تحریر: اے آر طارق
گزشتہ دنوں انچارج رمضان بازار غالب مارکیٹ، گلبرگ ٹاون نے رکشہ پر لدا ڈھائی من گوشت
جو کہ اس رمضان بازار میں بکنے کے لیے آیا تھا کو شک گزرنے پر چیک کیا تو گوشت کو مضر صحت پایا۔ اس نے فوری طور پر لائیو سٹاک کی لیڈی ڈاکٹر تبسم کو اطلاع کی جس نے مضر صحت گوشت کو ناقص قرار دیتے ہوئے لائیو سٹاک کی ٹیم کو طلب کیا ۔مذکورہ انسپکٹر عمران قمر اطلاع کے باوجود نہ آئے۔ جس پر لیڈی ڈاکٹر ،انچارج رمضان بازارنے پولیس کو اطلاع کی،اسی اثناء میں کسی شخص نے ڈائریکٹر فوڈ پنجاب عائشہ ممتاز کو بھی خفیہ اطلاع دے دی، جس نے آتے ہی انچارج رمضان بازار کی کارروائی کو اپنی کارروائی بنانے کے لیے کہا ،،یہ گوشت میں نے پکڑا ہے اور مجھے اس کی اطلاع ہوئی ہے، یہ کارروائی میری ہے،، جس پر رمضان بازار کے دیگر دکاندار اور ملازمین نے کہا کہ یہ کارروائی انچارج رمضان بازار نے کی ہے۔
جس پر وہ آگ بگولا ہوگئی اور انچارج رمضان بازار سے ” توں تکرار” شروع کر کے غلیظ زبان استعمال کرنا شروع کردی، جس پر انچارج رمضان بازار نے بھی ان کو کھری کھری سنا دیں کہ، ،کارروائی میں نے کی اور آپ اپنا حق جتانے اور سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہیں،، یہ بات انچارج رمضان بازار نے اعلی افسران کے نوٹس میں لاتے ہوئے کارروائی مکمل کرکے مذکورہ قصائی کے خلاف متعلقہ تھانے میں ایف آئی آر درج کروا کر اسے حوالہ پولیس کردیا۔ایسے میں عائشہ ممتاز حالات کو اپنے موافق نہ پا کر شور پڑنے پر رفو چکر ہوگئی۔ اس موقع پر انچارج رمضان بازار نے صحافیوں کو بنایا کہ میرے ساتھ عائشہ ممتاز کا رویہ انتہائی ناروہ رہا، میں نے خاتون ہونے کے ناطے ان کے ساتھ تمیز سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ذاتیات پر اتر آئی ،جس پر میں نے بھی اس کو کھری کھری سنا دیں اور اپنی قانونی کارروائی مکمل کی۔ڈائریکٹر فوڈزپنجاب عائشہ ممتاز ایک محنتی،نڈراور تعمیری جذبے کے ساتھ کام کرنے والی خاتون ہے۔جس کا ثبوت ان کی اس سسٹم کے خلاف چلنے والے افراد کے خلاف دلیرانہ کارروائیاں ہیں۔جب سے اس نے یہ چارج سنبھالاہے
وہ مسلسل کام پر کام کیے جا رہی ہے اوراس کرپٹ سسٹم کے خلاف تن تنہا جہاد کرتی نظر آرہی ہے،جس میںیقینا میری نظر میں اس کے عملے کا کردار کم اور اس کا ذاتی زیادہ لگتا ہے کیونکہ جس جذبے اور تعمیری سوچ کے ساتھ وہ اس سسٹم میں بہتری لانے کے لیے جدوجہد کرتی نظر آتی ہے صرف اسی کا ایک خاصہ ہے۔ میرے لاہور میںجنوری ،فروری،مارچ تین ماہ کے سٹے کے دوران ،میںنے تو جب بھی دیکھا،مجھے وہ عوامی صحت کے دشمن ،پیسے کے پجاری،ہوس زر کے مارے ہوئے ان ہوٹلوں،ریستورانوں کے مالکان کے خلاف ایکشن لیتے ہوئے کافی مستعد وتوانااور پہلے سے تیار کھڑی نظر آئی لیکن ان کے ہمرا ہ موجود عملہ میںوہ چشتی اور تیزی دیکھنے میںنظر نہیں آئی جو کہ ان کے ہوتے ہوئے ہونی چاہیے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ،،جس کرپٹ سسٹم سے وہ لڑنے جاتی ہے،اسی سسٹم کے پیدہ کردہ ہیںیہ لوگ،جو ان کے ہمراہ ہوتے ہوئے بھی اور کارروائی میںبحکم ڈائریکٹر فوڈحصہ لیتے ہوئے بھی مخلص دکھائی نہیں دیتے کیونکہ ڈائریکٹر فوڈ(جو کہ بلاشبہ تعمیری جذبے اور کچھ دکھانے کا عزم لیے کا م کرتی ہے،یہ بھول جاتی ہے کہ وہ ایک خاتون ہے، جو جتنی مرضی مضبوط سیٹ پر آجائے،اس کرپٹ ٹولے سے نہیںجیت سکتی،جس کی نس نس میں کرپشن سمائی ہوئی ہے ،جو ان کے چھاپے پڑنے سے پہلے ہی متعلقہ جگہ بنادیتے ہیںکہ سنبھل جائو
ایسے موقع پرجو بیچاری سے ہو پاتا ہے وہ کرتی ہے،یہی اس کی دلیری و بہادری ہے،جب اپنے ساتھ میر جعفر،میر صادق جیسے لوگ بغل میں لیے گھومے گی تو رزلٹ بھی ناقص ہی آئیں گے۔بحثیت راقم الحروف میں سمجھتا ہوں کہ یقینا یہ کارروائی انچارج رمضان بازار کی تھی ،جس کی گواہی اس موقع پر مقامی دکاندار وملازمین نے دی، جس کا کریڈٹ انچارج رمضان بازار کوجانا چاہیے۔مگرمیں اپنے سولہ سالہ صحافتی تجربے کی روشنی میں یہ بات کر رہا ہوں کہ جس انداز سے انچارج رمضان بازار نے قصائی کو اپنے دفتر میں بٹھا رکھا تھا ،وہ انداز ڈیل کا تھا نہ کہ ان کو گرفتار کروانے کا۔وہ تو اللہ کی رحمت تھی کہ کسی شخص کی خفیہ کال کرنے پر ،جو جانتا تھا کہ ڈیل ہونے والی ہے۔آپ پہنچ گئی۔شور تو مچا ہوا تھا ،مضر صحت گوشت کے پکڑے جانے کا،وہ تو ضائع ہونا ہی تھا مگر اس قصائی سے عیدی اکٹھا کرکے اس کو واپسی کی راہ چلتا بھی کرنے کاپروگرام تھا،جو آپ کی یہاں آمد پر تلپٹ ہوگیا۔ایک تو وہ آپ کے اس اچانک آجانے پر بوکھلا گئے تھے ،اوپر سے آپ کے کریڈٹ لینے سے برہم اورغیض وغضب کا شکار ہوگئے ،یوں جو کارروائی انھوں نے نہیں بھی کرنی تھی ،آپ کے ڈر کی وجہ سے انہیں کرنی پڑی۔آپکو بحثیت راقم الحروف میرا مشورہ ہے کہ آپ جب بھی کوئی کارروائی کریں،صبر وتحمل کے ساتھ کیا کریںیہ لاکھ کریڈٹ لے لیں۔ اس کا ریوارڈ آپ کے نام ہی جائے گا۔
سیانے کہتے ہیں کہ پرالی والے پنڈ دورو ں ہی سیانپے جاتے ہیں،،اسی طرح ان کا آپ کے ساتھ بغض،رویہ اور ہتک آمیز سلوک واقفان حال(جو ان کے مکروہ چہروں کو اچھی طرح جانتے ہیں)خوب سمجھتے ہیں۔ایسے میں آپ کو فکر حق کی کرنی چاہیے نہ کہ باطل کی،کیونکہ حق قائم رہتا ہے اور باطل کو آخرکار مٹنا ہوتا ہے۔یہ سب لوگ سمیت انچارج رمضان بازار وعملہ کس بیمار ذہنیت کے مالک ہیں،راقم الحروف سمن آباد،سوڈیوال برانچ میں اے زے یو ایم اخوت میں(جذبہ خدمت خلق)کے تحت کام کر کے (جب اخوت کے پلیٹ فارم سے پنجاب فوڈز اتھارٹی کے تعاون سے حفظان صحت کے اصولوں کے عین مطابق فوڈ سٹال اور ریڑھیاںلگنی تھی،کرپشن فری منصوبہ دیکھ کرشہباز شریف پر بھی برہمی کا اظہار کرنا)دیکھ چکا ہے۔
جس پر تفصیلی بات کرکے میں اخوت کاز کو نقصان نہیںپہنچانا چاہتااور نہ ہی کسی کی خوامخواہ دل آزاری کرنا چاہتاہوں۔میری رائے کے مطابق آپ کے شانہ بشانہ موجود سب لوگ اس سسٹم کو ڈی ریل کرنے والے ہیں نہ کہ اس سسٹم میں بہتری لانے کے خواہشمند۔آپ اس بغل میں چھری ،منہ پر رام رام ٹولے سے خبر دار رہتے ہوئے اپنے مشن کو اپنے ذہن ودماغ کے ساتھ جاری رکھیے۔انشااللہ تمام تر مخالفتوں کے باوجود کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔آپ کو اس جدوجہد کو جاری رکھنا ہوگا کیونکہ ارض وطن کی باشعوراور غیور عوام آپ کی عوام کے لیے گراں قدر خدمات کو تحسین کی نظر سے دیکھتی ہے اور کہتی ہے کہ ویل ڈون عائشہ ممتاز قدم بڑھائو ہم تمھارے ساتھ ہیں۔
تحریر: اے آر طارق