تحریر: میر افسر امان
غالب نے کیا خوب کہا تھا کہ” یہ کہاں کی دوستی ہے کہ، بنے ہیں دوست ناصح۔ کوئی چارہ ساز ہوتا،کوئی غم گسار ہوتا”کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا ،کہنے کا مطلب شاعر کا شایدیہ ہے کہ ایک دوست کا کام صرف نصیحت کرنا ہی نہیں ہوتا بلکہ مشکل کے وقت دوست چارہ ساز ہونا یا غم گسار ہونا ہوتا ہے۔ نا جانے ہم نے اس شعر کی تشریع اپنے مطلب کی کر لی ہے یا صحیح ہے ۔یہ تو مضمون پڑھنے والے صاحبان ہی بتا سکتے ہیں۔ گو کہ طنز بھری نصیحت ملک کی ایک اسلامی نظریاتی ، دو قومی نظریہ کی محافظ، غیر مورثی جماعت، جمہوری طرز عمل رکھنے والی، جہادی جماعت اور کرپشن سے پاک جماعت اسلامی کے لیے تھی اور طنز بھری نصیحت کی باتیں اسلام کی جنگ لڑنے والی ایک کراچی کی اخبار میں٢٤ جون کو پڑھنے کو ملیں۔ ہمارا گمان ہے کہ یہ اس اخبار کی پالیسی سے ہٹ کر ہی ہونگی۔اسی لیے کسی نامعلوم ناصح کی طرف خبر کی شکل میں تھیں، اگر ناصح اپنا نام ظاہر کر دیتے تو جواب بہترانداز سے دیا جا سکتا تھا۔ کیونکہ ہمارا تعلق جماعت اسلامی سے ہے۔اور تبصرہ کرنے والی اخبار کو بھی ہم اپناہی غم گسار سمجھتے ہیں۔
اس اخبار نے اسلام کی خدمت اور غیر اسلامی نظریات کے سامنے جو دیوار کھڑی کی ہوئی ہے وہ بہت بڑی بات ہے۔ اس اخبا رنے ہمیشہ نے اسلام کی خاطر قومیتوں سے لڑائی کی ہے۔ مگر بہر حال وہ ایک اخبار ہی تو ہے کوئی سیاسی تحریک نہیں۔ مگرجماعت اسلامی کا اگر ذکر کیا جائے تو وہ متعدد اخبارات رسائل کے ساتھ ایک نظریاتی جماعت ہے۔ اس کے اثرات ملکی اور غیر ملکی سطح پر بہت گہرے ہیں۔ وہ عام سی اسلامی جماعت نہیں ہے بلکہ اسلام کے پرامن اور عادلانہ نظام کے نفاذ کی جد و جہد کا ریکارڈ بھی رکھتی ہے۔ لہٰذا ہم نے اس اخبار ہی کو سامنے رکھتے ہو ئے کیچھ عرض کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر اس اخبار کی طنز بھری نصیحت کو لسٹ وار کر لیا جائے تو بات سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ اخبار لکھتا کہ جماعت اسلامی اپنے نظریا تی کام سے دور ہو گئی ہے اور عملاً جامد ہے ۔اقتدار کی خاطر اسے طاہرالقادری کی بغل میں دیکھ کر دُکھ ہوا ہے۔خیبر پختونخوا میں عمران خان کے ساتھ کھڑی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔جماعت اسلامی کرپشن کے خلاف باجا بجا رہی ہے جس سے عمران کو فائدہ پہنچے گا۔اس کو اگر سیاست کرنی ہے تو مولانا فضل الرحمان سے سیکھے اور رتبلیغی جماعت کی طرح دین کا کام کرے۔
جماعت کی لیڈر شپ کو اپنی ناکامی تسلیم کر کے قیادت جوانوں کے حوالے کر دینا چاہیے۔اگر ایسا نہ کیا تو اِسے کسی اور جماعت کے لیے جگہ خالی کرنی پڑے گی وغیرہ۔ صاحبو! الحمد اللہ جماعت اسلامی جس نظریاتی ڈگر پر قائم ہوئی تھی آج تک اسی پر قائم ہے اور بتدریج آگے بڑھ رہی ہے جامد نہیں ہے۔ہاں اس میں شک نہیں کہ اُسے وہ نتائج نہ مل سکے جو ملنے چاہیے تھے تو اس کے ہمدردوں کو تشویش ہو جاتی ہے جو فطری ہے۔ ہمدردوں کو مرض کی تشخیص میں ذرا پریشانی بھی ہوتی ہے۔اگر اس بات کو اس جماعت کے بانی مولانا موددی کے اس ایک بیان کے تصور میں رکھ کر دیکھا جائے کہ” اگر صابن سے کوئلے کی سیاہی ختم نہیں ہوئی توصابن کا قصور نہیں یہ کوئلے کی سیاہی کا قصور ہے۔ ہم جماعت والے یہ اچھی طرح سمجھتے ہیں جس معاشرے کو ہم نے تبدیل کر کے اسلامی معاشرہ بنانا ہے اس کو صاحب اقتدار لوگوں نے کوئلے کی طرح سیاہ کر دیا۔ سیاست دانوںنے سیاست کو تجارت سمجھ لیا ہے ایک لاکھ لگائو، ایک کروڑ کمائو والی بات ہے ۔ جبکہ جماعت اسلامی انبیا کی سنت پر چلتے ہوئے سیاست کوعبادت سمجھتی ہے۔ اس لیے اس میں کرپشن نام کی کوئی چیز نہیں۔اسی سیاست اور نظریہ پر جماعت اسلامی آج تک سیاست کر رہی ہے اور کرتی رہے گی۔جماعت اسلامی اپنے نظریاتی کام سے ایک اینچ بھی پیچھے نہیں ہٹی۔
اس کا کام کوشش کرنا ہے جو وہ کر رہی ہے جب اللہ چاہے گا معاشرہ تبدیل ہو گا۔طاہرالقاردی کی سیاست سے سو اختلاف بھی ہو مگر کیا طاہرالقادری کے لوگوں کے ساتھ نواز حکومت نے ظلم نہیں کیا اس کے ١٤ کارکنوں کو سفاکیت سے قتل نہیں کیا گیا اس کے کہ سیکڑوں کارکنوں کوزخمی نہیں کیا گیا تھا؟ اس ظلم کا ساتھ دینا اور اس سے یکجہتی کرنا غلطی نہیںہے۔ کیا طاہرا لقادری کے پاس اقتدار ہے کہ اس یکجہتی کے بدلے وہ جماعت اسلامی کو کچھ دے گا ۔ یہ الزام ہے۔
ایسا ہر گز نہیں۔ یہ آپ کی طاہرالقادری سے اختلاف کا شاخسانہ نظر آتا ہے۔ جماعت اسلامی خیبر پختونخواہ میںپی ٹی آئی سے دن کی روشنی میں جمہوری عمل کو سامنے رکھتے ہوئے سیاسی اتحاد کیا ہوا ہے۔ ٹرک کی بتی کے پیچھے نہیں لگی ہوئی۔ اس میں بھی آپ کی پریشانی جماعت اسلامی سے ہمدردی کے بجائے آپ کی اخبار کی عمران خان کی سیاست سے اختلاف اور ن لیگ سے مفاہمت کی وجہ ہے اس میں آپ جماعت اسلامی کو کیوں گھسیٹتے ہیں۔جماعت اسلامی کرپشن کے خلاف باجا نہیں بجا رہی بلکہ حقیقی مہم چلا رہی ہے۔اللہ کا خوف کریں اور دیکھیں کہ ملک میں کرپشن عروج پر نہیں ہے۔ اگر اس کے خلاف جماعت اسلامی مہم چلا رہی ہے اور آپ کے مطابق اس کا فائدہ عمران خان کو ہو گا۔ پاکستان سے لوٹا ہوا پیسا واپس پاکستان کے خزانے میں آنا چاہیے جس سے پاکستان کے عوام کا فائدہ ہوگا کسی فرد کا نہیں۔قربان جائوں آپ کی سوچ پر !آپ کی اخبار کے بانی کی پالیسی سے یو ٹرن لینے پر! اس اخبار کے فرنٹ پیج پر برسوں جہادی ملا عمر اور گل بدین حکمت یار کی تصویریں شائع ہوتی رہیں۔کیا اس اخبار نے جہاد سے توبہ کر لی ہے کہ جماعت اسلامی کو جہاد سے دور رہنے والی تبلیغی جماعت جیسا کام کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔جماعت اسلامی جہادی جماعت ہے اور ہمیشہ رہے گی انشا اللہ۔ چاہے لوگ جہاد سے پیچھے ہٹ جائیں۔
آپ نے جماعت اسلامی کو مولانا فضل الراحمان صاحب سے سیاست سیکھنے کا مشورہ دے کر جماعت اسلامی کو ابھی تک شاید سمجھا ہی نہیں ہے۔ مولانا عام سیاسی پارٹیوں کی طرح سیاست کرتے ہیں جبکہ جماعت اسلامی کا ایک منفرد سیاست کا طریقہ ہے، جماعت میں کوئی امیدوار ٹکٹ کے لیے درخواست نہیں دیتا بلکہ اگر جماعت کو پتہ لگ جائے کہ کوئی فرد الیکشن میںکھڑا ہونے کی اپنی سی کوشش کر رہا ہے تو اس کو ڈس کوالیفائڈ کر دیا جاتا ہے۔ لگتا ہے آپ کی اخبار کو بھی اقتدار سے قریب رہنے کی مولانا کی ہمیشہ کی پالیسیوں نے فریب میں ڈال دیاہے۔جماعت اسلامی ایسے فریب سے کوسوںدور ہے جس کا مظاہرہ متحدہ مجلس عمل کے ٹوٹنے کے وقت پاکستان کے عوام مولانا کی پالیسیوں کو دیکھ چکے ہیں۔جماعت اسلامی کی قیادت نوجوان سراج الحق کے پاس ہے آپ فکر نہ کریں جماعت ا سلامی کوئی ریت کا گھروندہ نہیں کہ جسے مٹا کر کوئی اور جماعت اس پر قبضہ کر لے گی آپ جماعت کے غم میں کمزور نہ ہوتے جائیں ۔جماعت اسلامی توانا لوگوں کی جماعت ہے جس کا ہر فرد اپنے جماعت کی حفاظت کے لیے مر مٹنے کے لیے تیا رہے جماعت اسلا می زندہ ہے اور زندہ رہنے کے لیے بنی ہے اورانشا اللہ ہمیشہ زندہ رہی گی۔
اس کو نیاخون ملتا رہے گا۔ کیا یہ اچھا نہ ہوتا کہ اخبار جماعت اسلامی کی ناصح ہونے کے بجائے چارہ ساز ہوتی۔ غم گسار ہوتی۔ ” یہ کہاں کی دوستی ہے کہ، بنے ہیں دوست ناصح۔ کوئی چارہ ساز ہوتا،کوئی غم گسار ہوتا”
تحریر: میر افسر امان
کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان