تحریر : زاہد محمود
رات کو گھر واپس جات ہوئے ااس نے مجھے رکنے کے لئے اشارہ کیا میں رکا کہنے لگا بھیا میں نے بھی اسی طرف جانا ہے اگر مجھے بھی لے جائیں میں چونکہ اسے اس علاقے میں گھومتے پھرتے اور کام کرتے ہوئے دیکھ چکا تھا لہذا ایک لمحہ کے توقف کے بغیر اسے اپنے ساتھ بٹھایا اور اپنی منزل مقصود کی جانب روانہ ہو گیا رستے میں اس سے بات چیت ہوئی میں نے پوچھا کہ کہاں سے آرہے ہو اس وقت کہنے لگا جناب میں شہر میں چلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ پہ کنڈکٹری کرتا ہوں 400 روپے دیہاڑی ملتی ہے تو اس وقت کام سے واپس آرہا ہوں میں نے اس سے پوچھا تو پیدل کیوں جارہے ہو یہاں سے تمہیں گاڑی مل جانی تھی کہنے لگا شرم آتی ہے بات کرتے ہوئے لیکن آپ نے پوچھا تو بتائے دیتا ہوں گویا ہو میرے پاس صبح 300 روپے تھے جب میں گھر سے نکلا تھا تو میرے والد صاحب کی وفات آج سے ایک سال پہلے ہو چکی ہے اس کے بعد گھر کی ساری ذمہ داری میرے کندھوں پہ ہے میرے گھر میں میری والدہ میری تین ہمشیرہ ہیں جن میں سے دو معذور ہیں گھر کا سارا خرچہ ان ہی 400 روپے میں پورا کرنا ہوتا ہے۔
ویسے مجھے گاڑی میرے گھر کے پاس اتار دیتی ہے لیکن آج گاڑی خراب ہوگئی اور میرے پاس جو پیسے تھے وہ بھی اور ڈرائیور کے پاس بھی جو تھے وہ ہم نے گاڑی پر لگا دیے مالک آیا لیکن اس نے ڈرائیور کو کہا یار میں نے کسی پارٹی میں جانا ہے تو مجھے وہاں تک اتار دو گاڑی کے مالک نے رستے میں کسی سے شراب کی بوتل لی 800 روپے کی اور مجھے رستے میں اتارا اور کہاکہ یہاں سے تم گھر کو چلے جاؤ میں نے کہا کہ مجھے آج کی دیہاڑی دے دو اور میری جیب سے بھی 300 روپے لگے ہیںوہ بھی دے دو اس نے کہا یار کل دے دونگا ابھی پارٹی میں جا رہا ہوں یہ کہنا تھا اور گاڑی چل پڑی میرے پاس گھر واپس آنے کے پیسے نہیں تھے تو 3 کلومیٹر پیدل چلتے ہوئے آرہا ہوں خود دار ہوں آپ سے بھی لفٹ نہ لیتا لیکن گھر سے فون آیا ہے والدہ کی طبیعت خراب ہے تو ان کو لے کر ڈاکٹر کے پاس جانا ہے میں نے پوچھا ڈاکٹر کے پاس جانے کے لئے تو پیسے چاہئے کہنے لگا کہ ڈاکٹر جانتا ہے اس سے کہ دونگا کہ کچھ دنوں تک دے دونگا ابھی فوری طور پر پیسے پاس نہیں ہیں تو وہ ادھار کر دیگا میں نے اس سے پوچھا کہ اگر ڈاکٹر نے دوائی باہر سے لکھ کر دے دی تو پھر کیا کروگے کہنے لگا چھوٹی بہن کے پاس عیدی کے پیسے پڑے ہوئے ہیں وہ لے لونگا میں نے کہا کسی قسم کی مدد کر سکوں آپکی کہنے لگا صاحب روزگار کے حوالے سے اگر کچھ کر سکو تو مہربانی ہوگی میں نے پوچھا مطلب کہنے لگا مجھے ایک کام کا تجربہ ہے اگر 50000 روپے ہو جائیں تو میں خود بھی کماؤں گا اور جو یہ سرمایہ کرے گا اسے بھی کما کر دونگا میں نے پوچھا اتنی چھوٹی سی رقم سے کیا کام کروگے اس نے ایک تفصیلی لائحہ عمل میرے سامنے رکھ دیا میں سن کر داد یے بغیر نہ رہ سکا اور سوچنے کے لئے وقت مانگا اپنا نمبر دیا اسکا لیا اور اسے گھر کے باہر اتار دیا اور واپس گھر کی طرف چل دیا۔
گھر پہنچنے تک میں اس کم پڑھے لکھے نوجوان سے بہت کچھ سیکھ چکا ہوں اور اس نوجوان نے میرے سامنے اور آپ کے سامنے کچھ سوال بھی کھڑے کر دئے ہیں جن کا ذکر کرنا میں ضروری سمجھتا ہوں سب سے پہلے تو مجھے اس نوجوان کی خودداری بہت اچھی لگی اور میں سوچتا ہوں کہ ایسے خوددار نوجوان ہمارے معاشرے میں ہیں لیکن ہمارا معاشرہ اور ریاست انکے لئے کوئی راستہ نہیں نکال پارہی جسکی وجہ سے وہ نہ صرف خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہوجائیں بلکہ اور بھی بہت سارے لوگوں کے لئے مثال بن جائیں آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے ہاں ٹیلنٹ موجود ہونے کے باوجود بھی ہم اس ٹیلنٹ کو پالش نہیں کر سکتے۔
دوسرا سوال جو اس نوجوان کی باتیں سن کر میرے ذہن میں آیا کہ محترم میاں نواز شریف صاحب نے حکومت میں آنے سے پہلے ایک وعدہ کیا تھا کہ میں نوجوانوں کو بلا سود قرضے دونگا اور حکومت میں آنے کے بعد انھوں نے اپنی بیٹی محترمہ مریم نواز صاحبہ کی سربراہی میں ایک سکیم بھی شروع کی تھی 100 ارب روپے سے لیکن اس سکیم سے اس جیسے نوجوان کی حوصلہ افزائی بھی نہیں ہوئی اور نہ ہی یہ نوجوان اس سکیم سے فائدہ اٹھا سکا آخر کیا وجہ ہے اس سکیم کا پیسہ اس جیسا حقدار نوجوان تک نہیں پہنچ سکا جبکہ سرکاری ٹی وی چینل پر لوگوں کو زکٰوة کے پیسے دینے کے لئے بار باریہ باور کروایا جاتا ہے کہ حق حقدار تک تو خو د اس پالیسی پر عملدرآمد کیوں نہیں۔
تیسرا سوال جو میرے ذہن میں آتا ہے وہ یہ کہ یہ نوجوان 400 روپے دیہاڑی کا ملازم ہے جب کہ اس کی دیہاڑی کم از کم حکومتی اعلان کردہ آمدن کے مطابق 500 ہونی چاہئے لیکن کہاں ہیں وہ ادارے جو اس اعلان پر عملدرآمد کروائیں گے اور معاشرے کے اس طبقے کو جسکو ریاست کی سب سے زیادہ ضرورت ہے اسکا سہارا بنیں گے اور ریاست ہوگی ماں کے جیسی کا نعرہ عملی جامہ پہنے ہوئے ہمیں نظر آئے گا۔
ایک اور سوال جو میرے ذہن کو بار بار جھنجوڑ رہا ہے وہ یہ ہے کہ اگر یہ شخص جسکا اور کوئی کاروبار نہیں ہے اتنی قلیل آمدنی میں اپنا اور اپنی فیملی کا خرچ چلا رہا ہے اسکے باوجود بھی اپنی ماں کے علاج کے لئے اسے نجی کلینک میں جانا پڑتا ہے کیا وجہ ہے کہ اسے سرکاری ہسپتالوں پر اعتبار نہیں یا پھر سرکاری ہسپتال اسے وہ سہولت نہیں دے پارہے جو وہ اپنی والدہ کے لئے چاہتا ہے اگر تو سرکاری ہسپتالوں پر اسے اعتماد نہیں تو پھر قصور وار کون ہے اور اگر اسے سہولیات میسر نہیں تو پھر اسکا ذمہ دار کون ہے۔
اگلا سوال جو مجھے سکون سے بیٹھنے نہیں دے رہا کہ ایک مزدور جسکا اور کوئی کاروبار نہیں وہ اگر اتنے کم پیسوں میں گزارہ کر رہا ہے تو پھر ممبران اسمبلی کی تنخواہوں اور الاؤنسز میں اتنا اضافہ کس لئے جنکی اکثریت کروڑوں کی مالک ہے ؟ حالانکہ ان تمام اسمبلی ممبران کو عوام کی خدمت کے دعوے کو اصلی جامہ پہنانا چاہئے اور معاشرے کے اس طبقے کے لئے قانون سازی سے لے کر ذاتی مدد تک آگے آنا چاہئے تاکہ جمہوریت کے ثمرات لوگوں کو نظر آئیں اور معاشرے کا وہ طبقہ جو آج بھی ایک آمر کے دور کو یادکرتا ہے اسے پتہ چلے کہ واقعی میں جمہوریت میں طاقت کا سرچشمہ عوم ہوتے ہیں ایک مخصوص ٹولہ نہیں لیکن پھر سوچتا ہوں کہ مخصوص ٹولہ کب چاہے گا کہ جمہوریت کے ثمرات عوام تک پہنچیں کیونکہ جب ثمرات ملیں گے تو یہ باشعور ہوجائیں گے اور یہ اگر باشعور ہوگئے تو مخصوص ٹولہ اقتدار میں کیسے رہیگا ؟
اور ایک اور سوال جو بار بار مجھے غیرت مند بننے پہ مجبور کر رہا ہے وہ یہ کہ یہ نوجوان اپنی تین بہنوں کا اکلوتا وارث ہے اور وہ یہ نہیں چاہتا کہ انکی کمائی کھائے اور پھر ان کی کمائی سے اپنے آپ کو طاقت ور کرے اور پھر دولت اکٹھی کرنے کے بعد جب اسکا اٹھنا بیٹھنا معاشرے کے معزز لوگوں میں ہوجائے تو وہ معزز لوگ اسے غیرت ” کا بھولا ہوا سبق یاد کروائیں اور وہ جا کر اس قندیل کو بجھا دے جو اندھیرے میں اس کے لئے روشنی کی کرن بنی ہے مجھے تو وہ نوجوان ” بے غیرت ” لگا کیونکہ وہ خود بھی کسمپرسی کی زندگی گزارنے کے باوجود بھی مطمئن ہے اور اپنے خاندان کو بھی اس حالت میں دیکھ کر بھی وہ مطمئن ہی ہے۔
حالانکہ وہ اگر اپنی دو معذور بہنوں سے بھیک منگوانا شروع کر دے تو کم از کم 3000 کی دیہاڑی لگا سکتا ہے لیکن وہ یہ نہیں کرنا چاہتا وہ بہنوں کی کمائی نہیں کھانا چاہتا حالانکہ اسے معلوم ہونا چاہئے کہ جن کو اس کے ساتھ والے ووٹ دے کر منتخب کرتے ہیں وہ تو سب کو گروی رکھوا چکے ہیں اور انکے لئے پیسے مانگنا بری بات نہیں اور وہ چھوٹا کشکول توڑ کر اپنا کشکول بھی بڑا کر چکے ہیں اور وہ کشکول بڑا کرنے کے بعد بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ دیکھو جی ہماری قوم کے طرز زندگی میں بہتر ی آچکی ہے اور وہ دنیا کے ترقی یافتہ قوموں کی طرح میٹرو بس میں سفر کرتے ہیں۔
پڑھنے والوں اور چھاپنے کی اجازت دینے والوں کی خدمت میں ” انداز بیان گرچہ آتا نہیں مجھ کو شاید کہ تری دل میں اتر جائے مری بات ”
تحریر : زاہد محمود
0332 9515963