تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
میرے سامنے ایک ادھیڑ عمر مضطرب شخص بیٹھا تھا اُس کے چہرے اور آنکھوں میں وہ رنگ اور چمک نہیں تھی جسے زندگی سے تعبیر کیا جاتا ہے اُس کا بے رنگ چہرہ اور جسمانی حرکات میں اضطراب بے چینی اور شدید دکھ اِس بات کا اظہار تھا کہ وہ کسی شدید مشکل یا تکلیف میں مبتلا ہے اُس کے جسم پر ہلکا ہلکا لرزہ طاری تھا کو ئی دکھ اُس کو اندر ہی اندر چاٹ رہا تھا وہ بار بار ٹہل رہا تھا کبھی بیٹھ جاتا کبھی چلنا شروع کر دیتا عجیب سی وحشت اُس کے چہرے پر برس رہی تھی اُس کا اپنی جسمانی حرکات پر بلکل بھی کنٹرول نہیں تھا اُس کی باطنی کیفیات اور تغیرات اُس کے انگ انگ سے چھلک رہے تھے اس کی حالت اور حرکات سے لگ رہا تھا کہ کسی لا علاج جا ن لیوا بیماری میں مبتلا ہے اور ہر طرف سے مایوس ہو کر میری طرف آرہا ہے اُس کی پریشانی میرے علاوہ باقی لوگ بھی محسوس کر رہے تھے۔
اِس لیے آنے والے دوسرے لوگوں نے رضا کا رانہ طور پر خو د ہی مجھے کہا کہ سر آپ پہلے اِس شخص سے مل لیں کیونکہ اس کی پریشانی کسی سے بھی نہیں دیکھی جا رہی تھی اُس کے چہرے کے تاثرات اور جسمانی حرکات نے دوسروں کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا تھا لہٰذا دیکھنے والے اب یہی چاہتے تھے کہ فوری طور پر اِس کو تکلیف سے چھٹکارا مل جا ئے ۔ اُس نے پو رے ماحول پر دکھ اور سوگواریت کی چادر تان دی تھی میں نے اشارے سے اُس کو اپنے پاس بلایا تو اُس نے اشارے سے ہی جواب دیا کہ وہ علیحدگی میں بات کرنا چاہتا ہے لہٰذا میں اٹھا اور اُس کو لے کر ایک سائیڈ پر آگیا اُس کی چال میں بھی لڑکھڑاہٹ تھی اُس کا دماغ اور سوچیں منتشر تھیں اُس کا خو د پر بلکل بھی کنٹرول نہیں تھا اوروہ اِس دنیا سے بھی بے پروا ہ لگ رہا تھا اُس کی بے چینی اور ایسی حالت دیکھ کر میری متجسس فطرت پو ری طرح بیدار ہو چکی تھی کہ اُس کی اِس بے چینی اور پریشانی کی وجہ کیا ہے اُس کے روئیے اور جسمانی حرکات میں ابنارمیلٹی کی وجہ کیا ہے۔
میں اُس کو لے کر علیحدہ گو شے میں آگیا اور ہم دونوں بینچ پر بیٹھ گئے اب میں نے گہری نظروں سے اُس کی طرف دیکھا اُس کی آنکھوں کی ویرانی نے مجھے اُدھیڑ کر رکھ دیا اُس کی آنکھیں زندگی کی چمک سے محروم نظر آرہی تھیں چہرے پر بنجر پن اور خزاں نے ڈھیرے ڈال رکھے تھے اُس کی حالت دیکھ کر میرے ہونٹوں پر شفیق تبسم ابھر آیا میں نے اُسے گلے سے لگایا تھپکی دی اور کہا آپ relaxہو جائیں آپ پریشان نہ ہوں میں نے فوری طور پر اُس کے لیے جوس منگوایا اور اُس کو دے دیا وہ جوس نہیں پی رہا تھا لیکن میری ضد پر اُس نے جوس کے دوچار گھونٹ لیے اور جو س رکھ دیا ۔ غم پریشانی اور درد اُس کی ہڈیوں تک سرائیت کر گیا تھا وہ بار بار اپنے ہاتھوں کو مسل رہا تھا اُسے کسی پل بھی چین نہ تھا میں جب بھی کسی ایسے پریشان اور رنجیدہ شخص کو دیکھتا ہوں تو بہت دکھی ہو جا تا ہوں میری کو شش ہو تی ہے کسی طرح ایسے پریشان شخص کو دکھ اور درد سے نجات دلائی جا ئے ۔ اِسی جذبے کے تحت میں اب اُس کی طرف پیا ر بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
میرے شفیق اور محبت بھرے روئیے سے اب وہ حوصلہ پکڑ رہا تھا وہ بار بار اپنے خشک ہونٹوں کو زبان سے تر کر نے کی کو شش کر تا تا کہ بول سکے لیکن پو ری کو شش کے باوجود بھی الفاظ اُس کے ہو نٹوں کی قید سے رہا نہیں ہو رہے تھے ۔ اب اُس نے اپنی قوت گویا ئی کو بحال کر نے کی پو ری کو شش کی تا کہ وہ بول سکے اب کچھ الفاظ نکلنا شروع ہو ئے لیکن وہ بے ربط گفتگو کر رہا تھا الفاظ اور فقرے بے ربط تھے اُس کو بولنے میں شدید مشکل پیش آرہی تھی لیکن وہ کوشش کر رہا تھا اب میں نے پھر جو س پکڑا اور اُس کے منہ کو لگا دیا اُس نے پورا جو س پی لیا اب اُس کے جسم میں توانائی کا احساس بیدار ہو رہا تھا اُس کی بو لنے کی حسیات توانا ہو رہی تھیں ۔میرا تجسس پو رے عروج پر تھا ساتھ ہمدردی بھی کہ وہ کس درد دکھ یا بیمار ی میں مبتلا ہے کہ اُس کے حواس شل نظر آرہے تھے لگ رہا تھا اُس کے جسم اور روح کا تعلق ایک باریک کچے دھا گے سے بندھا ہوا ہے جو شدتِ کر ب یا جذبات سے کسی بھی لمحے منقطع ہو سکتا ہے۔
اب مجھے بھی گھبراہٹ اور پریشانی ہو نا شروع ہو گئی تھی کیونکہ اُس کی حرکتوں اور روئیے میں پراسراریت کا عنصر بھی شامل تھا جو کسی کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہو سکتا تھا اب میں نے اُس کو اُس کے حال پر چھوڑ دیا میں اُس کو نارمل ہو نے کا وقت دینا چاہتا تھا تا کہ وہ اُس ہیجان اور اضطراب سے نکل سکے جس میں وہ مبتلا تھا اِس دوران میں آہستہ آہستہ اُس کی کمر پر تھپکی اور ہاتھ پھیر رہا تھا اب وہ بھی خا موش تھا اور میں بھی ہم دونوں خا موشی اور سناٹے کے اسیر ہو کر رہ گئے تھے ۔میں خا موش گہری شفیق نظروں سے اُس کی طرف دیکھ رہا تھا ۔ اب اُس کے چہرے کا رنگ بہتر ہو نا شروع ہو گیا اُس کے چہرے کی وحشت اور جسم کا لرزا کم ہو رہا تھا اُس کی آنکھوں کی پتلیاں جو مسلسل لرزش کا شکا ر تھیں نارمل ہو نا شروع ہو گئیں ۔ اُس کے باطن میں بر پا تغیرات اب پر سکون ہو رہے تھے ۔ میں اُس کو پورا وقت دے رہا تھا میرے چہرے کا تبسم اور نرم رویہ اُس کو حوصلہ دے رہا تھا کیونکہ ہم کا فی دیر سے اکٹھے بیٹھے تھے اِس لیے ہمارے درمیان اجنبیت کی دیوار بھی سرک رہی تھی اب ہماری آنکھوں میں آشنائی کے رنگ اُترنا شروع ہو گئے تھے۔
اب اُس کا خوف بھی دور ہو رہا تھا اب وہ کا فی حد تک سنبھل چکا تھا ۔ وہ بولنے کے لیے تقریباً تیار ہو چکا تھا اُس نے ایک با رپھر دائیں با ئیں دیکھا کہ کو ئی اُس کو دیکھ تو نہیں رہا یا کو ئی اُس کی آواز تو نہیں سنے گا جب اُس کو یقین ہو گیا کہ کو ئی بھی اُس کی آواز نہیں سن رہا تو اُس نے جرات کر کے بو لنا شروع کیا الفاظ اب اٹک اٹک کر اُس کی زبان کی قید سے آزاد ہو نا شروع ہو گئے کچھ دیر تو اُس کی زبان میں لڑ کھڑاہٹ رہی لیکن جلد ہی وہ روانی سے بولنا شروع ہو گیا اُس کے لہجے میں اندونی کرب اور دل کا درد شامل تھا۔
اُس کی بات اُسی کی زبانی سنیں سر میں بہت سالوں سے سودی کاروبار کر تا تھا مجبوروں بے بسوں کو میں سود پر پیسے دیتا اور پھر اُن کی جا ئیداد پر قبضہ کر لیتا سود کے علاوہ میں جب بھی رمضان المبارک آتا ایسی اجناس کا ذخیرہ کر لیتا جن کی رمضان میں ضرورت ہو تی پھر میں مہنگے داموں وہ چیزیں رمضان میں بیچتا میرے دوستوں اور گھر والوں نے کئی با ر مجھے سمجھا یا کہ سود کا کاروبار بند کر دو یہ خدا سے کھلاا علان جنگ ہے اور ذخیرہ اندوزی بھی نہ کر و لیکن میں دولت کے نشے میں دھت یہ دونوں مکروہ کا م کئے جا رہا تھا دونوں کاموں سے لوٹ مار کر کے روپے کو میں اپنی ذہانت اور چالاکی کا نام دیتا اللہ نے میری رسی کو ڈھیل دی ہو ئی تھی اور پھر اللہ کی لا ٹھی حرکت میں آئی میرے گو دام میں آگ لگ گئی اور میرا کروڑوں کا سامان جل کر راکھ کا ڈھیر بن گیا گھر میں بیماریوں نے ڈیرے ڈال لئے کیونکہ اللہ کی گرفت آچکی تھی ایک ایک کر کے میرے گھر کے افراد مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہو تے گئے اور آج میں اکیلا رہ گیاہو ں میں جو کبھی طاقت اور دولت کے نشے میں کہتا تھا کہ میں اپنی دولت کے بل بوتے پر دنیا کی ہر نعمت اور خو شی خرید سکتا ہوں آج نہ تو میرے پاس وہ دولت ہے جس کا مجھے نشہ اور غرور تھا اور نہ ہی وہ اہل خانہ جن کے لیے میں نے سودی کا روبار سے غریبوں اور بے کسوں کا خو ن نچوڑا تھا۔
بے چینی ، بے قراری ، بے بسی ، تنہا ئی اور غربت اب میری ہڈیوں کے گو دے تک سے اُتر چکی ہے میں دن رات اپنے ہی عرق ندامت میں غرق اِدھر سے اُدھر سکون کی تلاش میں پھرتا ہوں لیکن سکون مجھ سے میلوں دور بھاگ چکا ہے آپ کے پاس اِس لیے آیا ہوں کہ اللہ تعالی مجھے کیسے معاف کر ے گا کیا مجھے معافی مل سکتی ہے ؟میں کیا عبادت وظیفہ کروں کہ سکون قلب حاصل کر سکوں پھر وہ بہت رویا میں نے اُسے تسلی دی اور وہ چلا گیا اور میرے لیے سوچ کے دریچے وا کر گیا آج جو سودی کاروبار اور رمضان میں مہنگی چیزیں بیچ رہے ہیں کل کو یہ سب بھی اِسی طرح بے یار و مددگار پھرینگے اور کو ئی اِن کا سہارا نہ ہو گا۔
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل: help@noorekhuda.org
فون: 03004352956
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org