تحریر: شہزاد سلیم عباسی
آج دنیا بھر کے ساڑے سات ارب انسان” گلوبل ویلج ” کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ ” گوگل لنکس”کو کھنگالتے جائیں ہر اخبار ، ہر پاکستانی اور انٹرنیشنل میڈیا پر الطاف حسین کے حوالے سے کوئی نہ کوئی متنازعہ چیز ضرور آئیگی۔ 62 سالہ الطاف حسین وزیر اعظم نواز شریف سے چار سال چھوٹے ہیں اور پاکستان میں بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین کے تقریباََ ہم عصر ہیں۔ باقی تمام سیاسی جماعتون کے اکابرین بھی کوئی فرشتہ صفت یا ولی اللہ نہیں ہیں لیکن کم از کم الطاف حسین کی طرح بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں نہ ملک وقوم کو غداری کا درس۔
الطاف حسین صاحب کراچی آپریشن شروع ہونے پر جلسے میں کہتے ہیں کہ” پاک فوج کو سب اٹھ کر سلیوٹ پیش کرو اور پہل میں کرتا ہوں، کچھ عرصے بعد جب ایم کیوایم کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے ثبوت ملتے ہیں اور رینجرز نائن زیرو ( نو گو ایریا) پہنچتے ہیں تو الطاف حسین گویا ہوتے ہیں ” جس افسران نے میرے نائن زیرو گھر پر چھاپہ مارا بڑے دلیر کے بچے ہیں، وہ رینجرز کے افسر تھے اور تھے ہو گئے اور تھے ہو جائیں گے” الطاف حسین نے پولیس ، رینجرز، آئی ایس آئی اور پاک فوج کے خلاف کئی بار زبان درارزی کی ہے اور ملک وقوم توڑنے ، بیچنے ،جلانے اور ڈرانے کی بات کی ہے ۔” الطاف صاحب کہتے ہیں کہ پاک و ہند کی جغرافیائی تقسیم تاریخ کی سب سے بڑی غلطی تھی ” ،”پکارتے ہیں راء آجاؤ اور میری مدد کرو مجھے بچاؤ ، میں اپنی فوج سے نمٹ لوں گا اور پاکستان پر حملہ کرو وغیرہ”۔
ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کے دور میں زرداری کے کہنے پر اور اس سے پہلے جنرل مشرف کے طویل دور اقتدار میں پولیس اور رینجرز کے خلاف ایک لفظ نہیں کہتی تھی اور جہاں چاہا جسے چاہا جب چاہا اپنی سیاسی دشمنی کی بھینٹ چڑھا دیا۔کہتے ہیں کہ جن پولیس افسران نے نصیر اللہ بابر کے دور میں آپریشن میں حصہ لیا تھا وہ بڑوں بڑوں سے تعلقات کے باوجود ایم کیو ایم کے ظلم و جبر سے نہیں بچ سکے اور ایک ایک کر کے لسانی تعصب کی بھینٹ چڑھ گئے اور ایک آدھ دبنگ پولیس افسر خدا کی امان میں آج بھی حیات ہے ۔”الطاف حسین کی حالیہ ایک ویڈیو لیک ہوئی ہے جسمیں وہ کہتے ہیں کہ کاٹ ڈالوں گا ، مارڈالوں گا، ڈرل کرونگا “۔ یہ بات روز روشن کی طرح سب پرعیاں ہے کہ ایم کیو ایم میں تعصب ، گروپنگ، احساس کمتری اورجذبات بھڑکانے کا بیج کس نے بویا ؟جسکی سز اآج ہمارا ہر ادارہ، کراچی کے عوام ا ورکلی طور پر پاکستان بھگت رہا ہے اورکسی بھی طرح اپنے سافٹ امیج کو بحال کرنے کے لیے کراچی میں امن و امان کی صورتحال کو کسی قد ر تسلی بخش بنانے کی سعی و جتن میں سر جوڑے بیٹھا ہے۔
وسیم اختر پچھلے دنوں اشتعال انگیر تقریر پر جیل گئے تھے اور اپنی ضمانت کی کوشش میں تھے کہ 12 مئی والے واقعے پر دھر لیے گئے۔12 مئی 2007 میں موجودہ مئیر کراچی ہی سندھ کے وزیر داخلہ تھے اورذرائع کے مطابق انہون نے برائے راست وکلاء برادری پر فائرنگ کاآرڈر دیا اور پر تشدد واقعات کے نتیجے میں 50 لوگ قتل اور سینکڑوں زخمی ہو گئے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے جنرل مشرف جو اس وقت سیاہ و سفید کے مالک تھے اس سے قطعی لاعلم تھے ؟ جنرل اشفاق پرویز کیانی ان حالات سے ناواقف تھے؟مشرف کابینہ کے اہم ساتھی ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی رینجرز وغیرہ سب بے خبر تھے؟اسکے بعد ایک ایسا کربناک واقعہ پاکستان کی تاریخ میں رونما ہوا کہ ہر آنکھ اشک بار نظر آئی ،سانحہ بلدیہ ٹاؤن کراچی11 ستمبر 2012 کا المناک دن تھا۔
جس نے پوری قوم کو شدت غم سے نڈھال کر دیا، میڈیا چیخ چیخ کر ذمہ داروں کو کڑی سے کڑی سزائیں دینے کا واویلا مچائے ہوئے تھا ،تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول سیاسی جماعتوں نے ایم کیو ایم کو ان 258 لوگوں کو زندہ جلانے کا ذمہ دار قرار دیا ۔لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے مروجہ اصول ” سیاسی مک مکا”استعمال ہوا، کہ یہاں بڑے سے بڑے گناہ بھی سیاسی مفاہمت، مصالحت اور نظریہ ضرورت سے دھل جاتے ہیں،چنانچے یہاں بھی کچھ ایسے ہی ہوا۔ 7 فروری 2015 کوکمیٹیو ں کی تحقیقات ، ثبوتوں اور گواہیوں کی بدولت رینجرز نے ایم کیو ایم کوسانحہ بلدیہ فیکٹری کا اصل ذمہ دار قرار دیا۔ چونکہ ہمارا عدالتی نظام اتنا کمزور اور سست ہے کہ کیس کا فیصلہ ہوتے ہوتے مجر م دادا بن چکا ہو تا ہے۔
مر جاتا ہے یا پھر مدعی ہی اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے یا پھر تیسرا اور مروجہ طریقہ اگر مدعی غریب آدمی ہے تو اچھا وکیل کرنے کے لیے وسائل نہیں یا مدعا علیہ تگڑا ہے تو اسکے سامنے کھڑا ہونے کی ہمت نہیں، دونوں صورتوں میں عدالت اپنی جان چھڑانے میں ہی عافیت جانتی ہے اور خوشی خوشی کیس خارج از دفتر ہو جاتاہے۔ آج کا کالم الطاف حسین یا ایم کیو ایم کو گناہ گار ثا بت کرنا، راء سے تعلق پر مہر لگانا ،ملک دشمن یا غدار ڈیکلیئر کرانا ، حکیم سعید ، صلاح الدین، ڈاکٹر وحید الرحمان، ڈاکٹر پرویز، ڈاکٹر شکیل ، مولانا مسعود بیگ، علامہ عباس کمیلی ، چوہدری اسلم ، ساجد قریشی، زہرہ شاہد،پروین رحمان،نظام الدین شامزئی ،امجد صا بری وغیرہ کے قاتلوں کی تحقیقات مقصود نہیں ہیں بلکہ مطمعِ نظر ہمارے سسٹم اورنظام حکومت(حکومت،پارلیمنٹ، عدلیہ، میڈیا) کی اصلاح ہے۔
نا انصافی ، بد امنی ، قتل و غارت ،بربریت اور وڈیرہ شاہی پنجاب، اندرون سندھ، بلوچستان اور خیبر پی کے حکومت میں بھی ہے اورپنجاب میں تو آئے روز ظلم و زیادتی کی داستانیں رقم ہوتی ہیں ،نوٹس، دوغلا کمیشن، جعلی پٹیشن اور ناکام ایکشن ہوتا ہے اور جرم، ظلم اور برائی بچ نکلتے ہیں جبکہ قانون ہر بار اندھا ثابت ہوتا ہے اور طاقتور سماج اسے پاؤں تلے روندتا ہوا گزر جاتاہے۔یقین کیجئے یہ پاکستان کا چہرہ نہیں ہے یہ ان حکمرانوں کا مسخ شدہ چہر ہ ہے جو انہوں نے اپنی ذاتی شہرت، عزت، پیسہ، جائیداد، اور اقتدار بنانے کے عوض داغدار بنایاہے۔اگر آج نظام حکومت چلانے والے حکمران تہیہ کرلیں کہ اب ہر غلطی کرنے والے کو سزا ملے گی چاہئے وہ معاشرے کا عامی ہو یا خاص،استاد ہو یابزنس ٹائیکون، چپٹراسی ہو یا ملک کا سیاستدان، آفس بوائے ہو یا کوئی وزیراعظم ، آرمی چیف یا صدر سب کو احتساب کے عمل سے گزرنا پڑے گاتو یقین جانیں !نہ کبھی ایسا الطاف پیدا ہو گا ، نہ کبھی پاکستان میں کوئی ایسا ظلم ڈھانے کی جرات کریگا۔ عدل پر مبنی معاشرے کا قیام حکمرانوں کی آئینی ، اخلاقی اور معاشرتی ذمہ داری ہے۔
تحریر:شہزاد سلیم عباسی
0333-31 33 245
shahzadsaleemabbasi@gmail.com