تحریر: عبدالرزاق
ہر شخص کامیاب ہونا چاہتا ہے لیکن وہ اس راز سے لا علم ہے کہ کامیاب کیسے ہوا جائے۔وہ ہر اس طریقہ کو سیکھنا چاہتا ہے جس سے کامیابی کی راہ ہموار ہو سکتی ہے ۔ ہر شخص کی ذات میں پوٹینشل موجود ہے جس نے وہ پوٹینشل ڈھونڈ لیا اس نے کامیابی کا راز پا لیا ۔ انسان کا وجود قیمتی خزانوں سے لبریز ہے جس نے تگ و دو سے ان خزانوں کو تلاش کر لیا کامیابی کا تاج اس کے سر سج گیا جو ان خزانوں کی کھوج میں ناکام رہا وہ نامراد ٹھہرا۔آپ آج ایک جملہ اپنی ڈائری میں لکھیں ۔ آپ زندگی سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ یہی آپ کا گول ہے اس خواہش کی تکمیل ہی آپ کی کامیابی ہے ۔اب اس جملہ کو ایسی جگہ چسپاں کر دیں جہاں آتے جاتے،اٹھتے بیٹھتے آپ کی نظر اس جملہ پر پڑتی رہے تاکہ اس خواہش کو پورا کرنے کا آپ کا عزم ترو تازہ رہے ۔یاد رہے کامیابی کا سفر آسان نہیں ہے لیکن چند باتوں پر عمل کر کے اس سفر کو آسان بنایا جا سکتا ہے۔
جب آپ کو معلوم ہو گیا ہے کہ آپ کا گول کیا ہے تو اب آپ اپنے گول سے متعلق معلومات اکھٹی کیجیے ۔ یاد رکھیے مطالعہ کرنے سے علم کا ظہور ہوتا ہے ۔ علم خود اعتمادی کو جنم دیتا ہے ۔خود اعتمادی انسان کے ہنر کی پرورش کرتی ہے اور پھر جب ہنر عہد شباب کو چھوتا ہے تو کامیابی قدموں میں ڈھیر ہو جاتی ہے ۔ آپ کو اپنی ذات پر مکمل یقین اور بھروسہ ہونا چاہیے کہ آپ اپنے مقصد کو پانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں اور اپنی منزل کے راستہ میں آنے والی ہر مزاحمت اور رکاوٹ کو عبور کر جائیں گے۔ کامیابی کے راستہ میں متعدد دفعہ ناکامیوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے اس قسم کی صورتحال میں گھبرانے کی ضرورت نہیں جب کبھی ایسا کوئی موقع آئے کہ آپ ناکامیوں سے خوف زدہ ہو کر اپنی راہ ترک کرنے کا سوچ رہے ہوں تو کسی کامیاب شخص کی کامیابی کے پیچھے چھپی ناکامیوں کی فہرست کا مطالعہ کر لیں آپ اک نئے عزم اور حوصلہ کے ساتھ دوبارہ کامیابی کے سفر پر نکل کھڑے ہوں گے۔
ابراہم لنکن،نیلسن منڈیلا اور بل گیٹس جیسی کامیاب ہستیوں کی ہمیں صرف کامیابی ہی نظر آتی ہے لیکن اگر ہم ان کے سفر زندگی کا مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ ان سب نے کامیابی ناکامیوں سے سبق سیکھ کر حاصل کی ہے ۔ انہوں نے غلطیوں اور ناکامیوں سے سیکھ کر کامیابی کی بنیاد ڈالی ۔ بل گیٹس کو ہی لے لیجیے ۔آج پوری دنیا کی توجہ کا مرکز یہ امیر ترین شخص 1955میں امریکہ کے شہر واشنگٹن کے نواحی علاقہ نیسل کے ایک عام گھرانہ میں پیدا ہوا ۔ بچپن میں ہی اس کی دوستی کمپیوٹر سے ہو گئی اور وہ کمپیوٹر کی دنیا میں مگن ہو گیا ۔ بل گیٹس کی زندگی میں ٹرننگ موڑ اس وقت آیا جب وہ ہاروڈ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا اور اس کو یونیورسٹی سے نکال دیا گیا کیونکہ وہ تعلیمی اعتبار سے پست درجہ کو چھو رہا تھا۔
بل گیٹس نے یونیورسٹی سے نکال دئیے جانے کے بعد اپنے ایک ہم جماعت پال ایلن کے ساتھ مل کر اپنے خواب کو پورا کرنے کا ارادہ کیا ۔ بل گیٹس کو کمپیوٹر سے عشق تھا اوروہ ہر وقت کمپیوٹر کی دنیا میں مگن رہتا اور اسی لگاو کی وجہ سے وہ تعلیمی میدان میں بہت پیچھے رہ گیا تھا اور اسے یونیورسٹی سے خارج کر دیا گیا تھا ۔ بل گیٹس نے اپنے دوست کے ساتھ مل کرایک خاص پروجیکٹ پر کام شروع کر دیا وہ ایک ایسی خاص زبان ترتیب دینا چاہتے تھے جس سے کمپیوٹر چلانا آسان ہو ۔ دونوں دوستوں نے اپنے اس مقصد کے حصول کی خاطر دن رات ایک کر دیا اور بالآخر اپنی کوشش میں کامیاب ہو گئے اور انہوں نے ایک ایسی زبان تیار کر ڈالی جس کی بدولت کمپیوٹر کی مانگ میں بے تحاشہ اضافہ دیکھنے کو ملا جس سے دونوں دوستوں بل اور پال کا حوصلہ بھی بڑھ گیا انہوں نے اس میدان میں اک نیا افق تخلیق کرنے کا پروگرام ترتیب دے ڈالا اور اپنے اس پروگرام کو حتمی شکل دینے کے لیے وہ میکسیکو چلے گئے۔
میکسیکو پہنچ کر انہوں نے مائیکرو سافٹ کارپوریشن کی بنیاد رکھی جس کی چھتری تلے انہوں نے ایک ایسا سافٹ ویر تیار کیا جس کے چرچے دنیا کے طول و عرض میں ہونے لگے اور اسے دنیا کے کونے کونے میں خریدا جانے لگا اور پھر ایک دن ایسا آیا کہ بل گیٹس دنیا کا امیر ترین شخص بن گیا ۔ ذرا سوچیے ایسا کیونکر ممکن ہوا ۔ ایسا اس لیے ہوا کہ بل گیٹس نے اپنے اندر کی آواز سنی ۔ اپنی اس آواز یعنی خواب کو پورا کرنے کے لیے اپنی پوری توانائی صرف کر دی ۔ اگر بل گیٹس نے اپنی آواز کی بجائے کسی اور کی آواز پر دھیان دیا ہوتا تو آج وہ دنیا کا امیر ترین انسان نہ ہوتا بلکہ ایک عام سا انسان ہوتا ۔لہٰذا یاد رکھو کوئی لاکھ سمجھائے اپنے خواب پر سمجھوتہ نہ کرنا ۔ کامیابی اپنے ہی خواب کے تعاقب میں ہے اور ایک بات یہ بھی یاد رکھیے ہر ناکامی کامیابی کی جانب ایک قدم بڑھا دیتی ہے اس لیے ناکامی سے نفرت نہیں پیار کیجیے۔
ناکامی تو کامیابی تک پہنچنے کی سیڑھی ہے ۔چشم فلک نے یہ منظر بھی دیکھا ہے کہ غربت کی کوکھ میں جنم لینے کی پاداش میں ایک بچہ کو سکول سے خارج کر دیا جاتا ہے ۔ وہ بچہ اس قدر نالائق تصورکیا جاتا ہے کہ سکول انتظامیہ کو ڈر ہوتا ہے کہ اس کے اثرات دوسرے بچوں تک منتقل ہو سکتے ہیں ۔ وہ بچہ یہ تذلیل برداشت نہیں کر پاتااور محنت کرنے کی ٹھان لیتا ہے اور پھر کشا کش زمانہ سے ٹکراتا ایک دن ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں وہ پوری دنیا کے لیے سرمایہ اعزاز بن جاتا ہے ۔ دنیا آج اس بچہ کو آئن سٹائن کے نام سے جانتی ہے۔
آپ نے ہنری فورڈ کا نام بھی سنا ہو گا ۔ ایک معروف امریکی صنعت کار تھے جنہوں نے فورڈ موٹرز کمپنی کی بنیاد رکھی جس نے بزنس کے میدان میں تہلکہ مچا دیا ۔ ہنری فورڈ کو بچپن سے ہی گاڑیوں اور مشینوں میں بہت دلچسپی تھی ۔ وہ ہر خوب صورت گاڑی اور مشین کو بڑے شوق سے دیکھتا اور اس کے ایک ایک پرزے پر غورکرتا ۔ فورڈ کی عمرابھی پندرہ سال تھی کہ اس کے باپ نے اسے ایک گھڑی کا تحفہ دیا ۔فورڈ کو چونکہ ایسی چیزیں بہت پسند تھیں اس نے گھڑی کو پرزے پرزے کر دیا اور پھر انھیں ویسے ہی جوڑ دیا ۔ ہنری فورڈ کے اس کارنامہ کا پورے محلہ میں چرچا ہو گیا ۔ اب محلہ میں جس کی بھی گھڑی خراب ہوتی وہ فورڈ کے پاس لے آتا اور فورڈ اس کی گھڑی ٹھیک کر دیتا۔
بعدازاں اسی شوق نے ہنری فورڈ کو انجنیرنگ کے میدان میں پہنچا دیا اور محنت کرتے کرتے فورڈ نے ایک ایسی کمپنی کی بنیاد رکھی جس نے بزنس کے میدان میں تہلکہ مچا دیا۔ یہ کامیابی ہنری فورڈ کے خواب کی تعبیر تھی اور یہ سب اس لیے ممکن ہوا کہ ہنری نے اپنے ہی خواب کا تعاقب کیا ۔ اسی طرح آپ جس بھی کامیاب انسان کی جدوجہد زندگی کا مطالعہ کریں گے آپ کو معلوم ہو گا سب نے پہلے خواب دیکھا اور پھر اپنے خواب کو عملی شکل دینے کے لیے سب کچھ داو پر لگا دیااور ان تھک محنت،عزم صمیم اور مستقل مزاجی کو اپنے ماتھے کا جھومر بنا کر ہر رکاوٹ کو روندھتے ہوے اپنی منزل حاصل کر لی۔
تحریر: عبدالرزاق