تحریر : ریاض احمد ملک
گذشتہ روز بوچھال کلاں میں ایک افسوس ناک واقعہ پیش آیا جس کی FIRتھانہ کلر کہار پولیس نے درج کی جس میں یہ لکھا گیا کہ 30کے قریب افراد ایک گھر میں داخل ہوئے اور گھر والوں نے ان کے 8افراد کا مار مار کر بھرکس نکال دیا دلچسپ بات یہ ہے کہ مدعی پارٹی کے کسی فرد کو خراش تک نہیں آئی اور وہ ان افراد سے بچ کر پولیس چوکی بوچھال کلاں پہنچ گئے یہ وہ لوگ ہیں جو زخمی بھی ہیں اور ان کے خلاف مقدمہ بھی درج ہے اوران میں سے اکثر حوالات میں بند بھی ہیں۔
محبوب سلطان پٹواری، محمد اعجاز، محمد ریاض ، محمد وسیم، محمد فہیم ،ہارون،عادل پٹواری، مصطفی، مجتبیٰ،سہیل، کامران،کاکا، چیئرمین ربنواز،محمد الطاف،فتح شیر، ارشد محمودمسلح کلاشنکوف،انوار حبیب، زعفران، عبدالرحمن، محمد عزیر ولد محمد نواز، بلال، محمد فیاض، محمد عثمان،افضال، عاقب جاوید،حارچ اشفاق، عبدالنعیم، محمد طیب، مہتاب ،محمد اعجازسکنائے بوچھال کلاںمسلح ڈنڈے ہمراہ دیگر محمدریاض ولد ملک خان، محمد وسیم، محمد فہیم، ہارون،عادل پٹواری،مصطفی ولد نور حسین،کامران،چیئرمین ربنواز،محمد الطاف،محمد اعجاز،عبدالرحمن،محمد عزیر،بلال،محمد فیاض،محمد عثمان،افضال،عنائت جاوید، حارث اشفاق،عبدالنعیم،مہتاب مسلح ڈنڈے ،ارشد محمود مسلی مسلح کلاشنکوف اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ 30کے قریب لوگ وہاں مار کھانے گئے تھے۔
انہوں نے ان لوگوں کو ہاتھ بھی نہیں لگایا اور اپنا سر کھلوا کر آ گئے پھر دوسرا مقدمہ یہ انہی کے خلاف محر ربوچھال چوکی طاہر شاہ نے درج کرایا کہ یہ مسلح شخص بوچھال کلاں پولیس چوکی پر آئے انہیں دھکے دئیے اور ان کے پاس آئے خواتین و حضرات کو مارنا چاہتے تھے حالانکہ یہ زخمی لوگ پولیس کے پاس رپورٹ درج کرانے آئے تھے جو محرر موصوف نے ان کے ساتھ تلخ کلامی کی تو انہوں نے احیجاج کیا یہ حقیقت ہے کہانی کا آغاز کچھ یوں ہے کہ موجودہ مدعی پارٹی کا تعلق سرگودہا سے ہے پہلے یہ ایک خاندان تھا اب یہ کئی گھر یہاں مقیم ہیں جعلی نوٹوں سے بکری چوری اور چھوٹی موٹی چوری ان کا وطیرہ رہا ہے لیکن مزدوری کا لبادہ اڑھ کر یہ لوگ اپنا ٹائم پاس کرتے ہیں عنائت اور پرویز نامی ان لڑکوں کو اس محلہ سے ان کے کرتوتوں کی وجہ سے نکال دیا گیا اب اس محلہ میں ریاض نامی ان کا رشتہ دار رہتا ہے جس کے ساتھ ان کا جھگڑا رہتا ہے۔
اب اس کو کرائے کے مکان سے بے دخل بھی انہی لوگوں نے کیوں کرایا آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ انہیں مکان نہیں ملے گا اور یہلوگ ان کے ساتھ رہنے پر مجبور ہونگے ریاض نامی شخص نے محبوب سلطان کو اپنی رواداد سنائی تو محبوب اپنے تین ساتھیوں کے ساتھ ان کے گھر گیا جہاں باتوں باتوں میں ان کی تلخ کلامی ہو گئی اور ان کوگوں نے ڈنڈے مار کر انہیں زخمی کر دیا کچھ لوگ انہیں بچانے گئے اور وہ بھی زخمی ہو گئے جب وہ زخمی حالت میں گھر آئے تو ان کے رشتہ داروں نے انہیں پولیس کے پاس رپورٹ درج کرانے کا مشورہ دیا جس پر وہ پولیس چوکی بوچھال کلاں آگئے انہیں یہ خبر بھی نہیں تھی کہ مارنے والے بھی پولیس چوکی پر مو جود ہیں جب وہ پولیس چوکی آئے تو اتفاق سے راقم الحروف بھی موقع پر موجود تھا میں نماز پڑھ کر مکی مسجد سے نکلا تو باہر یہ لوگ کھڑے تھے۔
میں تحریر کر رہا ہوں یہ لفظ با لفظ میری آنکھوں نے دیکھا کانوںنے سنا انہیں طاہر شاہ نے کہا کہ وہ ہسپتال جائیں پولیس وہاں آجائے گئی اس دوران انہوں نے موٹر سائیکلوں کے نمبر بھی لکھے تو میں نے ان سے وجہ پوچھی جس کا انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا چونکہ لڑائی کی گفتگوچل رہی تھی ہم مسجد کے سامنے کھڑے ہو کر اسی پر باتیں کرنے لگے کہ انہیں کس طرح اس حادثہ سے دوچار ہونا پڑا کہ ہمیں اطلاع ملی کہ تھانہ کلر کہار پولیس کے SHOاطہر شاہ نے ہسپتال کو گھیرے میں لے لیا ہے اور وہاں پر موجود ایک اخبارکے چیف ر پورٹرسمیت متعددد نوجوانوں کو زیر حراست لے لیا اوپر دلچسپ بات کہ عدالت سے ان کا ریمانڈ بھی طلب کیا چلو یہ تو پولیس کی کاروائی تھی جو انہوں نے کی اور یہ سوچے سمجھے بغیر کہ جن بے گناہ بچوں کو اذیت دے رہے ہیں ان کا مستقبل تباہ کیا جا رہا ہے اور پھر ساری پولیس ہی کیوں اس کا حصہ بنی یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے چلو اس کو بھی چھوڑ دیں کہ SHOکو مس گائیڈ کیا گیا۔
انہوں نے یہ کاروائی کر ڈالی اور دلچسپ بات جن کے خلاف یہ کاروائی کی گئی ان لوگوں کا تعلق بھی حکمران پارٹی سے تھا یہاں ولڈن مسٹر اظہر شاہ ہونا چایہے جنہوں نے کسی بھی بات کی پرواہ نہیں کی اور صوبائی وزیر کے چہتوں کو وہ سبق دیا کہ وہ ہمیشہ نہ صرف یاد رکھیں گے بلکہ جب ووٹ دینے جائیں گے انہیں ان کا ضمیر ضرور جھنجھوڑے گا اور اسی طرح مسلم لیگ ن کا بوچھال کلاں کی حد میں مکمل خاتمہہو جائے گا ویسے بھی شاہ جی کی تعیناتی کلر کہار کی حدود میں جرائم کے خاتمے کے لئے کی گئی تھی انہوں نے جرائم کے ساتھ ملک تنویر اسلم کی سیاست کا بھی صفایا کر دیایہاں ویلڈم مسٹر صوبائی وزیر کہوں تو بھی غلط نہ ہو گا شاہ جی کی نظر میں شائد،،،،،؟۔
چلو سب کچھ ہو چلا مقدمہ بھی درج ہو گیا بے گناہوں سمیت سب نے حوالات کی سیر بھی کر لی ایک نظر اس پر کہ یہ کیوں ہوا بوچھال کلاں پولیس چوکی محلہ میں ہمیشہ پولیس مین کا احترام کیا گیا اہل محلہ نے ہر موقع پران کی مدد کی پھر اس بات کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی حالانکہ ساری پولیس یہاں میرا مطلب بوچھال کلاں سے ہے کو تمام لڑکوں جن کے نام مقدمہ میں دئیے گئے ان میں طیب کا تعلق اس لڑائی سے کیا تھا وہ تو محنت مزدوری کر کے گھر آیا اور تماشہ دیکھنے ہسپتال چلا گیا ہارون اور عادل کا اس لڑائی میں کیا تعلق محبوب سلطان سے ان کی بول چال ہی نہیں جو اہل بوچھال کلاں سمیت پولیس والوں کے بھی علم میں ہے۔
افضال۔ بلال، ہارس کا تو دور پرے سے بھی ان کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں انہیں حوالات کس خوشی میں بند کیا گیا وسیم فہیم کا نام کیوں شامل ہوا وہ تو نماز تراویح میں موجود تھے اسی طرح کئی لوگ جو بغیر کسی جرم کے حوالات گئے کیوں کیا پو؛یس سے کوئی پوچھے گا اگر میں وسیم کے نام پرلکھوں تو میرا پورا کالم بن جائے گا وہ حافظ قرآن ہے اور طاہر شاہ کو پولیس غدود میں نین برہنہ ہو کر نکلنے کی پاداش میں اسے بھی اس من گھڑت کہانی کا حصہ بنایا گیا۔
مجھے امید ہے کہ حکام بالا دودھ کا فعفھ اور پانی کا پانی کرنے میں اپنا کردار ادا ضرور کرے گی قارئیں جب آپ یہ الفاظ پڑھ رہے ہونگے اس ڈرامے کا ڈراپ سین ہو چکا ہو گا ہم نے اپنی ذمہ داری پوری کی ہے اب کس کی کیا ذمہ داری ہو گی میں اس وقت ہی انہیں ویلڈن مسڑکہوں گا۔
تحریر : ریاض احمد ملک
03348732994
malikriaz57@gmail.com