تحریر: شیخ توصیف حسین
گزشتہ روز میں اپنے ایک دوست کے بیٹے کی شادی کی تقریب میں پہنچا تو اسی دوران مجھے پیار و محبت اور عقیدت کے ملے جلے جذبات کے ساتھ ایک آواز سنائی دی کہ بھائی توصیف آپ ادھر ہمارے پاس آجائے یہ آ واز سن کر میں سوچوں کے سمندر میں ڈوب کر یہ سوچنے لگا کہ یہ آواز کسی ضمیر فروش بیوروکریٹس وغیرہ کی نہیں چونکہ میں تو ہمیشہ خداوندکریم اور آپ کے پیارے محبوب حضور اکرم جس کے نواسہ حضرت امام حسین علیہ السلام نے میدان کربلا میں نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ اپنے عزیز و اقارب کو قربان کر کے اسلام کا نام ہمیشہ ہمیشہ کیلئے زندہ کر دیا تھا کی خٰوشنودگی کی خاطر ضمیر فروش بیوروکریٹس وغیرہ کے کالے کرتوتوں کو بے نقاب کر کے انھیں اور ان کے ارباب و بااختیار کو آ ئینہ دکھاتا آیا ہوں چونکہ ان ضمیر فروش بیوروکریٹس وغیرہ کے سامنے حب الوطنی فرض شناسی اور حقوق العباد کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔
بس ان ضمیر فروشوں کی تو ایک ہی سوچ ہے کہ نہ باپ بڑا اور نہ بھیا سب سے بڑا روپیہ بس اسی لیے یہ ضمیر فروش بیوروکریٹس وغیرہ جو اپنے ذاتی مفاد کیلئے ملک و قوم کو تباہ جبکہ انسانیت کی تذلیل کھلے عام کر رہے ہیں مجھ سے نفرت کرتے ہیں لیکن مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں میں تو ان ضمیر فروشوں کے کالے کرتوتوں کو بے نقاب کر نا اپنی راہ نجات سمجھتا ہوں کوئی یقین کریں یا نہ کریں لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ان ضمیر فروشوں کی لوٹ مار کے نتیجہ میں عدل و انصاف اور انسانیت کا قتل عام ہو رہا ہے جس کی زد میں آ کر نجانے کتنے غریب گھرانوں کے چراغ گل ہو چکے ہیں جن کی یا د میں ان کے بوڑھے والدین خون کے آ نسو روتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں در حقیقت تو یہ ہے کہ یہ ضمیر فروش بیوروکریٹس آج وطن عزیز کے ہر ادارے میں ایسے پھیلے ہوئے ہیں جیسے امریکہ کے جنگلوں میں خونخوار جانور جن کی وجہ سے آج وطن عزیز تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن ہو نے کے بجائے بھکاری ملکوں کی صف میں آ کھڑا ہوا ہے جبکہ یہاں کی عوام بے روز گاری کا شکار ہو کر اپنے معصوم بچوں کے علاوہ اپنے گردے فروخت کر نے میں مصروف عمل ہیں اور اگر آپ حقیقت کے آ ئینے میں دیکھے تو آج ان ضمیر فروشوں کی لوٹ مار کے نتیجہ میں وطن عزیز کے تمام اضلاع کے ادارے تباہ حالی کا شکار ہو چکے ہیں یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا۔
ایک دفعہ ایک طوطا اپنی طوطی کے ہمراہ پرواز کرتا ہوا ایک ایسے شہر میں پہنچا جو تباہ حالی کا شکار ہو چکا تھا جس کو دیکھ کر طو طی نے طو طے سے پو چھا کہ یہ شہر تباہ حالی کا شکار کیسے ہوا ہو گا جس پر طوطے نے طوطی کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہاں پر کوئی اُلو رہتا ہو گا جس کی وجہ سے یہ شہر تباہ حالی کا شکار ہو کر رہ گیا ہے اچانک یہ باتیں وہاں سے گزرنے والے اُلو نے سن لیں جس پر اس اُلو نے بڑے پیارو محبت سے طو طے اور طو طی کو کھانے کی دعوت دے ڈالی طو طا اور طو طی کھا نے کی دعوت کے بعد جب جا نے لگے تو اُلو نے طو طے کو کہا کہ اب تم یہاں سے اکیلے جائو گے چونکہ آپ کی طو طی میری بیوی بن چکی ہے یہ سن کر طو طے اور اُلو میں تکرار شروع ہو گیا اس تکرار کی اطلاع جب شہر کے قاضی تک پہنچی تو اس نے طو طے اور اُلو کو طو طی سمیت دربار میں طلب کر لیا جبکہ اسی دوران اُلو نے قاضی شہر کے مشیر سے را بطہ کر کے اسے نذرانہ پیش کر دیا جسے لیکر قاضی شہر نے طو طے اور اُلو کی باتیں سنیں اور فیصلہ اُلو کے حق میں دے دیا۔
طوطا اس فیصلے کو سننے کے بعد حیران و پریشان ہو کر وہاں سے اکیلا جا نے لگا تو اُلو نے طو طے کو کہا کہ بھائی اکیلے جا نے کے بجائے اپنی بیوی طو طی کو اپنے ساتھ لے جائو یہ ڈرامہ تو میں نے محض آپ کو سمجھانے کیلئے کیا ہے کہ شہر اُلوئوں کی وجہ سے نہیں بلکہ ضمیر فروشوں قاضیوں کی وجہ سے تباہ حالی کا شکار ہو جاتے ہیں یہاں مجھے ایک اور واقعہ یاد آ گیا ہوا یوں کہ ایک دفعہ میری ملاقات سابق ایس پی ٹریفک پولیس اسلم خان نیازی سے ہوئی تو اس نے بتایا کہ جس ادارے میں خواہ وہ صوبائی ہو یا پھر وفاقی ظلم و ستم لوٹ مار اور ناانصا فیوں کی تاریخ رقم کی جا رہی ہو تو سمجھ لینا اس اداے کا سر براہ کرپشن کا بے تاج بادشاہ ہے چونکہ ادارے کے سر براہ کی اجا زت کے بغیر ایک پر ندہ بھی پر نہیں مار سکتا کلرک کی کیا جرات ہے کہ رشوت خوری کا بازار گرم کر لے لہذا اگر حکومت مخلص ہے کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے تو حکومت کو چاہیے کہ وہ مذکورہ ادارے کے کلر کوں کا احتساب کرنے کے بجائے ادارے کے سر براہ کا کچھ اس قدر احتساب کریں جو دوسرے راشی سر براہوں کیلئے عبرت کا نشان بن جائے لیکن افسوس کہ حکومت نجانے کس مصلحت کے تحت راشی سر براہوں جو ملک و قوم کے نام پر بد نما داغ ہیں کا احتساب کرنے میں قاصر ہے۔
جس کے نتیجہ میں آج ملک بھر میں قانون شکن عناصر لاقانونیت کا ننگا رقص کرنے میں مصروف عمل ہیں جبکہ مظلوم افراد عدل و انصاف سے محروم ہو کر بے بسی اور لا چارگی کی تصویر بن کر رہ گئے ہیں جو کہ ایک انتہائی افسوس ناک پہلو ہے میں اسی سوچ میں مبتلا تھا کہ اسی دوران مجھے وہی آ واز دو بارہ سنائی دی کہ بھائی توصیف کیا سوچ رہے ہو ہمارے پاس آ کر بیٹھ جائو یہ آ واز سننے کے بعد میں نے کچھ دیر تک اِدھر اُدھر دیکھا تو کچھ ہی فاصلے پر مجھے وہ شخص نظر آ گیا جس پر میں کچھ ہی دیر بعد اُس شخص کے پاس پہنچ کر سلام دعا کرنے کے بجائے ایک کر سی پر بیٹھ گیا کچھ دیر تک خا موش رہنے کے بعد بالآ خر وہ شخص مجھ سے مخا طب ہو کر کہنے لگا بھائی آج وطن عزیز میں ہر طرف ضمیر فروشوں کا بازار سجا ہے لیکن افسوس کہ ہمارے وطن عزیز کے سیاست دان نجانے کس مصلحت کے تحت خا موش تماشائی کا کردار ادا کرنے میں مصروف عمل ہیں وہ ان ضمیر فروشوں کا احتساب کیوں نہیں کرتے نصف صدی سے بھی زیادہ عرصہ گزر گیا ہے ان کی بے معنی بڑ ھکیں سنتے سنتے آ خر اس کی کیا وجہ ہے آپ اس بارے میں آ گاہ کر سکتے ہیں۔
کچھ دیر تک میں نے اس شخص کے چہرے کی طر ف دیکھا اور پھر اس سے مخا طب ہو کر کہنے لگا کہ بھائی کون کہتا ہے کہ ہمارے ملک کے عظیم سیاست دان احتساب نہیں کرتے کیا ہمارے ملک کے سیاست دان جن کو تم نے اپنے قیمتی ووٹ دیکر کامیاب کروایا ہے آپ کا احتساب نہیں کر رہے اپنی اسمبلی کی عظمت کا احتساب نہیں کر رہے کیا اس ملک کے ایماندار اور فرض شناس افسران کو کھڈے لائن لگا کر ان کا احتساب نہیں کر رہے کیا اس ملک کی غریب عوام جہنوں نے ان سیاست دانوں کو عزت بخشی ہے کے معصوم بچوں کو غیر مسلم ملکوں کا مقروض بنا کر احتساب نہیں کر رہے یہ اپنی مخا لف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ساتھ نورا کشی کر کے ملک و قوم کا احتساب نہیں کر رہے یہ سیاست دان آپ کا احتساب تو کرتے لیکن آپ کو شاید نظر نہیں آ تا بس اسی لیے آپ ہر پانچ سال کے بعد ان سیاست دانوں کی گاڑیوں کے آ گے پیچھے یہ نعرہ لگاتے ہوتے دوڑتے ہو کہ ہمارے ملک کے عظیم سے عظیم تر سیاست دانوں قدم بڑ ھائو ہم تمھارے ساتھ ہیں۔
تحریر: شیخ توصیف حسین