تحریر: محمد اشفاق راجہ
امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر جان مکین نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان کامیاب جبکہ امریکی پالیسیاں ناکام رہیں، وہاں کے حالات کی ذمہ داری پاکستان یا اشرف غنی پر نہیں بلکہ ناکام لیڈر’ صدر بارک اوباما اس کے ذمہ دارہیں، پاکستان سے تعلقات بہتر بنائے جانے چاہئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات بنیادی طور پر بہت اہمیت کے حامل ہیں، نہ صرف ہماری دوستی کے لیے بلکہ نیشنل سکیورٹی کے معاملات کے حوالے سے بھی۔ صدر اوباما کو چاہیے کہ وہ مکین کے اس اظہار خیال کو اپنے لیے چیلنج سمجھتے ہوئے اپنی اس پالیسی میں زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے تبدیلیاں لائیں تاکہ اس کی وجہ سے جو گڑبڑ ہو رہی ہے اور جو خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں، ان کو دور کیا جا سکے اور دہشت گردی کے خلاف مہم کو کامیابی سے ہمکنار کیا جا سکے۔
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں زیر تربیت پولیس اہلکاروں کی بسوں پر جمعرات کے روز دو خودکش حملوں کے نتیجے میں 40 اہلکار ہلاک جبکہ 60 سے زائد زخمی ہو گئے۔ کیڈٹس صوبہ وردک میں ایک تقریب میں شرکت کے بعد کابل واپس ا?رہے تھے۔ طالبان نے واقعہ کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے 150 افراد کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔ مشرقی افغانستان میں افغان اور امریکی فورسز نے مشترکہ فضائی و زمینی کارروائی میں 73 طالبان کو ہلاک اور طالبان کے خود کش حملوں کے شعبہ کے سربراہ کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان ہر طرح کی دہشت گردی کی سخت مذمت کے اپنے موقف کا اعادہ کرتا ہے’ اور پاکستانی عوام غم کی اس گھڑی میں افغان بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔ یہ حملے اس امر کا ثبوت ہیں کہ افغانستان میں کچھ بھی ٹھیک نہیں۔ نہ صرف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی پندرہ سالہ جنگ لاحاصل رہی’ بلکہ اوباما انتظامیہ اور افغان حکومت وہاں پائیدار امن قائم کرنے اور استحکام لانے کے سلسلے میں اب جو حکمت عملی اپنائے ہوئے ہیں’ وہ بھی کارگر ثابت نہیں ہو رہی۔
افغان طالبان جب چاہتے ہیں امریکی حکومت اور فورسز کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ان کا تقاضا ہے کہ غیر ملکی فورسز ان کی سرزمین کو چھوڑ دیں’ اپنے ملک کو واپس چلی جائیں، لیکن ان کا یہ مطالبہ جزوی طور پر ہی پورا کیا جا سکا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں امریکی فوجی اب بھی افغانستان میں موجود ہیں۔ اس کے باوجود پچھلے سال افغان طالبان افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھے تو ان کے سربراہ ملا عمر کی وفات کی خبر بریک کرا دی گئی۔ گزشتہ چھ سات ماہ سے افغانستان میں امن کے قیام کی نئی کوششیں کی جا رہی تھیں، لیکن چند ہفتے قبل امریکہ نے افغان طالبان کے نئے سربراہ ملا منصور کواس وقت ڈرون حملے کا نشانہ بنایا’ جب وہ بلوچستان کے کسی علاقے میں خفیہ طور پر سفر کر رہا تھا۔
ظاہر ہے کہ اس کے بعد افغان طالبان کے افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے رہے سہے امکانات بھی ختم ہو گئے اور بعید از قیاس نہیں کہ کابل میں افغان طالبان کی جانب سے تازہ خود کش حملے ملا منصور کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے کیے گئے ہوں۔ پاکستان کی جانب سے ان دھماکوں کی مذمت کی گئی ہے۔ اس کے باوجود خدشہ ہے کہ افغان حکومت اور اوباما انتظامیہ ان حملوں پر بھی ہمیشہ کی طرح پاکستان کو ہی مطعون کریں گی۔
اگر افغان طالبان کے ساتھ کسی معاہدے کا اہتمام نہیں ہوتا اور اوباما اور اشرف غنی افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کے لئے کوششیں نہیں کرتے تو ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ ہوتا رہے گا۔ امریکہ کا یہ موقف کیسے درست اور صائب ہو سکتا ہے کہ امریکی فوج جو حملے کرے وہ جائز ہیں اور طالبان جو حملے کریں وہ درست نہیں؟ جب آپ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات نہیں کریں گے’ اور انہیں مذاکرات کی میز پر نہیں لائیں گئے ظاہر ہے کہ یہی افغان طالبان اپنی بات منوانے کے لئے لڑیں گے۔
امریکہ کو چودہ، پندرہ سال گزرنے کے باوجود اگر یہ بات سمجھ نہیں آئی تو کون سمجھا سکتا ہے؟ افغان صدر اشرف غنی تو افغان اور پشتون ہیں، انہیں تو افغانوںکی نفسیات کا علم ہونا چاہیے۔ کسی بے گناہ کا مارا جانا یقینا افسوسناک ہے، اس کی مذمت ہونی چاہیے، لیکن زمینی حقائق کا ادراک بھی تو کیا جانا چاہیے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ امریکہ ایک طرف افغان طالبان کے افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات پر زور دیتا رہے’ دوسری جانب طالبان کو اپنی بندوقوں اور توپوں کا نشانہ بناتا رہے’ اور یہ توقع بھی رکھے کہ طالبان کی جانب سے اس کا ردعمل ظاہر نہ ہو۔ اب تو امریکہ کے اندر سے بھی اوباما کی افغانستان پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
تحریر: محمد اشفاق راجہ