تحریر : اصغر حیات
دنیا کو اس وقت دو بڑے مسائل کا سامنا ہے ، پہلا دہشتگردی اور دوسرا موسمیاتی تبدیلی ،دہشتگردی سے عالمی معشیت کو سالانہ اربوں ڈالر کا نقصان پہنچ رہا ہے اور لاکھوں لوگ اس کی وجہ سے لقمہ اجل بن رہے ہیں ،عالمی دہشتگردی انڈیکس کے مطابق سال 2014 میں دہشتگردی سے عالمی معیشت کو 52.9 ار ب ڈالر کا نقصان پہنچا جو کہ گزشتہ تیرہ سالوں میں سب سے زیادہ تھا اور اسی سال دہشتگردی سے ہونیوالی ہلاکتوں کی تعداد 32685 تھی ، ماہرین کے مطابق سال 2015 میں دہشتگردی سے عالمی معیشت کو 63ارب ڈالر سے زائد کا نقصا ن ہوا اور اس سال ہلاکتیں 45 ہزار سے تجاوز کر گئی ہیں ، کیونکہ دنیا کے مختلف ممالک میں دہشتگردی کی مختلف شکلیں اور قسمیں سامنے آرہی ہیں اور یہ معاملہ مزید پیچیدہ ہوتا جارہا ہے اس لئے آنے والے سالوں میں اگر مربوط حکمت علمی ترتیب نہ دی گئی تو اس نقصان میں اضافے کا اندیشہ ہے۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو پاکستان بھی گزشتہ کئی برسوں میں دہشتگردی سے بری طرح متاثر ہوا ہے ، لیکن نومبر 2014 میں آرمی پبلک سکول پر ہونیوالے حملے میں 150 ہلاکتوں کے بعدقومی قیادت کی طرف سے نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا ،نیشنل ایکشن پلا ن کے تحت ملک بھر میں کی جانیوالی کاروائیوں میں اب تک 2400 دہشتگرد ہلا ک اور 7 ہزار گرفتا ر ہوچکے ،جس کے باعث دہشتگردی کے حملوں میں 80 فیصد کمی آچکی اور اس کمی کے باعث سے ملکی معیشت کو ہونیوالے نقصان میں بھی31.7فیصد کمی آئی ہے۔اب اگر بات کی جائے دوسرے بڑے مسئلے موسمیاتی تبدیلیوں کی تو موسمیاتی تبدیلیوں اور فضائی آلودگی سے دنیا میں سالانہ 50 لاکھ افراد لقمہ اجل بن رہے ہیں اور اس سے عالمی معیشت کو 1.2 ٹریلین ڈالر کا نقصان ہورہا ہے۔
دوسرے الفاظ میں عالمی جی ڈی پی کا 1.6 فیصد موسمیاتی تبدیلیوں کے نقصانات کی زد میں ضائع ہوجاتاہے،محققین کے مطابق اگر عالمی حدت میں اضافے کو قابو نہ کیا گیا توسال 2030 یہ نقصان عالمی جی ڈی پی کے3.2 حصے تک پہنچ جائیگا ۔ غریب ممالک زیادہ متاثر ہونے کا خدشہ ہے جہاں موسمیاتی تبدیلیوں سے نقصانات جی ڈی پی کے 11 فیصد تک پہنچ جائیں گے ۔ صرف ترقی پذیر ممالک ہی متاثر نہیں ہونگے بلکہ ترقی یافتہ ممالک بھی بچ نہیں پائیں گے ،خشک سالی ، سیلابوںاور طوفانوں کے باعث سال2030 تک امریکی معیشت کو نقصان جی ڈی پی کے 2 فیصد تک پہنچ جائے گا۔ عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں کو بڑا مسئلہ سمجھ کر سنجیدہ اقدامات اٹھا ئے جارہے ہیں ، گزشتہ سال پیرس میں ہونیوالی عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں ایک تحریری معائدہ طے پایا جس میں 2050 تک دنیا کے درجہ حرارت کو 2 ڈگری تک محدود رکھنے پر کے حوالے سے اقدامات پراتفاق کیا گیا۔
پاکستان میں دہشتگردی سے سالانہ 1 ارب ڈالر کا نقصان ہورہا ہے ، دہشتگردی کے خلاف تو نیشنل ایکشن پلان بھی ترتیب دے دیا گیا اور اس پر پوری قوت سے عمل بھی جاری ہے لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کے لئے کو ئی پلان نہیں جس سے ملکی معیشت کو سالانہ 6 ارب ڈالر کا نقصان ہورہا ہے ، اور مستقبل میں یہ نقصان بڑھنے کا اندیشہ ہے ، پاکستان کا آٹھ ممالک کی فہرست میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں میں سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں ، عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے باعث مستقبل میںگلئیشیرزکے تیزی سے پگلنے اور بے ترتیب اور شدید بارشوں کی وجہ سے سیلاب کے امکانات میں اضافہ ہوگیاہے،قطب شمالی اور قطب جنوبی کے بعد دنیا میں برف کے سب سے بڑے ذخائر پاکستان کے شمال میں واقع تین پہاڑی سلسلوں ہمالیہ، ہندوکش اور قراقرم پر ہیں،ماہرین کے مطابق گزشتہ صدی کے دوران پاکستانی شمالی علاقوں میں 1.9 ڈگری سیلسیس اضافہ ہو چکا ہے، جس کے نتیجے میں برف پگھلتی جا رہی ہے۔
گلئیشیرز کے تیزی سے پگلنے کی وجہ سے آنے والی دہائیوں میں پاکستان کو سیلاب کی صورتحال کا سامنا رہے گا، جب کے بعد کے سالوں میں شدید خشک سالی ہوگی ،دونوں صورتوں میںزراعت کو نقصان پہنچے گا۔ زرعی ملک ہونے کی حیثیت سے پاکستان کی47 فیصد آبادی زراعت پر انحصار کرتی ہے جبکہ جی ڈی پی کا 22 فیصد حصہ زراعت سے آتا ہے ۔پانی کی کمی کے باعث گندم ، چاول ، کپاس اور گنے کی پیدوار متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔علاقائی موسمیاتی ماڈل نے خشک اناج کی پیدوار میں 15 سے20 فیصدتک جبکہ لائیوسٹا ک کی پیدوار میں 20-30 فیصد کمی کی پیشگوئی کی ہے ۔انٹر نیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی 2009 کی رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشا شدید موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں آجائے گا اور 2050 تک گندم کی پیدوار میں 50 فیصد کمی واقع ہونے کا خدشہ ہے۔
دہشتگردی سے بھی بڑے اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے ایک بڑے بجٹ اورجامع حکمت عملی کی ضرورت ہے لیکن شاید آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ موسمیاتی تبدیلی کی وزارت کیلئے حکومت نے سال 2016-17 کیلئے صرف 2 کروڑ 70 لاکھ کا بجٹ مختص کیا ہے ، وزارت کی طرف سے 10 منصوبوں کے لئے 33 کروڑ 90 لاکھ روپے مانگے گئے تھے ، لیکن حکومتی بڑوں نے بڑی سوچ بچار کے بعد صرف 2 منصوبوں کے لئے بجٹ جاری کرنے کی حامی بھری، جبکہ 8 انتہائی اہم منصوبے ڈراپ کردیے گئے ،بدقسمتی سے کسی نئے پراجیکٹ کے لئے کوئی بجٹ جاری نہیں کیا گیا ، بلکہ 2 جاری منصوبوں کے لئے بجٹ مختص کیا گیا، جن منصوبوں کے لئے بجٹ مختص کیا گیا ان میں ”موسمیاتی تبدیلی جیومیٹرک سینٹر ” کے قیام نے وزارت نے 1کروڑ 40 لاکھ سے زائد رقم مانگی تھی جس کے لئے صرف 1کروڑ مختص کیے گئے ہیں ، جبکہ جنگلات کی کٹائی روکنے کے لئے لینڈ منیجمنٹ پروگرام کے لئے وزارت نے آڑھائی کروڑ مانگے تھے اس منصوبے کے لئے وفاقی حکومت نے 1 کروڑ 70 لاکھ مختص کیے ہیں۔
وائلڈ لائف کی غیر قانونی تجارت روکنے کے لئے Strengthing Capacity for effective implementation of Pakistan Trade Control of Wild Fauna and Flora Act 2012 کے نام سے وزارت نے تین سالہ منصوبہ تشکیل دیا ، جس میں وفاقی حکومت سے سال 2016-17 کے لئے 50 لاکھ کی رقم مانگی تھی ،یہ منصوبہ مختلف اقسام کے ان جانوروں کی تجارت کو روکنے کے لئے مدد گار ثابت ہوتاجن کی غیر قانونی تجارت کے باعث ماحول کو بری طرح نقصان ہورہا ہے ، مثلاََ ایک کچھوا 1700 ڈالر میں فروخت ہورہا ہے، بیچنے والے کو کچھوئے کی افادیت کا علم نہیں ، لیکن کچھوا پانی کو آلودگی سے پاک کرنے کا فریضہ سرانجام دیتا ہے ، اسی طرح ہزاروں اقسام کے جانور ، پرندے اور حشاتات ہیں جو ماحول کو آلودگی سے پاک کرنے میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں ، لیکن اس حوالے سے لوگوں کو شعور دینے اور قوانین میں بہتری اور ان پر عمل درآمد کے حوالے سے یہ انتہائی اہم منصوبہ ڈراپ کردیا گیا۔
اس کے علاوہ پاکستان میں پودوں اور جانوروں کے اعداد وشما ر نہیں ، اعداد و شمار کے حوالے سے وزارت نے Development of Taxonomic profiles of mammals کے نام سے3 سالہ منصوبہ تشکیل دیا ،جس کے لئے حکومت سے 1 کروڑ 80 لاکھ مانگے گئے لیکن حکو مت نے اسے بھی ڈراپ کردیا، اعداد وشمارنہ ہونے کے باعث متعلقہ اداروں کو نہیں پتہ کہ جانوروں اور پودوں کی کونسی اقسام خطرے میں ہیں ،جب خطروں کا نہیں پتہ چلے گا تو ان نسلوں کے تحفظ کے لئے کیسے اقدامات اٹھا ئے جائیں گے؟عالمی معائدوں کی پاسداری کیسے ہوسکے گی؟۔
Climate Change Reporting Unit کے قیام کے لئے بھی وزارت نے4 سالہ منصوبہ تشکیل دیا ، یہ یونٹ اس حوالے سے اہم ہے کہ عالمی معائدوں کے تحت پاکستان اقوام متحدہ اوردیگر اداروں کو بتانے کے پابند ہیں کہ کونسے شعبے موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث متاثر ہورہے ہیں ،اگر ہم متاثرہ شعبوں سے متعلق عالمی اداروں کو نہیں بتا سکیں گے ، تو فنڈنگ کے ادارو ں کو فنڈ کے لئے کیسے راضی کر سکیں گے ۔موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے Green Climate Fund, Adaption fund , Un Environment Fund سے ایسے ممالک کی امداد کی جارہی ہے جو وقتاََ فوقتاََ عالمی اداروں کو موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونیوالے نقصانات سے آگاہ کرتے رہتے ہیں ،لیکن حکومت نے اس اہم یونٹ کا قیام مسترد کردیا ،اسی طرح کے 8 انتہائی اہم منصوبے مسترد کیے گئے۔
وزارت موسمیاتی تبدیلی کے 4 ونگز ہیں ١۔Forest Wing(جسکی سربراہی آئی جی کرتا ہے ) ٢۔Development Wing(جسکی سربراہی جوائنٹ سیکرٹری کرتا ہے) ٣۔International Coorporation Unit(جسکی سربراہی بھی جوائنٹ سیکرٹری کرتا ہے ) ٤۔ Environment Wing (جسکی سربراہی ڈی جی کرتاہے ) ۔ان میں سے پاکستان انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی ونگ کے لئے” موسمیاتی تبدیلی جیومیٹرک سینٹر” کی منظوری دی گئی ہے ، جبکہ ڈویلمپنٹ ونگ کے لئے ”لینڈ منیجمنٹ پروگرام” کی منظوری دی گئی ہے ، جبکہ دیگر دو ونگز کے لئے کوئی منصوبہ منظور نہیں کیا گیا ،اس کے علاوہ وزارت کیساتھ منسلک محکموں کی تعداد بھی چار ہے۔ ١۔Pakistan Environment Protection Agency ، ٢۔Zoological Survey of Pakistan
٣۔Global Change Impact study centre ، ٤۔ Pakistan Environmental Planning & Architectural Consultants (PEPAC)
وزارت کے ساتھ منسلک ان محکمو ں کے لئے کوئی منصوبہ منظور نہیں ہوا،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ انتہائی اہم محکمے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھیں گے ؟ اور ان محکموں سے لاکھوں روپے کی تنخواہیں لینے والے افسران کیا سارا سال مکھیاں ماریں گے ؟ماہرین حیران بھی ہیں اور نالاں بھی ، 2 منصوبے تو سالانہ کوئی چھوٹی سے چھوٹی این جی او بھی کر سکتی ہے ،پھر وزارت کے قیام کا مقصد کیا ہے ؟ہمارے پڑوسی ملک بھارت کو بھی موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے شدید خطرات لاحق ہیں لیکن وہ اس خطرے سے نمٹنے کے لئے جی ڈی پی کا سالانہ 3 فیصدکے قریب خرچ کررہاہے ، اور عالمی امداد کے حوالے سے اچھا شیئر لے رہا ہے۔
جبکہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوںپر جی ڈی پی کا صرف 0.02 فیصد خرچ کررہا ہے ،اور عالمی برادری پاکستانی اقدامات کے حوالے کے کسی طور بھی مطمین نہیں۔اس مسئلے کے حوالے سے حکومتی عدم دلچسپی کی ایک وجہ شعور کی کمی ہے، وزارت کا مستقل وزیر نہ ہونا بھی منصوبوں کی پیش رفت کے حوالے سے ایک اہم مسئلہ ہے (کیونکہ زاہد حامد کے پاس ایک اور وزارت کا اضافی چارج ہے جہاں وہ زیادہ وقت دیتے ہیں)لیکن سب سے بڑا مسئلہ ترجیعات کا تعین ہے ، موجودہ حکومت کی ترجیعات شاید میڑو ،اورنج لائن ، سڑکیں اورپُل وغیرہ ہیں ، وہ تو بھلا ہو عمران خان کی صوبائی حکومت کا ، جس نے بلین ٹری منصوبہ شروع کر کے سب کی آنکھیں کھول دیں، جس کے باعث وزیر اعظم کو بھی گرین پاکستان منصوبے کا اعلان کرنا پڑا ، وفاقی حکومت نے گرین پاکستان منصوبے کے لئے سال 2016-17 کے لئے ایک ارب کی منظوری دی ہے اور ایک ارب اگلے سال کے بجٹ میں مختص کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے ،جو خوش آئند ہے ، لیکن خدشہ ہے کہیں اس منصوبے کا حشر بھی شجر کاری کی دیگر منصوبوں جیسا نہ ہو۔
تحریر : اصغر حیات