے۔ عدنان، سمیر، کومل اور عائشہ کو اسی سال تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ان تمام کا تعلق ‘ٹی اے اے’ سے ہے۔اس تنظیم اور سول سوسائٹی کے اراکین کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں خواجہ سراؤں کو قتل، اغوا، حراساں، ریپ اور ان کی توہین کرنے کے واقعات پیش آچکے ہیں۔ خواجہ سراؤں پر دباؤ ڈالا جاتا ہے اور ان سے بھتہ بھی مانگا جاتا ہے۔اس واقعہ کے بعد سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ علیشا ٹرینڈ کر رہا ہے اور کئی افراد پاکستانی معاشرے میں خواجہ سراؤں کے خلاف متعصبانہ سلوک پر سوال اٹھا رہے ہیں۔روزنامہ نوائے وقت کے مطابق ۔۔خواجہ سراو?ں کے حقوق کیلئے سرگرم غیر سرکاری تنظیم بلیو وینز پروگرام کے کوارڈینیٹر قمر نسیم نے بی بی سی کو بتایا کہ اتوار کی رات علیشا کو پشاور کے علاقے فقیر آباد میں چند مسلح افراد نے پہلے زیادتی کا نشانہ بنایا اور پھر اْنہیں فائرنگ کر کے شدید زخمی کر دیا تھا۔ قمر نسیم نے الزام عائد کیا ہے کہ لیڈی ریڈنگ ہپستال پشاور کی انتظامیہ کی جانب سے بروقت طبی امداد فراہم نہ کرنے کی وجہ سے علیشا کی ہلاکت ہوئی۔
علشیا کو ہپستال پہنچایا گیا تو خواجہ سراو?ں کی درخواست کے باوجود انہیں عورتوں کے بجائے مردوں کے وارڈ میں داخل کیا گیا۔ ان کے مطابق چار گھٹنے تک ہسپتال انتظامیہ اس بات کا فیصلہ نہیں کرسکی کہ زخمی خواجہ سرا کو کس وارڈ میں داخل کیا جائے۔ جبکہ مردوں کے وارڈ میں داخل مریضوں اور ان کے لواحقین کی طرف سے خواجہ سرا کے داخلے پر اعتراض کی وجہ سے ہپستال میں کشیدگی کا ماحول پیدا ہوا تھا۔ کئی گھنٹوں کی گفت و شنید کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ خواجہ سرا کو مردوں کے وارڈ میں ٹائلٹ کے سامنے بیڈ دیا جائے کیونکہ وارڈ کے دیگر مریض اس بات پر ہی راضی ہوئے تھے کہ انہیں مریضوں کے درمیان میں جگہ نہ دی جائے۔ ذرائع ابلاغ میں خبریں شائع ہونے کے بعد قائم مقام گورنر خیبر پی کے اسد قیصر زخمی خواجہ سرا کی عیادت کے لیے ہپستال آئے اور انہیں پرائیوٹ وارڈ میں الگ کمرے میں منتقل کیا گیا لیکن اْس وقت بہت دیر ہو چکی تھی۔
یہ بات تو اب روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگئی ہے کہ لیڈی ریڈنگ ہپستال پشاور کی انتظامیہ کی جانب سے بروقت طبی امداد فراہم نہ کرنے کی وجہ سے علیشا کی ہلاکت ہوئی۔ہو سکتا ہے لاپروائی اور غفلت برتنے والے ڈاکٹرز نرسوں کو معطل یا ملازمت سے فارغ کر دیا جائے اگر ایسا ہو جائے تو یہ ایک اچھی ریت ثابت ہوگی حالانکہ ایسا ہوگا نہیں اگر با امر مجبوری ایسا کرنا بھی پڑے تو کاغذی فائلوں تک ہی ہوگا۔ کیونکہ 1947 سے لیکر آج تک اگر ایسا ہوتا تو آج ہم پاکستان کو دنیا کے سامنے ایک مثالی ملک کے طور پر منوا چکے ہوتے ۔
پاکستان کی اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ مولانا محمد خان شیرانی نے کہا ہے کہ ملک میں خواجہ سراؤں میں مردانہ صنف زیادہ پائی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ شادیاں کرکے بچے پیدا کرر ہے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ یہ خواجہ سرا ظاہری شکل کو بناؤ سنگھار کرکے عورت کا روپ دھالیتے ہیں۔ ‘خواجہ سراؤں کو میل یا شی میل لکھیں’ اسلامی نظریاتی کونسل کے 200ویں اجلاس کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ خواجہ سرا الگ صنف نہیں ہیں بلکہ اُنھوں نے کاروبار کے لیے خواتین کا روپ دھار رکھا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ خواجہ سراؤں کی رجسٹریشن سے پہلے اُن کے طبی معائنے کو لازمی قرار دیا جائے اور اگر کوئی اس معاملے میں غلط بیانی کرے تو اُن کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ مولانا محمد خان شیرانی کا کہنا تھا کہ طبی معائنے کی رپورٹ کی روشنی میں اگر اُن میں مرد کی علامات پائی جاتی ہیں تو اُنھیں جائیداد میں مردوں کے برابر حصہ دیا جائے اور اگر اُن میں عورتوں کی علامات زیادہ ہیں تو اُنھیں جائیداد میں وہی حصہ دیا جائے جو عورتوں کے لیے دین اسلام میں کہا گیا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ ان افراد کو خاندان سے کسی طور پر بھی الگ نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اُنھیں تیسری جنس کے طور پر شناخت دی جاسکتی ہے۔
خواجہ سراہوں کی تنظیم کی سربراہ الماس بوبی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ سرا تیسری صنف ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ اگرچہ خواجہ سراہوں کے جسم مردانہ ہوتے ہیں لیکن اُن کی روحیں صنف نازک کی طرح ہیں۔ الماس بوبی کا کہنا تھا کہ اُن کے شناختی کارڈ پر جنس کے خانے میں خواجہ سرا لکھا ہوا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ اگرچہ خواجہ سرا شادیاں بھی کرلیتے ہیں اور اُن کے بچے بھی ہیں لیکن وہ خود کو عورت کی تصور کرتے ہیں۔ جیسا کہ سرکاریعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں80 ہزار کے قریب خواجہ سرا موجود ہیں۔
بحثیت قوم ہماری فطرت بن گئی ہے جب تک حادثہ رونما نہ ہو جائے ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے حادثہ کا انتظار کرتے ہیں، جب حادثہ رونما ہو جاتا ہے بجائے داد رسی کے بحث و مباحثہ شروع کر کے وقت برباد کرتے ہیں، جیسا کہ آپ ۖ کو ہم ساری عمر نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا اس کے باوجود نماز میں ہاتھ باندھنے اورہاتھ اٹھانے پر متفق نہیں ہو سکے۔ آج بھی ہم آپ ۖ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی بجائے ۔۔۔ نور اور بشر کے مسئلہ پر تکرار کر رہے ہیں ، اسی طرح حاضر و ناظر، کبھی مسواک کی لمبائی پر الجھے ہوئے ہیں ۔ آقا ۖ کی حْیقی پیروی کرنے کی بجائے آپ ۖ کو غائب کا علم تھا آپ ۖ کو غائب کا علم نہیں ۔ ایسے پیچیدہ مسائل بنا کر ہمارے علمائے کرام نے آسان بے ضرر” دین ِ محمدی ۖ ”کی خدمت نہیں کی اگر ہم ذاتیات سے بالاتر ہو کر دین اسلام کی پیروی کرتے تو آج مسجدوں کے سپیکروں پر پابندی کی بجائے ناچ گانوں اور فحاشی عریانی پر پابندی ہوتی ۔ بات کررہا تھا ” خواجہ سرائ” کی صرف حکومتی اور عوامی سطع پر ” خواجہ سراء ” کو انسان تسلیم کرنا ہوگا۔ جس دن ہم نے بحثیت قوم خواجہ سراء کو دل سے تسلیم کر کے انسانیت کے تحت پیار، محبت اور حقوق دئیے اسی دن سے کسی خواجہ سراء کے لئے کسی ہسپتال میں لیٹرینوں کے قریب ایڈھیاں رگڑ رگڑ کر مرنے کی نوبت نہیں آئے گئی ۔ اور اگر ہم نے قانون فطرت کا مزاق بھی ”’ خواجہ سراء ” کی طرح مناتے رہے تو پھر ایسا ہی ہے جیسے عذاب الہی کو دعوت دینا ہے۔
گزارش ہے کہ کسی کا بھی مزاق مت اُڑائیں ۔کیا پتہ خالق ہم کو بھی اس جیسا بنا دے ۔ کیونکہ کسی کو بھی کسی نے خواجہ سراء نہیں بنایا بلکہ وہ ہی خالق و مالک ہے جس نے ہم کو بھی بنایا اور ان خواجہ سراء کو بھی پیدا کیا ۔ویسے بھی خواجہ سراء کوئی ” عیب ” نہیں بلکہ ایک معزوری ہے جیسے کسی کا پیدائیشی اندھا، گونگا ، بہرا یا زہنی معزور ہونا ۔ حکومتِ پاکستان کو بھی خواجہ سراء کو معزور ی کے زمرے میں شامل کر کے تعلیم و تدریس اور ان کے بہتر مستقبل کے لئے منصوبہ بندی شروع کرنا ہوگئی۔ تاکہ یہ معاشرے پر بوجھ کی بجائے معاشرے کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہو سکیں
تحریر: ڈاکٹر تصور حسین مرزا