تحریر : میر افسر امان
خمینی ایک عالم گیر اسلامی سوچ رکھتے تھے۔ اس لیے جب خمینی نے ایران میں اسلامی انقلاب بر پاہ کیا تھا تو اسلامی دنیا نے اس کو خو ش آمدید کہا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ شیعہ انقلاب نہیں تھا بلکہ اسلامی انقلاب تھا اگر شیعہ انقلاب ہوتا تو کیسے ممکن ہے کہ اسلامی دنیا ایک فرقے کے انقلاب کو خوش آمدید کہتی۔ ایران میں لا شرکیہ لا غربیہ۔ اسلامیہ اسلامیہ کے فلک بوس نعرے لگنے لگے تھے۔ایک عرصہ تک مسلمانوں کے مشترکہ دشمن امریکہ کے خلاف، امریکا مردہ باد کی تحریک چلتی رہی، جس سے مسلمان خوش ہوتے تھے۔
رفتہ رفتہ ایک عالم گیر انقلاب اسلامی سوچ سے دور ہوتا گیا اور اس پر ایک فرقے کا رنگ چڑھ گیا جس کی وجہ سے اختلافات جو دھب گئے تھے دوبارہ جاگ اُٹھے۔ اس کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں یہ تو ایرنی علماء ہی بتا سکتے ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک کی بات نہیں کہ دشمنوں نے خلفاء راشدین کے دور کے بعد مسلمانوں کو دو فرقوں میںبانٹ دیا تھا جو آج تک اپنے اختلافات دور نہیں کر سکے۔مسلمانوں کے دشمن ان کے اختلافات سے ہمیشہ فاہدہ اُٹھاتے رہے اور آج تک اُٹھا رہے ہیں۔مگر اللہ کچھ لوگوں کو پیدا کرتا رہا ہے جو ان کو شیر وشکر کرنے کی کوششیں کرتے رہے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔
کیا ہی اچھا ہو کہ مسلمان اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ دیں اور یہ بات طے کر لیں کہ اختلافات کا فیصلہ اللہ آخرت میں کر دے گا اور دونوں کو معلوم ہو جائے گا کہ کون صحیح ہے اور کون غلط۔ اس دنیا میں اگر وقار کے ساتھ رہنا ہے تو اپنے مشترکہ دشمن کو پہچانیں اور اپنے مفادات کو محفوظ بنائیں۔ اگر ہم ذرا سوچیں کہ جس وقت روس نے افغانستان پر اپنی فوجوں کے ساتھ چڑھائی کی تھی تو اس نے صرف سنیوں کو نہیں قتل کیا تھا بلکہ شمالی افغانستان کے ہزارہ شیعہ کو بھی قتل کیا تھا۔ جب تم میں اتحاد تھا تو اللہ نے تمھارے ہاتھوں دنیا کی سب سے بڑی طاقت کو تمھارے ہاتھوں شکست دلائی اور وہ تمھارے ملک سے سے اُلٹے پائوں بھاگا اور چھ اسلامی ریاستوں کوآزادی نصیب ہوئی۔
مشرقی یورپ کی ریاستوں کو بھی آزادی ملی۔ روس کی شکست کے بعد تم اپنے اپنے مفادات کے پیچھے پڑ ھ گئے اور اب امریکا تمھاری کمزرویوں سے فاہدہ اُٹھا رہا ہے۔دشمن تو تمھیں مسلمان سمجھ کر قتل کرتا رہا ہے اور کر رہا ہے اور تم ہو کہ ایک دوسرے کی پہچان شیعہ سنی کی رکھتے ہو۔ یہ توتمہیدی کلمات تھے ۔اب ذرا موجودہ واقعات پر بات کرتے ہیں ۔کچھ عرصہ قبل سعودی عرب میں ایک شیعہ عالم اور اس کے ساتھ کچھ سنی لوگوں کو عدالتی کاروائی کے بعد سزا کی موت سنائی تھی۔جس پر ایران نے شدید احتجاج کیا تھااور سعودی عرب کے ایران میں سفارت خانہ پر حملہ کیا تھا۔ جس پر سعودی ایران کشدیدگی پیدا ہوئی۔اب ایران میں ٢٢ سنی کردوں کو پھانسی دی گئی ان میں ایک جید عالم بھی شریک ہے۔ کئی اور سنیوں پر مقدمے چل رہے ہیں۔شکر ہے کہ سعودی حکومت نے صرف اخباری بیان کے علاوہ کوئی خاص رد عمل نہیں دیا۔
ہم اس سے قبل بھی لکھ چکے ہیں کہ ایران نے مشرق وسطی کے معاملے میں جارحانہ رویہ اختیار کیا ہوا ہے جو نامناسب ہے اس سے مسلم ریاستوں میں عدم تحفظ پیدا ہو رہا جو نہ ایران اور نہی سنی ریاستوں کے لیے فاہدہ مند ہے۔بلکہ اس سے مشترکہ دشمن فاہدہ اُٹھا رہا اور مسلم ریاستیں آپس میں لڑ لڑ کر کمزور ہو رہی ہیں۔شام میں ایک اقلیتی شیعہ فرقے کی حکومت ہے جو خاندان ٧٠ سال سے سنی اکثریت کو غلام بنا کر بیٹھا ہوا ہے ۔ شام کے اندر بشار کی اقلیتی حکومت کو بچانے کے لیے ایران کی فوجیں لڑ رہی ہیں۔ شام میں ظلم کی انتہا ہو گئی ہے۔امریکہ اور روس دونوں سنی اکثریت کوبشار کے ساتھ مل کر نشانہ بنا رہے ہیں۔ یمن میں بھی ایران کے اسلحے اور فوجی ٹرنینگ سے حوثی لڑ رہے ہیں۔ عراق میں صدام کی سنی حکومت کو امریکہ کے ساتھ مل کر ختم کیا گیا اور ایک شیعہ حکومت قائم کر دی گئی۔
اب بھی عراق میں ایرانی فوجیں لرڑرہی ہیں۔ افغانستان میں بھی طالبان کے خلاف ایران کی مدد سے شمالی اتحاد کی اقلیتی حکومت قائمہے۔ترکی کے متعلق ایران کے ایک سینئر لیڈر کے بیانات اخبارات کی زینت بنے تھے ۔ ایران کے ایک طاقت ور شخصیت ،سابق وزیر انٹلیجنس اور موجودہ صدارتی مشیر علی یونس کی طرف سے بیان تھا کہ ایران عظیم الشان سلطنت بن چکا ہے ۔عراق ہمارا ہے۔ ہم کھوئی ہوئی زمین واپس لے رہے ہیں۔ اسلام پسندوں (سنیوں)اور نئے عثمانیوں سے مقابلہ کریں گے۔ترک ہمارے تاریخی مخالف ہیں۔ اس بیان کو سامنے رکھیں اور حالیہ ترک فوجی انقلاب کی کوشش میں ایران کے کردار کی سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔
اردگان کا اخبارات میں بیان شائع ہوا ہے کہ ناکام فوجی انقلاب میں امریکہ اور ایران شامل ہیں۔اگر شیعہ اور سنی حکومتیں جہاں ان کی اکثریت ہے اسی پر ہی اکتفا کریں اور ایک دوسرے کے ممالک میں امریکہ کے ساتھ مل کر مداخلت نہ کریں تو مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔اگر مفادات کی جنگ میں اپنے مشترکہ دشمن کے آلہ کار بنیں گے تو مسلم دنیا مذید تبائی میں مبتلا ہو جائے گی۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایران کو شام میں اقلیتی حکمران اسد کی فوجی مدد بند کرنا چاہیے اور اکثریت کو اپنے نمائندے منتخب کر کے حکومت کرنے کا حق ملنا چاہیے تاکہ حقیقی امن قائم ہو سکے۔ یمن میں حوثی قبیلہ کی عسکری ٹرنینگ اور فوجی مدد نہیں کرنی چاہیے اور اکثریت کی حکومت قائم ہونی چاہیے۔
عراق میں بہت ظلم ہو چکا ہر روز کبھی شیعہ کبھی سنی بے گناہ مر رہے ہیں۔داعش مسلمانوں کا مشرکہ دشمن ہے جسے امریکہ نے جنم دیا ہے اس کا اعتراف امریکہ کی سابق وزیر خارجہ اور موجودہ امریکی صدارت امیدوار ہیری کلیٹن اپنے کتاب میں کر چکی ہے لہٰذا عراق میں اسے دونوں مل کر ختم کریں اور ایک دوسرے کو برداشت کریں۔ساری اسلامی حکومتوں میں رائے کی آزادی ہونی چاہیے۔ہر کسی کو اپنے اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کا حق ہونا چاہیے۔ اگر کسی ملک کا شہری کسی ملک کے قوانین کے خلاف بغاوت کا مرتکب ہو تو ملکی قوانین کے مطابق اوپن ٹرائل کر کے ملکی دستور کے مطابق سزا دینی چاہیے اور ایک دوسرے کے ملکی قوانین اور دستور کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے اسی طرح بھائی چارے کی فزا قائم ہو سکتی ہے۔
کچھ دن پہلے اخبار میں خبر لگی تھی کہ ایران کے کسی شہر میں اکیلی سنیوں کی مسجد کو مسمار کر دیا گیا۔ کسی بھی ملک میںامام بارگاہ یا مسجد کو مسمار نہیں کرنا چاہیے۔ایران میں سنیوں کی طرف سے کوئی بڑی حکومتی مخالف مزاحمتی تحریک نہیں چل رہی کہ جس کی وجہ سے ایران میں جو ٢٢ سنیوں کو پھانسی پر چڑھایا گیا ہے۔ اس کی مکمل عدالتی کاروائی کو پریس میں عام کرنا چاہیے تاکہ ایک دوسرے کے خلاف اشتعال نہ پھیلے۔ انسانی بنیادی حقوق کا خیال رکھنا چاہیے۔ ویسے ایران دنیا میں پھانسیاں دینے میں نمبر ون ہے۔
بتان رنگ و خون کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا۔ ۔ ۔ نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی۔
اللہ امتِ مسلمہ کا نگہبان ہو آمین۔
تحریر : میر افسر امان
کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان