یہ 2413 برس پہلے کا واقعہ ہے۔ 399قبل مسیح یونان کے قدیم شہر ایتھنز کے ایک عقوبت خانے میں قید ایک 71 سالہ بوڑھے شخص کو یہ کہہ کر زہر کا پیالہ ہاتھ میں تھمایا جاتا ہے کہ عدالت کے فیصلے کے مطابق اس کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا جارہا ہے۔ وہ بوڑھا خود اپنے ہاتھوں سے نہ صرف زہر پی لیتا ہے بلکہ عدالت کے حکم کے مطابق زہر پینے کے بعد بھی وہ سوتا نہیں ہے اور کال کوٹھڑی میں اس وقت تک چلتا رہتا ہے ‘ جب تک اس کی ٹانگیں اس کا ساتھ نہیں چھوڑ دیتی ہیں۔ بالآخر وہ زمین پر گرتا ہے۔ جلاد اس کا جسم سیدھا کرتا ہے اور اس کے ہاتھ پاؤں مضبوطی سے پکڑ کر اس پر بیٹھ جاتا ہے تاکہ وہ تڑپ نہ سکے۔اس کا ایک دولت مند دوست ’’ کرائٹو ‘‘ ساتھ کھڑا یہ منظر خاموشی سے دیکھ رہا ہوتا ہے کیونکہ اس بوڑھے شخص نے اسے پہلے ہی کسی قسم کی مداخلت سے روک دیا تھا۔ مرتے وقت وہ بوڑھا شخص کرائٹو سے آخری بات کرتا ہے کہ ’’ ہم نے شفاء دینے والے دیوتا پر ایک مرغے کی قربانی دی تھی۔ اس کا قرضہ ادا کرنا نہیں بھولیے گا۔ ‘‘ یہ بات کہہ کر وہ بوڑھا ابدی نیند سو جاتا ہے اور اسی لمحے وہ ریاست اور شہریوں کے درمیان ’’ سماجی معاہدے ‘‘ کے تحفظ کے لیے عظیم قربانی دینے والوں کا ایک تاریخی استعارہ بن جاتا ہے۔ یہ بوڑھا شخص یونان کا عظیم فلسفی سقراط تھا۔ سقراط کو علم استدلال کا بانی اور کائنات میں و یلکٹلزم کے فلسفہ کا موجد خیال کیا جاتا ہے ۔سقراط ۴۶۹ قبل مسیح میں ایتھنز کے محلہ ایلو پیک میں ایک سنگتراش سو فرونکس (sophroniscus)نامی (sophroniscus) شخص کے گھرپیدا ہوا ۔ایک دوسرے حوالے کے مطابق وہ ملک یونان کے صوبہ ایٹکا کے قریب واقع ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوا تھا ۔سقراط کی والدہ کا نام فنار یٹی تھا جو دائی تھی ۔والدین نے اپنے بیٹے کو علم ہندسہ ‘فلک یات‘موسیقی اور پہلوانی کی تعلیم دلوائی نیز آبائی پیشہ سنگتراشی میں بھی مشق بہم پہنچائی ۔فلسفہ کی تعلیم سقراط نے اپنے شوق کے باعث حا صل کی
سقراط ابھی تیس سال کی عمر کے لگ بھگ تھا جب اس نے ایک دانش گاہ قائم کی ۔جس میں وہ لوگوں سے ملاقاتیں کرتا اور خود کو مصروف رکھتا ۔ اس مصروفیت کی وجہ سے وہ بہت کم باہر نکلتا ۔لوگ خود چل کر اُس کے پاس آتے‘سوالات پوچھتے ‘جوابات پاتے اور یوں تبادلہ خیالات سے علم میں اضافہ کرتے ۔ اس کی پہلی شادی جوانی میں ہی میر ٹو (Myrto)نامی خاتون کے ساتھ ہوئی تھی مگر جلد ہی وہ پلیگ کے مرض کا شکار ہو کر اس دنیا سے رخصت ہوگئی ۔ اس کی موت کے بعد سقراط نے ایک لمبے عرصے تک شادی نہیں کی اور جب عمرِعزیز پچاس برس ہوئی تو دوسری شادی ایتھنزکی ایک مشہور خاتون زینی تھپی (Xanthippe)سے ہوئی ۔ اس شادی کی روداد بڑی دلچسپ ہے ۔ سقراط سے اُس کے شاگردوں اور دوستوں نے ایک بار شادی کے بارے میں جب پوچھا تو اُس نے کہا۔سقراط! دنیائے فلسفہ کا سب سے عظیم اور جلیل المرتبت معلم ہے‘ جس نے پانچویں صدی قبل مسیح میں یونان میں مغربی فلسفہ کی بنیاد رکھی۔ میں یونان کے معروف شہر ایتھنز میں پیدا ہوا۔ اس کی ابتدائی زندگی کے بارے میں تحریری شواہد ناپید ہیں۔ تاہم افلاطون اور مابعد فلاسفہ کے حوالے بتاتے ہیں کہ وہ ایک مجسمہ ساز تھا‘ جس نے حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہوکر کئی یونانی جنگوں میں حصہ لیا اور دادِ شجاعت دی۔ تاہم اپنے علمی مساعی کی بدولت اْسے گھر بار اور خاندان سے تعلق نہ تھا۔احباب میں اس کی حیثیت ایک اخلاقی و روحانی بزرگ کی سی تھی۔ فطرتاً سقراط‘ نہایت اعلیٰ اخلاقی اوصاف کا حامل‘ حق پرست اور منصف مزاج استاد تھا۔ اپنی اسی حق پرستانہ فطرت اور مسلسل غور و فکر کے باعث اخیر عمر میں اس نے دیوتاؤں کے حقیقی وجود سے انکار کردیا‘ جس کی پاداش میں جمہوریہ ایتھنز کی عدالت نے 399 قبل مسیح میں اسے موت کی سزا سنائی ‘ اور سقراط نے حق کی خاطر زہر کا پیالہ پی لیا۔’ہرایک
انسان کا فرض ہے کہ وہ ضروری شادی کرے اور اولاد بھی پیدا کرے ۔کیونکہ قانونِ قدرت کی پابندی اس میں ہے مگر میں ایسی عورت سے شادی کرنے کا خواہاں ہوں جو نہایت سخت ‘بدمزاج‘ضدی اور شریر ہو تا کہ دنیا میں ایک نمونہ قائم کروں کہ اچھے‘متحمل انسان ہر قسم کی سخت طبیعت عورت کو بھی رام کر لیتے ہیں ‘‘۔چناچہ اُسی دن سے اُس کے رفیق اور طلباء ایسی عورت کوتلاش کرنے لگے ۔خود سقراط نے ایسی ہی عورت کے لئے یونان میں ایک اشتہار دیا چنانچہ کچھ عرصے بعد ایک چھوٹے سے قصبہ کا ایک دولت مند زمیندار سقراط کے پاس آیا اور اس سے کہنے لگا کہ ’’میری ایک ہی لڑکی ہے ۔میں نے اس کو نہایت ہی ناز و نعم اور لاڈ سے پالا ہے مگر وہ طفولیت ہی سے ایسی سرکش ‘تند مزاج اور لڑاکا ہوگئی کہ ہر بات میں الٹا ہی چلتی ہے اور بہت ہی بد زبان ہے ۔‘‘سقراط نے اس شرط پر شادی کرنے کی آمادگی کا اظہار کیا کہ آپ ہمیں ایک پیسہ تک نہ دیں گے ۔لڑکی کی عمر بھی ۳۵سال ہوچکی تھی اور یونان میں کوئی شخص اس سے شادی کیلئے تیار نہیں تھا۔لیکن ان تمام باتوں کے باوجود وہ باہمت خاتون تھی ۔سقراط اپنی بیوی کی سخت مزاجی کے بارے میں کہتا تھا ’’اس کی ہر قسم کی واہی تباہی سے میرے اندر ضبط کی قوت پیدا ہوتی ہے ۔اُس کی لعنت ملامت سے میں اپنے ظرف کا امتحان لیتا ہوں۔ میں دیکھتا ہوں کہ کیا اس کی کسی کڑوی بات سے مجھے غصہ تو نہیں آتا ۔ اُس کے لڑنے اور جھگڑنے سے میں اپنے حوصلہ کو دیکھتا ہوں ۔ وہ چنگاری سے شعلہ بن جاتی ہے اور میں برف کا ڈلا بنا رہتا ہوں ۔ بال آخر وہ خون کے دباؤ کے بڑھ جانے سے بے ہو ش ہو جاتی ہے ۔میں اس کو پانی پلا کر ہوش میں لاتا ہوں تو وہ میری بے حد ممنون ہوتی ہے اور مجھ سے معذرت کرنے لگتی ہے۔ زینی میرا علاج ہے ۔وہ میرے لئے ایک رحمت ہے ۔وہ مجھ میں علم کا غرور پیدا نہیں ہونے دیتی ۔ وہ مجھے زمین پر رکھتی ہے ۔وہ مجھے احساس دلا دیتی ہے کہ سقراط ایک عام انسان ہے وہ مجھے میری اوقات میں رکھتی ہے ‘‘۔ زینی تھپی کے بطن سے سقراط کے تین بیٹے ہوئے ۔ سقراط کی وفات کے وقت بڑا بیٹا جوان تھا اور چھوٹا بہت چھوٹا تھا ۔فوجی خدمات کے زمانے میں صرف یہی نہیں کہ سقراط نے بہادری کے جوہر دکھائے بلکہ وہ موسم کی خرابی اور تکان کی بھی بالکل پروا ہ نہ کرتا تھا اُس نے ایک سپاہی کی حیثیت سے بہت بڑا نام کمایا ۔ اُسے اوائل عمری میں ہی با قتضائے آئینِ ملکی فوج میں بھرتی ہونا پڑا۔۔۔لڑائی سے فراغت کے بعد اس نے اپنی وضع قطع تبدیل کر لی ۔کھانے پہننے اور طبیعت میں سادگی آگئی اس قدر کہ بعد میں جنگ کے میدان میں بھی وہ کندھے پر گدڑی اٹھا ئے ننگے پاؤں رہتا ۔۔۔وہ فلسفیانہ باتیں کرنے لگا تھا۔ ہم وطنوں کو پابندی مذہب کی تاکید کرتا ۔ رفتہ رفتہ حکیموں کی ایک کثیر جماعت اس کے خیالات سے فائدہ اٹھانے لگی ۔پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ جاری ہوا۔اُس کے سوالات و جوابات کی پہلی تحریر اس کے ایک دوست سائمن کی ہے ۔ سائمن پیشے کے لحاظ سے موچی تھا ۔ سقراط اس کی دکان پر بیٹھا کرتا تھا لوگ وہاں آتے اور سقراط سے سوال کرتے ‘وہ جواب دیتا ۔ سائمن چونکہ پڑھا لکھا تھا وہ اس ساری گفتگو کو لفظ بالفظ لکھ لیا کرتا تھا ۔ شاید سائمن کی دکان پر بیٹھنے کی وجہ سے ہی کئی محققین نے سقراط کو موچی لکھا ہے‘جو صحیح نہیں ۔ سقرا ط آزادی فکر اور آزادی رائے کا علمبردار تھا مگر وہ جمہوری طرزِ حکومت کے چند ایک اصولوں سے سخت اختلاف رکھتا تھا ۔ جس کی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ جمہوری حکومت کے کچھ لیڈروں نے مذہبی پیشواؤں کے ساتھ مل کر سقراط کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کروا یا تھا ۔قبل
مسیح میں ایتھنز کے حکام نے سقراط کے خلاف یہ الزام لگائے کہ وہ پرانے دیوتاؤں کی پرواہ نہیں کرتا ۔ نئے دیوتاؤں کا تعارف کر وا رہا ہے ۔۔۔
نوجوانوں کے اخلاق خراب کر رہا ہے۔۔۔نوجوانوں کو حکومت کے خلاف بغاوت پر اُکسا رہا ہے ۔مذہب میں اختر اعات پیدا کر رہاہے‘ وغیرہ وغیرہ
لیکن جب عدالت لگائی گئی تو سقراط نے اپنا مقدمہ خود لڑا اور تمام مخالفین کی زبانیں بند کر دیں۔ سقراط نے اپنی صفائی میں بہت کچھ کہا ۔۔۔دلائل پیش کئے لیکن معذرت کی نہ زندگی کی بھیک مانگی ۔عدالت میں اُس کی بات چیت ہماری تاریخ کا حصہ ہے ۔یہ گفتگو بڑی پُر مغز ‘ فلسفیانہ اور اخلاقیات کے حوالے سے اپنی مثال آپ ہے ۔اس سے ہم اسکی انصاف پسندی‘ جر أت‘انا‘سچائی اور ثابت قدمی کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔سقراط کو علم ہو گیا تھا کہ شاید حکومت کے ایماء پر عدالت یہ فیصلہ دے دے کہ ’’اس مجرم کو ملک بد ر کر دیا جائے ۔‘‘لہٰذااس نے فیصلہ سے قبل ہی اپنا فیصلہ سُنا دیا اور وہاں موجود افراد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:’’ میں اگر موت کے خوف سے جلاوطنی قبول کر لوں تو ثابت ہو گا کہ میں زندہ رہنے کی خواہش میں اندھا ہو چکا ہوں۔ہر گز نہیں۔۔۔میں ایتھنز چھوڑ کر ہرگز نہیں جاؤں گا ۔میں صداقت کی موت مر کر ایتھنز میں دفن ہونا زیادہ پسند کروں گا ۔‘‘سقراط نے اپنا فیصلہ سُنا دیا تو اُسے فوری طور پر جیل میں ڈال دینے کا حکم صادر کر دیا گیا اور ساتھ ہی اُس کی موت کا فیصلہ بھی ‘ اس تجویز کے ساتھ کہ اسے زہر کا پیالہ پلایا جائے ۔ سقراط نے اپنی زندگی کا آخری دن دوستوں سے باتیں کرنے میں گزار ا ۔اسے جیل سے بھگالے جانے کا منصوبہ بھی بنایا گیا جو کامیاب بھی ہو سکتاتھا لیکن اس نے ایتھنز میں ہی مر نے کو تر جیح دی۔۔۔آخرکار شام کے وقت سقراط جیل کے دار وغہ کو آواز دیتا ہے کہ ’’لاؤ زہر کا پیالہ‘ہم اپنا وصال چاہتے ہیں ‘‘۔داروغہ جیل زہر کا پیالہ لاتا ہے ۔سقراط ہاتھ میں لے کر اُسے زمین پر رکھتے ہوئے داروغہ سے پوچھتا ہے :’’کیا اس مشروبِ اجل کے چند قطروں کو زمین پرگرا کر خدا کی نذر کیا جا سکتا ہے ؟‘‘داروغہ جیل جواب دیتا ہے؟’’ہم اس پیالے میں اتنا ہی زہر لاتے ہیں جتنا ایک انسان کو ختم کرنے کیلئے در کار ہوتا ہے ۔ سقراط دعا مانگنے کے بعد پیالہ اٹھا کر منہ سے لگا لیتا ہے اور خالی کر کے زمین پر رکھ دیتا ہے ۔ پھر موت کی کوٹھڑی میں ٹہلنے لگتا ہے تا کہ زہر کا اثر جسم میں پھیل جائے ۔سقراط کا ایک شاگرد آپا لوڈ ورس چیخ اٹھتا ہے ۔اُسے اور سقراط کی بیوی زینی تھپی کو باہر نکال دیا جاتاہے ۔ سقراط اپنے دوست کرائٹو سے کہتا ہے:’’میں نے ایکلو یس (شفاء کا دیوتا)کا ایک مرغ کاادھار دینا ہے‘ وہ دے دینا ۔‘‘اور پھر۳۹۹ قبل مسیح میں ابدی نیند سو جاتا ہے ۔ سقراط کے خونِ ناحق سے اہل ایتھنز کو بعد میں سخت پشیمانی ہوئی اور اس کے دشمنوں کو نہایت ذلت کے ساتھ اپنی بے وقوفی اور عداوت کے خمیاز ے بھگتنے پڑے۔’’موت انسان کو دی گئی نعمتوں میں سے بڑی نعمت ہے‘