تحریر : ڈاکٹر حناء امبرین، ریاض
یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہم ایک ایسے دور میں پیدا ہوئے جب عبدالستار ایدھی جیسا نایاب انسان موجود تھا جس نے دکھی انسانیت کی خدمت کو اپنا فریضہ سمجھنے کے ساتھ ساتھ دنیا کو یہ باور کروایا کہ انسان ہی انسان کے کام آتا ہے۔
فرشتہ صفت، سماجی کارکن اور ایک عظیم انسان جو دکھی انسانیت کے لئے کھڑا ہوا تو دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس بنا ڈالی۔ پاکستان بھر میں کئی نرسنگ ہومز بنا دیے، یتیموں کے سر پر ہاتھ رکھا، غریبوں اور بیواؤں کو رہنے کا ٹھکانہ دیا ۔ چاہے بھوکوں کو کھانا کھلانا ہو یا لاوارثوں کو دفنانا ہو جہاں جہاں دکھ اور غربت نے سر اٹھایا وہاں وہاں ایدھی کا نام آیا۔
دنیا بھر میں پاکستانیوں کی شناخت ، غریب پرور، تمام انسانیت کی بلا تفریق خدمت کو عبادت جاننے والے ایدھی صاحب ایک عظمت کی ہجرت کے ساتھ ،اپنے چاہنے والوں کو دلگرفتہ چھوڑ کر، اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے۔
محبت کا ایک اور باب اختتام پزیر ہوا، ایدھی کا پاکستان ایک اور بار یتیم ہو گیا، ایدھی کا انتقال ایک سانحہ ہے جو نہ صرف پاکستان بلکہ تمام دنیا کو اس وقت تک جھیلنا پڑے گا جب تک ہرشخص ایدھی نہیں بن جاتا اور جب تک محبت ، عظمت، خدمت اور احساس دوبارہ اپنے اصل معنی نہیں تلاش کر لیتے۔ یہ شخص جاتے جاتے بھی انسانیت پر احسان کرتے ہوئے اپنی آنکھیں عطیہ کر گیا۔
“آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے”
ایدھی صاحب دنیا کے تمام اعزاز اور تمغات سے بالاتر ہیں، اعزاز تو یہ ہے پاکستان ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر ان کے نام کے اعزازات جاری کیے جائیں، اصل اعزاز تو یہ ہے کہ ان کا مشن جاری رہے، انہوں نے جو پودے لگاۓ آج وہ تناور درخت بن کر سایہ دیتے ہیں، اب یہ ذمہ داری ہماری ہے کہ اس گلشن کومزید نکھاریں۔
ان کے انتقال پر آج ہر آنکھ اشکبار ہے، ہر دل مغموم ، کہ ایک عظیم انسان ہم سے بچھڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
کتنے قطروں کو سمندر کر گیا
کام پورا کر کے اپنے گھر گیا
تا قیامت وہ رہے گا جاوداں
کوئی نہ کہے کہ ایدھی مر گیا
آج کے اس دور میں جہاں ہر ایک نفسانفسی کے عالم میں مبتلا ہے وہاں ایدھی جیسی شخصیت کا نام تمام دنیا کو یہ یقین دلاتا ہے کہ دنیا میں انسانیت ابھی باقی ہے۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ انہوں نے ایدھی سینٹر میں بیمار جانوروں کے لیے بھی پنجرہ رکھوا دیا تھا۔
بحیثیت لکھاری اپنے جذبات اور احساسات کو لفظوں میں منتقل کر کے قید کرنا اب میرے لیے دشوار ہوتا جا رہا ہے۔ ایدھی صاحب پاکستان اور اس دنیا کو نہ صرف ایک عہد دے گۓ بلکہ تمام انسانیت کو مقروض کر گۓ۔ اور یہ وہ قرض ہے جو ہم میں سے ہر شخص ایدھی بن کر اتار سکتا ہے۔ آئیے ہم اور آپ یہ تہیہ کریں کہ ہم سب مل کر اس دور نایاب کو برقرار رکھیں گے۔
ہم میں سے ہر شخص اپنے حصے کی شمع جلاۓ رکھے تو یہ کام آسان ہو جاۓ۔عبدالستار ایدھی کو خراج تحسین اور ان سے اظہار عقیدت اسی صورت ادا ہو سکتا ہے کہ ان کے مشن کو آگے بڑھایا جاۓ اور ان کی تجویز کردہ سماجی خدمات کے کاموں کی ترویج و ترقی میں اپنا کردار ادا کیا جاۓ۔
تحریر : ڈاکٹر حناء امبرین، ریاض