تحریر: شاز ملک فرانس
دنیا میں جب انسان اپنی پہلی سانس لیتا ہے تو قدرت کی طرف سے ودیعت کردہ احساس میں کہیں نہ کہیں اسکے شعور میں یہ آگہی دل کی دھڑکنوں اور سانسوں کی روانی اور لہو کی طولانی میں ہوتی ہے کے وہ ایک انجانی دنیا میں قدم رکھ چکا ہے جہاں قدرت کے متعین کردہ زاویے کے تحت اسے زندگی گزارنی ہےاپنی زندگی کو انہی ضابطوں کے سانچے میں ڈھالنا ہے۔
لیکن انسان کا زلی دشمن شیطان اور نفس کے پھیلے جال سے بہت کم خود کو بچا پاتے ہیں اور زندگی کی رنگین عینک لگا کر زندگی کے ایک ہی رخ کی طرف دوڑے چلے جاتے ہیں قدرت ا ضابطہ اخلاق کو روندتے ہویے انکو یہ احساس تک نہیں ہوتا کے وہ انجانے میں الله کی متعین کردہ حدود کو پار کر چکے ہیں ، حسد لالچ بغض کینہ نفرت کے لبادے اوڑھے وہ احسس سے دور ہوتے جاتے ہیں اپنے گلے میں پر وقت کی ڈھیل کی دراز رسی کو نظر انداز کے جاتے ہیں اور پھر ایک ٹھوکر لگتی ہے تو احساس ہوتا ہے کے وہ وقت آخر کے لق و دق صحرا میں کھرے ہیں۔
اور انکے پاس تو فقط بوسیدہ جسم میں سسکتا دل اور کہنہ روح رہ جاتے ہیں انسان کے تو نقش و نگار تک بدل جاتے ہیں ٹیڑھے میڑھے جھریوں سے بھرے چہرے جسموں کے بوسیدہ ہونے کی گواہی دیتے ہیں زندگی انسان کا کیا حشر کرتی ہے موت تو صرف ایک بار آتی ہے۔۔ مگر زندگی عمر کو دیمک بن کر کھاتی رہتی ہے۔
رفتہ رفتہ یہ زندگی خالی خولی جسم کو شکستہ دلی کے پیرہن میں لپیٹ کر کہنہ روح کو نکلنے کا موقع دیتی ہے موت کے ہاتھ سونپ کرخود لباس نو پہن کر پھر کسی اور انسانی جسم کو کھوکھلا کرنے نکل جاتی ہے۔
س بے ایمان زندگی کی یہی حقیقت ہے جس پر انسان اکڑتا ہے جیسے یہ اسکا ساتھ ہمیشہ نبھایے گی مگر انسان کو یہاں جو بھی ملا ہے سب چھن جانے کے لئے ملا ہے یہ جوانی یہ عیش و عشرت کے بازار نفس کی بھوک صرف جسم کے شکنجے سے روح کے نکلنے تک کا عمل ہے اسکے بعد حیرانی پشیمانی ،اور رائیگانی کا سفر شروع ہو جاتا ہے انکے لئے جنہوں نے اپنی زندگیکے سفر کو اختیار تو کیا مگر زاد راہ کا نہیں سوچا انسان کے عمال اسکے ایمان کی پختگی اسکی زبان و اخلاق ساتھ جاتے ہیں زندگی کے اس پڑاؤ پر موت اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر ایک ابدی سفر کی طرف گامزن ہو جاتی ہے آگاہی کا وہ لمبا سفر جسکا انت بس رب جانے ذات کا سفر روح طے کرتی ہے جسم خاکی مٹی کا ڈھیر بن جاتا ہے مٹی کا رزق بس مٹی ،مٹی سب کچھ کھا جاتی ہے اور پھر مٹی کر دیتی ہے بد رنگ بے ذائقہ موت کے ذائقے کی طرح ،……………..۔
تحریر: شاز ملک فرانس