تحریر: شاہد شکیل
ہم یہاں بہت خوش ہیں اور پرسکون زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔ ملک بدر ہونا یا کر دیا جانا کسی قیامت سے کم نہیں ہوتا دنیا کا کوئی انسان اپنی سر زمین جہاں آنکھ کھولی ہو زندگی کی بہاریں دیکھی ہوں اپنے ہم وطنوں کے ساتھ ہر دکھ سکھ میں شریک ہوا ہواور اچانک ایک ناگہانی آفت یعنی جنگ جیسی عفریت سر پر مسلط کر دی جائے تو جان بچانے کی خاطر ہر انسان ہاتھ پاؤں مارتا اور اپنے ملک سے فراد کی راہیں تلاش کرتا ہے کئی افراد ایسے موقعوں پراپنی املاک اونے پونے داموں بیچ کر اور کچھ سب کچھ چھوڑ کر کسی ایسی دنیا میں بسنا چاہتے ہیں جہاں نہ گولی چلے یا بم پھٹیں اور ایک پرسکون زندگی بسر کر سکیں لیکن یہ سب کچھ آسان نہیں کیونکہ کچھ پانے کے بہت کچھ کھونا پڑتاہے۔
عام طور پر جنگوں میں عوام ملوث نہیں ہوتی ریاستوں کے نام نہاد جاہل سیاست داں اپنے مفاد کی خاطر لاکھوں کروڑوں بے گناہوں کو ملک بدر کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ میرا مضمون سیاست اور جنگ پر مبنی نہیں بلکہ شامی مہاجرین ہیں کہ وہ جرمنی میںکیسی زندگی بسر کر رہے ہیں ،کیا وہ اپنی نئی جائے پناہ سے خوش ہیں یا وطن واپس جانا چاہتے ہیں،انہیں کس شے کی کمی ہے یا وہ کس کھوج یا جستجو میں جرمنی میں قیام کرنا چاہتے ہیںیا کیسا محسوس کرتے ہیں؟میں عرصہ دراز سے جرمنی کے شہر کولون میں مقیم ہوں اور سٹی گورنمنٹ کے توسط سے ایک مہاجرین کے کیمپ میں چند ہفتوں کے لئے تعنینات کیا گیا ہوں کہ ان کے مسائل پر رپورٹ تیار کروں ،اسی سلسلے میں کیمپ کے سترہ سالہ لڑکے سے چند سوالات کئے تو اس نے ٹوٹی پھوٹی جرمن،انگلش ، فارسی اور عربی زبانوں میں بتایا کہ ایک کنٹینر میں چار اوپر تلے بیڈز لگے ہیں اور دیگر ممالک کے مہاجرین کے ساتھ رہتا ہوں دن میں ایک بار گرم کھانا ملتا ہے اور شام کو بریڈ کے ساتھ مارملیڈ اور چیز دی جاتی ہے۔
پانچ یورو روزانہ کا جیب خرچ بھی دیا جاتا ہے تاکہ تمباکو نوشی یا دیگر خورد نوش کی کوئی شے سپر مارکیٹ سے خرید سکیں،ٹرین بس اور ٹرام کا ہفتہ وار ٹکٹ ہر پیر کو مل جاتا ہے،واشنگ مشین ایک علیحدہ کمرے میں ہے جہاں ہم سب خود باری باری اپنے کپڑے وغیرہ دھوتے اور سکھاتے ہیں،جرمن زبان سیکھنے کیلئے سکول جاتے ہیں اور فارغ اوقات میں سپورٹس کرتے ہیں ،دوا علاج کے لئے سوشل ورکرز مطلوبہ ڈاکٹرز کے پاس لے جاتے ہیں اور پرسکون زندگی بسر ہو رہی ہے ،ہمارے سیاسی کیس فارن آفس میں جمع ہیں اور نہیں معلوم کب تک کیس چلتے رہیں گے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ جلد از جلد فیصلہ ہو اور ہم اپنے ملک واپس چلے جائیں۔لاکھوں شامی مہاجرین نے یورپ میں سیاسی پناہ لے رکھی ہے اور تحفظ چاہتے ہیں،جرمنی میں جنگ زدہ ممالک سے ابھی تک سلسلہ جاری ہے اور اس موضوع پر خاص طور سے ایک معروف میگزین نے شامی مہاجرین سے چند سوالات کئے کہ وہ یہاں کیسا محسوس کر رہے ہیں ،جرمنی اور جرمن لوگوں کے بارے میں کیا تاثرات ہیں وغیرہ۔میگزین رپورٹ کے مطابق دوہزار پندرہ سے اب تک ایک لاکھ سے زائد شامی جرمنی پہنچ چکے ہیں ان میں سے نوے فیصد عربی زبان بولتے ہیں اور کئی لاطینی رسم الخط کو پڑھنے سے قاصر ہیں جبکہ یورپ کی ایک مبہم تصویر ٹی وی اور انٹر نیٹ سے حاصل کر چکے ہیں،سٹریٹ شیلڈز ، نام،نمبرز ،لیبلزاور مینو وغیرہ نہیں پڑھ سکتے۔
ٹرین اور ٹرام میں سفر کرنے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ شام میں صرف بسیں اور ٹیکسی ہی سفر کا ذریعہ ہیں،میگزین نے بتایا کہ چوہتر فیصد مسلمان مہاجرین کو روز مرہ زندگی میں کئی مشکلات پیش آرہی ہیں لیکن اگر یہاں رہنا ہے تو ابتداء میں ان مشکلات کو برداشت کرنا ہوگا،خاص طور پر کھانے پینے کی اشیاء کے بارے میں اکثر کشمکش میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ کہیں حرام گوشت تو نہیں یا کسی دوسرے کھانے میں اسکی ملاوٹ یا سافٹ ڈرنکس میں الکوحل تو شامل نہیں کی گئی وغیرہ،بظاہر معمولی باتوں کے نمائندے کیلئے یہ ضروری تھا کہ یہ لوگ یہاں کیسا محسوس کر رہے ہیں اور جرمنی کے بارے کیا سوچتے یا خیالات ہیں۔محمد اور باسیما ایک ماہ قبل ہی شام سے جرمنی آئے ہیں اور فی الحال شمالی میونخ میں ایک پناہ گزین کیمپ میں رہائش پذیر ہیں ان کا کہنا ہے ہمیں یہاں آکر بہت اچھا لگا باسیما کا کہنا ہے جرمن لوگ ناقابل یقین حد تک مخلص اور دوستانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔
اگر کسی سے راستہ پوچھا جائے تو مدد کی جاتی ہے کئی فارغ اوقات لوگ ہمیں منزل تک بھی پہنچا دیتے ہیں، محمد کا کہنا ہے مجھے تعجب ہوتا ہے کہ اتنی قدیم عمارتوں میں صفائی کا بہترین انتظام ہے سب سے زیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ وقت کی پابندی کی جاتی ہے بس ٹرین ٹرام وقت پر پہنچ جاتی ہیںاور ہمارے تمام کام وقت کی پابندی سے پایہ تکمیل پہنچ جاتے ہیں، محمد کا کہنا ہے جتنی جلدی ہوسکے جرمن زبان پر عبور حاصل کرنا چاہتا ہوں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ زبان بہت مشکل ہے اور سب سے زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ ستمبر میں شروع ہونے لینگویج کورس میں داخلہ نہیں مل سکا۔یاسمین داہی کے والدین پچیس برس قبل جرمنی آئے تھے اور دو برس بعد یاسمین کی پیدائش ہوئی اس کا کہنا ہے ہم نے ایک یونین بنا رکھی ہے اور سب چندہ اکٹھے کرتے ہیں کہ جرمنی آنے والے ہم وطنوں کی ہر قسم کی امداد کر سکیں اگر ان لوگوں نے یہاں کے ماحول کو قبول کیا تو کوئی مشکلات پیش نہیں آئیں گی کیونکہ ہم سب مل کر مسائل حل کرنے کی کوشش کریں گے۔
یہ سچ ہے کہ مسلم ملک اور مغربی ملک میں بہت فرق ہے لیکن اگر انسان چاہے تو دنیا کے کسی بھی خطے میں رہ کر وہاں کے اطوار سیکھ کر پر سکون زندگی بسر کر سکتا ہے۔احمد گیارہ ماہ سے ہیمبرگ میں مقیم ہے اس کا کہنا ہے جرمنی میں سب سے زیادہ جو چیز مجھے پسند آئی وہ برابری کا سلوک ہے یہاں پر تقریباً سب جرمن ہمیں انسان کی حیثیت سے اچھا برتاؤ کرتے ہیں لیکن کچھ جرمن ایسے بھی ہیں جو غیر ملکیوں کو بالکل پسند نہیں کرتے ۔تقریباً ایک سال سے زائد عرصہ گزر جانے اور سب کچھ میسر ہونے کے باوجود کئی شامی مہاجرین جرمنی ہی نہیں بلکہ یورپ میں رہنا پسند نہیں کرتے اور اپنے گھر واپس جانا چاہتے ہیں ان کا کہنا ہے زیادہ سے زیادہ دوسال کے دوران ہمارے ملک میں جنگ ختم ہو جائے گی اور حالات ٹھیک ہونے پر ہم اپنی پہلی فرصت میں جرمنی چھوڑ دیں گے اور اپنی سر زمین پر واپس چلے جائیں گے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ شام کی جنگ کب تک جاری رہے گی اور کب تک یہ پردیس میں انتظار کرتے رہیں گے؟
تحریر: شاہد شکیل