تحریر : اختر سردار چودھری، کسووال
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرار داد کے تحت فیصلہ کیا کہ 2001ء سے 20 جون ہر سال پناہ گزینوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جائیگا تاکہ عوام کی توجہ ان لاکھوں پناہ گزینوں کی طرف دلائی جا سکے جو مختلف وجوہات کی وجہ سے اپنا گھر بار چھوڑ کر دوسرے ملک یا اپنے ملک میں ہی پناہ لینے پر مجبور ہیں۔اس دن عوام الناس میں ہمدردانہ سوچ پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔کہ وہ ان مجبور پناہ گزینوں کی ضرورتوں کا خیال رکھیں۔
یہ دن اقوام متحدہ ، کے ادارہUNHCR (یو نائیٹڈ نیشن ہائی کمشنر فار رفیوجیز)کے تحت منایا جاتا ہے ۔اس دن کے منانے کا مقصد پناہ گزین جو جنگ ،تعصب،مذہبی کشیدگی ،سیاسی تنائویا امتیازی سلوک ،قدرتی آفات مثلاََ سیلاب ،طوفان ،زلزلہ کی وجہ سے اپنا گھر بار چھوڑ کر دوسری جگہ نقل مکانی کرجاتے ہیں ۔پاکستان میں 1947 ء میں لاکھوں مسلمان ہجرت کرکے آئے ۔پھر 1971 ء میں بنگلہ دیش بننے کے بعد بہاریوں کی کثیر تعداد پاکستان میں پناہ گزین بن کر آئے جن کو تا حال پناہ گزین ہی کہا جاتا ہے۔
پھر 1979 ء میں سوویت یونین کے حملے،خانہ جنگی ،امریکی حملے کے بعد سے اب تک لاکھوں افغان مہاجرین نے پاکستان میں پناہ لی ہے ۔ اس کے علاوہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے بھی لاکھوں پاکستانی، پاکستان میں ہی پناہ گزین بن کر زندگی گزار رہے ہیں ۔اور سیلاب و زلزلہ کی وجہ سے بھی پناہ گزینوں کی تعداد کافی ہے مثلاجولائی 2010ء میں اندرون ملک تباہ کن سیلاب کے سبب 2 کروڑ 10لاکھ افراد متاثر ہوئے جنہیں اپنے گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات پر پناہ لینی پڑی۔
پاکستان میں سب سے بڑی تعداد افغان پناہ گزینوں کی ہے جن کی تعداد 30لاکھ سے 50 لاکھ کے درمیان ہے (ہمارے ہاں کوئی درست تعداد کا کوئی اندازہ نہیں ہے کوئی سسٹم نہیں ہے) ۔یہ تعداد پناہ گزینوں کی کسی بھی دیگر خطے کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔
اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان پناہ گزینوں کو پناہ دینے والا دنیا کا سب سے بڑا پناہ گزین ملک ہے ۔لیکن یو این ایچ سی آر کے اعداد و شمار کے مطابق عالمی سطح پر 49 لاکھ مہاجرین کے ساتھ فلسطین سرفہرست ہے ۔ایسے افراد انتہائی غربت کے ساتھ زندگی گزارنے کے ساتھ بنیادی حقوق سے بھی محروم ہیں۔
گزشتہ دنوں 30 ہزار سے زائد روہنگیا پناہ گزین بے رحم، سمندر کی سفاک ڈالتی لہروں پر چپو والی عام سی کشتیوں پر سرگرداں رہے ہیں ۔بلکہ اب بھی ہیں۔
جو پناہ کے متلاشی، بے خانماں، برباد، کوئی منزل، نہ نشان منزل۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل صاحب نے ایک مرتبہ ازراہ رحم دلی۔ ان کو دنیا کا سب سے زیادہ ”ستم گزیدہ” نسلی گروہ قرار دیاتھا۔ اس کے بعد وہاں خاموشی ہے اور برما کے مسلمان پناہ کی تلاش میں کبھی بنگلہ دیش ،کبھی سری لنکا کبھی اس ملک کبھی اس ملک کی سمندری حدود میں بے آسرا مسافر روز مرتے جا رہے ہیں کوئی ان کا پرسان حال نہیں ۔وہ واپس نہیں جا سکتے وہاں موت ہے اور سمندر میں بھی موت ہے۔ اب تک کسی ملک نے کھل کر ان پناہ گزینوںکی مدد نہیں کی ہے۔
گھر لٹنے کا صدمہ سر کٹنے کا رونا
کیسی بلا ہے یارو سر سے نہیں ہے ٹلتی
ہم سب کو پناہ گزینوں کی مدد کرنی چاہیے ، وہ ہماری مدد کے منتظر ہیں،ان کے دکھ کو وہی سمجھ سکتا ہے جس نے ہجرت ،پردیس،مجبوری و بے بسی ،بھوک ،پیاس دیکھی ہو ۔اللہ سبحان و تعالی نے پناہ گزینوں کی مدد کرنے کے بدلے میں بخشش کا وعدہ کیا ہے ۔قرآن پاک میں ارشاد ہے ۔”اور جو ایمان لائے اورہجرت کی اور اللہ کی راہ میں لڑے اور جنہوں نے جگہ دی اورمدد کی وہی سچے ایمان والے ہیں، ان کے لئے بخشش اور عزت کی روزی ہے۔
سورہ الانفال آیت نمبر 74۔ دنیا بھر کے مختلف خطوں میں جاری جنگوں، مسلح تنازعات اور تشدد کے باعث اپنا گھر بار چھوڑنے والے دنیا بھر میں تقریباً سات کروڑ بیس لاکھ پناہ گزین بن گئے ہیں۔ عالمی ریڈ کراس سوسائٹی متعلقہ رپورٹ منظر عام پر لائی ہے ۔ ان افراد میں اقوام متحدہ کے کیمپوں میں رہنے والے پچاس لاکھ فلسطینی پناہ گزین بالخصوص شامل ہیں۔ دنیا میں ہر 122واں شخص مہاجر ہے ۔ایک افسوس ناک حقیقت یہ بھی ہے کہ آج تمام دنیا میں مہاجرین کی اکثریت مسلمانوں کی ہے ۔اور دکھ اور غم کی اس گھڑی میں ہمیں اپنے ان مسلمان بہن بھائیوں کو نہیں بھولنا چائیے اور ان کی بے لوث خدمت کرنی چائیے۔
تحریر : اختر سردار چودھری، کسووال