تحریر : وقار انسا
اللہ نے اپنی اس دنیا میں اپنے خاص چنے ہوئے بندے بھی بھیجے جو خدمت خلق کے جذبے سے شرشار ہیں ایسی ہی ایک عظیم شخصیت عبد الستار ایدھی سسکتی بلکتی انسانیت کے جسم پر اپنی ہمدردی اور توجہ سے پھاہے رکھنے والے انسان – جن کا مقصد حیات ہی دکھی انسانیت کی خدمت کرنا ہے آج بستر علالت پر ہیں-وہ شخصیت جنہوں نے اپنی زندگی کو دکھی اور مستحق انسانیت کے لئے وقف کر دیا اور زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ہی بنایا – میڈیا پر ان کی علالت کی مختصر خبر یا دعا کی اپیل کر دی جاتی ہے – ان کے لئے لوگوں کی دل سے دعائیں ہیں جو پاکستان میں یا پاکستان سے باہر ہیں زندگی کی رنگینوں سے کنارہ کش ہو کر اپنے آپ کو انسانیت کی بہبود اور فلاح کے لئے وقف کرنے والی عظیم شخصیت مولانا عبدالستار ایدھی – جن کی فطرت میں ہی قدرت نے دوسروں کے لئے تڑپ رکھی-اور اس مشن کی تکمیل کے لئے دن رات کوشاں رہے آج پاکستان کے ہر شہر میں ایدھی سینٹر موجود ہے۔
زچگی سینثر پاگل خانے معذروں کے گھر بلڈ بنک اور بے سہارا خواتین اور بچوں کے لئے پناہ گاہیں قائم ہیں – بوڑھے والدین جن کو ان کی نافرمان اولادیں بے گھر کر دیتی ہیں ان کے ادارے کی بانہیں ان کے لئے کھلی ہیں-یتیم اور حالات کی ستائی ہوئی نوجوان لڑکیوں کے لئے گھر کی طرح ایک محفوظ چھت جہاں ان کے لئے ہنر اور تعلیم سیکھنے کے ذرائع بھی ہیں جس سے وہ اپنے پاں پر کھڑا ہونے کے قابل بن جاتی ہیں اور جوان بچیوں کوشادی کے بعد اپنی ازدواجی زندگی کے نئے دور میں داخل کر کے ان کی دعائیں سمیٹتے ہیں ان کی معاونت ان کی شریک سفر بلقیس ایدھی کرتی ہیں۔
خدمت خلق خدا کے اس سفر کا آغازبھارت سے ہجرت کر کے آنے کے بعد انہوں نے ڈسپنسری بنا کر کیا اور طبی امداد سیکھ کر لوگوں کی مدد شروع کی اوراپنی سادہ فطرت کی وجہ سے کسی آرام دہ بستر پر سونے کی بجائے ڈسپنسری کے باہر بینچ پر سونے کو ترجیح دی تاکہ کسی کو رات میں بھی ضرورت پڑے تو اس کے کام آسکیں۔
جب ایسے نیک جذبے ہوں تو قدرت بھی مدد کرتی ہے ایدھی فانڈیشن کی ابتدا 1957 میں وبا کے پھیلنے کے بعدہوئی جس میں انہوں نے مدافعتی خیمے لگائے اور ادویات فراہم کیں – ان کے اس قدم کو کچھ مخیر حضرات نے قابل تحسین قرار دیا اور یوں ان کی مدد سے وہ عمارت خرید لی جہاں ڈسپنسری تھی اللہ کی مہربانی سے وہاں زچگی سینٹر بن گیا اور نرسوں کی تربیت کے لئے ایک سکول بھی قائم کر دیا گیا اس طرح ایدھی فانڈیشن کی بنیاد پڑی یہ فانڈیشن پاکستان کے دوسرے شہروں میں بھی پھیل گئی عبدالستار ایدھی صاحب نے پہلے ایک ایمبولینس کسی کی مدد سے خریدی اور اس کو خود چلاتے رہے – اس وقت 600 سے زائد ایمبولینس انسانیت کی خدمت پر مامور ہیں کسی حادثے کی صورت میں جائے حادثہ پر فوری پہنچ جاتی ہیں
1997 میں گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق ایدھی فانڈیشن کی ایمبولینس سروس دنیا کی سب سے بڑی فلاحی ایمبولینس سروس ہے اور اس سب کے پیچھے ان کا بے مثال جذبہ اور انتھک کوشش ہے۔ انہوں نے کبھی چھٹی نہیں کی تھی اسی لئے عالمی ریکارڈ کے حامل ہیں جنہوں نے سادہ طرز زندگی کو اپنائے رکھا عام شلوار قمیض اور کھلی چپل کے ساتھ ہی ھمیشہ نظر آئے انہوں نے اپنی ظاہری حالات کو نظر انداز کر کے انپی ساری توجہ اپنے فلاحی کام پر مبذول رکھی – اپنے کاموں کے لئے کبھی کسی مذھبی ادارے اور حکومت سے مدد نہیں لی کیونکہ ان کی امداد مشروط ہوتی ہے ان کے بے لوث جذبے کے تحت ان کے کام کی قدر بہت سے مخیر حضرات کے علاوہ عام الناس نے کی اور اللہ کی مہربانی سے کام وسیع ہوتا جا رہا ہے۔
پاکستان کے علاوہ ایمبولینس سروس افغا نستان عراق چیچنیا بوسنیا سوڈان اور ایتھوپیا میں کام کر رہی ہیں انسانیت کی فلاح اور بہبود کا کام جو انہوں نے کیا وہ نہ تو کسی امیر کبیر انسان سے ممکن ہے نہ ہی کسی اعلی عہدے دار اور خوش پوش انسان سے !اللہ ان کو صحت کاملہ عطا فرمائے ایسی شخصیت کی عیادت کو نہ تو کوئی اعلی عہدے دار نظر آیا اور نہ ہی کسی کا عیادت کا پیغام سنا گیا ایسے لوگ توصدیوں میں پیدا ہوتے ہیں ان کی سب خدمات کو ھمارا سلام ہے۔
تحریر : وقار انسا