تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
زمین پر جنت الفردوس سے بڑھ کر مسجد نبوی ۖ کے نرم گداز مخملی قالین پر مر مریں ستون سے ٹیک لگا ئے میں اپنی زندگی کے سب سے قیمتی اور ایمان افروز لمحات کو قطرہ قطرہ انجوائے کر رہا تھا ہر مسلمان شہر کی طرح میری بھی یہ دیرینہ خواہش تھی کہ کر ہ ارض کے سب سے قیمتی اور عظیم شہر مدینہ جا ئوں اور آج میںاِس منظر کا حصہ تھا ۔ مجھے بچپن سے مدینہ منورہ بہت یا د آتا تھا مدینہ مجھے ہی کیا کر وہ ارض پر بسنے والے ہر مسلمان کو بہت زیا دہ یا د آتا ہے زندگی کی مشکلات جب نو کیلی چٹانوں اور سلگتے صحرائوں کی طرح جسم و روح کو جھلسا نا شروع کر دیں تو ہر مسلمان کسی سائبان کی تلاش میں ہو تا ہے دکھ پریشانیاں اور تکلیفیں جب دلدل کا روپ دھار جا ئیں جب سانس چلنا بند ہو جا ئے جب مایوسی اور درد آپ کی ہڈیوں تک سرایت کر جا ئے زندگی بو جھ بن جا ئے تو آپ صرف ایک بار آقائے دو جہاں ۖ اور مدینہ پاک کا تصور کر تے ہیں اور تما م دکھوں پریشانیوں سے آزاد ہو جا تے ہیں۔۔
میں حیرت میں تھا کہ وہ لو گ اعصاب شکن لمحات میں زندگی کا مقا بلہ کیسے کر تے ہو ں گے ۔ جن کے پاس عشقِ رسول ۖ نہیں جن کے پاس مدینہ جیسی بستی نہیں جب زندگی کی تلخ حقیقتیں آگ کی طرح جھلسانے لگیں اور آگ برساتا سورج سوا نیزے پر آکھڑا ہو تا ہو گا تو وہ کس گو شہ راحت کی طرف دیکھتے ہوں گے کو نسا تصور خیال چھت انہیں جینے کی امنگ اورسہا را دیتی ہو گی ہم گنا ہ گار سیا ہ کار حماقتوں کے پیکر ٹھکرائے ہو ئے ضرور سہی لیکن اپنے دل و دماغ اور روح کے نہاں خا نوں میں عشقِ رسول ۖ کی وہ چنگا ری امید کی کرن جینے کا حوصلہ گو شہ عافیت نجات دہندہ کا تصور ضرور رکھتے ہیں کہ جب دن لمبے اور راتیں کا لی سیا ہ ہو جا ئیں کہ تن آور ماد ی دنیاوی سہا رے شکستہ درختوں کی طرح ٹوٹ گرتے ہیں۔
زندگی کی تند و تیز مو جیں جب ہمیں بہا کر لے جا ئیں کو ئی تنکا بھی سہا رے کو نہ ملے دنیاو ی سارے سہا رے ساتھ چھوڑ جا ئیں کو ئی مدد گار پر سانِ حال نہ ہو تو دل و دماغ کے نہاں خا نوں میں دبی یہ امید کی کرن روشن سورج کا روپ دھار لیتی ہے ‘پیا رے آقا ۖ کا تصور پا ک آ پ ۖکی مسیحائیت آپ ۖ کا اپنا پن آپ ۖ کا سہا را اِ س تصور کے ساتھ ہی تصور مدینہ کا سحر آپ کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے اور دنیا کے ہر دکھ درد سے آزاد کر دیتا ہے اور پھر زندگی کی سیا ہ رات میں امید کی کرنیں جگنوئوں کی قطار کی طرف نمودار ہو تی ہیں اور پھر آگ برساتے صحرائوں میں نخلستان سے کھل اٹھتے ہیں اور پھر درد دکھ تکلیف بے بسی بے کسی اور مجبوریوں کی ساری ویران بنجر زمین سے امید اور خوشی کے چشمے یوں پھوٹ پڑتے ہیں کہ سارے منظر ہی بد ل جا تے ہیں زندگی راحت بن جا تی ہے جینے کی امنگ دوبارہ نئے سرے سے پھوٹنا شروع ہو جا تی ہیں ‘مایوسیوں کی گھٹا ٹوپ تاریکیاں جھٹ جا تی ہیں ہر طرف نو ر اور خو شیوں کے فوارے پھوٹ پڑتے ہیں۔
زندگی اپنی تما م تر رعنائیوں کے ساتھ پھر رواں دواں ہو جا تی ہے میں خوشی کے اِن لمحوں پر ساتویں آسمان پر تھا اپنی قسمت پر رشک کر رہا تھا اور بار بار سوچ رہا تھا کہ جن کے پاس عشقِ رسول ۖ اور مدینہ پا ک نہیں ہے وہ جانور نما انسان زندگی کی مشکل گھاٹیاں اور آگ برساتے صحرائوں سے کیسے گزرتے ہوں گے جب جسم و روح چھلنی ہو تے ہو ں گے تو اُن کے زخم کس تصور سے مند مل ہو تے ہو نگے اور مجھے اُن کی بد قسمتی پر رونا آیا کہ کس حال میں ہو نگے وہ جن کے پاس سرور کا ئنا ت محمد ۖ ہی نہیں اُن کے دلوں میں نا امیدی اور بے یقینی کی آگ بھڑکتی ہو گی تو کس کا تصور اس آگ پر موسلا دھار بارش بن کر برستا ہو گا ‘ مایوسی بے کسی اور دکھ کی گھڑی میں کس کا تصور اُن کے آنسو پو نچھتا ہو گا کس کا خیال ما یوسی کی سیا ہ رات میں امید کی کرن بن کر چمکتا ہو گا حوصلہ دینا ہو گا ہا ئے کتنے بدقسمت ہیں۔
وہ لو گ جن کی زندگی ویران بے رنگ ما یو سی سے بھر پو راُ ن کی زندگی جا نوروں سے بھی بد تر ہو تی ہو گی کہ اُن کے پاس نہ مدینہ نہ محمد ۖ نہ خاک مدینہ نہ تصور مدینہ نہ مدینہ کی خو شبو’ میں رشک و مسرت سے عاشقان ِ رسول ۖ کو دیکھ رہا تھا مدینہ منورہ خالق ِ کا ئنات کے گلستان کا سب سے خوبصورت سدا بہار پھول جس کا حسن رعنائی تا ریکی سب سے منفرد اور خوشبو ایسی کہ آپ کی روح کے عمیق ترین گو شوں کو معطر کر دے ۔ مسجد نبوی ۖ کی فضا ئوں میں پھیلی درور و سلا م کی مشکبو گو نج کیف و سرور کی لذتیں بکھیر رہی تھی پو ری دنیا سے آئے ہو ئے عاشقان ِ رسول ۖ کی صدائوں سے مسجد نبوی ۖ کا کو نہ کو نہ گو نج رہا تھا عاشقوں کے چہروں پر عشقِ رسول ۖ کی آنچ کے قوس ِ قزح کے رنگ چمک رہے تھے مدینہ کی ہواوئوں میں ایسا سحر ہے کہ دنیا کے کسی بھی گو شے سے آنے والا انسان اپنے جذبات و احساسات پر قابو نہیں رکھ سکتا۔
مکہ مکرمہ کے پر جلال سحر سے نکل کر شہر مدینہ مسجد نبوی ۖ کے احا طہ جمال میں آتے ہیں قلب ونظر لذت سر شاری اور ایما نی حلا وٹ کے اُس جذبے سے ہمکنار ہو جا تے ہیں کہ لفظوں میں بیان کر نا مشکل ہے اِس کیفیت سر شاری لذت حلا وت مستی کا اندازہ وہی کر سکتا ہے جو سالوں لمبے دن اورسیا ہ راتیں اِس کو چہ جا ناں تک پہنچنے کی آرزو میں سلگتا رہا ہو جس کی زندگی کا ہر لمحہ حضو ری و حا ضری کی تمنا میں کشکول بن کر بہکتا رہا ہو جو دن رات ایک ہی دعا اور خو اہش لیے جیتا رہا ہو جس کی پہلی اور آخری خواہش ہی یہی ہو جو اپنی ساری متا ع حیات اِس خوا ہش کے لیے لٹا تا رہا ہو جس نے سار ی زندگی پیسہ پیسہ اکٹھا کر تے گذاری ہو جس کی دعائوں میں صرف ایک ہی دعا رہی ہو کہ مر نے سے پہلے گنبد خضری کے عکس منور سے اپنی آنکھوں کی صدیوں کی پیاس کو بجھا ئے۔
زندگی کے نو کیلے پتھروں پر ننگے پا ئوں چلنے والا زندگی کی آگ برساتی مصیبتوں کو جھلسنے والا زندگی بھر جلتے بلتے صحرائوں میں ننگے پا ئوں چلنے والا جیسے ہی شہر مدینہ کی گلیوں میں آتا ہے شہر مدینہ کی خاک کو چھو نے کا مو قع ملتا ہے مدینہ کی مشکبو ہوا وئوں میں سانس لینے کا مو قع ملتا ہے تو ایک دم خو شگوار حیرت کا احساس ہو تا ہے جیسے کہ سر سبز ٹھنڈے نخلستان میں آگیا ہو با دِ بہاراں کے چلنے کا احساس ہو جیسے ہر ی بھری نر م گداز مخملی گھاس اُس کے قدموں تلے بچھی جا رہی ہو ذکر اذکار عبا دت نوافل درود و سلام کی صحرائوں نے فضا ئوں میں ایک ممتا بھری آسودگی بھر دی ہو’ اپنا ئیت بھر دی ہو دنیا کے کسی بھی شہر میں آپ گھر چھو ڑ کر جائیں تو آپ کو اجنبیت کا گہرا احساس ہو تا ہے گھر سے دوری کا احساس ہو تا ہے۔
گھر جانے کی جلدی ہو تی ہے لیکن یہ کیسا شہر ہے کیسی ہوا ئیں ہیں کیسی فضا ئیں ہیں کیسے درو دیوار کیسی گلیاں ہیں جہاں ہمہ وقت ممتا بھر ی آسودگی چاروں طرف رچی بسی نظر آتی ہے جہاں ایک معطرسی پھوار ہر وقت گر تی اور دل و دماغ کی ویران اُجڑی کھیتوں کو شاداب کر تی چلی جا تی ہے ساری عمر مدینہ کو گنبد خضری کو ایک نظر دیکھنے کی آس میں جا گتی آنکھوں کو قرار آجا تا ہے جہاں ایک لمحے میں انسان زندگی کے سارے غم بھول جا تا ہے جہاں آقا کی محبت کی پھوار زخمی روحوں کو لمحوں میں تندرستی جیسی نعمت سے ہمکنار کر دیتی ہے فضائوں میں رچی بسی ممتا کی آسودگی جیسے کو ئی سر پر شفقت بھرا ہا تھ پھیر رہا ہو میٹھی لو ری دے رہا ہو۔
جیسے کو ئی سالوں پرانے زخموں پر مسیحائی کا مر ہم رکھ رہا ہو جیسے مرض الموت میں مبتلا مریض کو زندگی کی سانسیں واپس کر دی گئیں ہوں جیسے شکستہ دل مسافر کو گر تے گرتے کسی نے اپنی ممتا بھری آغوش میں چھپا لیا ہو کانوں میں میٹھی سر گو شیاں جیسے کو ئی کہہ رہا ہو تم اتنی دیر سے کیوں آئے ہو میں تو تمھارے انتظار میں تھا آئو میرے پاس میں تو صرف تمھارا ہوں جیسے اُجڑے گلستان میں بہار آجائے جیسے بیمار کو حقیقی قرار آجائے۔
تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل: help@noorekhuda.org
فون: 03004352956