تحریر : ڈاکٹر محمد ریاض چوہدری
14 اگست 1947 تاریخ انسانیت میں کرشمہ سازی کا دن ہے۔ یہ دن انسانی قوت نظریہ کی تخلیق کے اظہار کا دن ہے۔ اس دن مسلمانانِ ہند پر آزادی کا سورج طلوع ہوا۔ اس خطہ زمین پر صدیوں سے نظریاتی تنکا تنکا جمع کرنے والے نظریاتی انسان نے اس دن اپنا گھر مکمل کیا۔ جس میں وہ اپنے عظیم نظریے کے مطابق آئندہ زندگی آزادانہ گزارے گا۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک مخصوص نظریہ کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا تھا۔اور وہ نظریہ تھا” نظریہ پاکستان” ۔ برصغیر میں دو قومی نظریہ کی کوکھ سے ابھرنے والا یہ نظریہ دراصل اپنے تمام معانی اور مصادر کے نقطہء نظر سے نظریہ قرآن اور نظریہ اسلام ہے۔ کیونکہ تحریک پاکستان کے مراحل کے دوران اسلامیان ہند نے جو نظریاتی نعرہ بلند کیا تھا پاکستان کا مطلب کیا لا اللہ الا اللہ برصغیر کے مسلمانوں کا یہ نظریہ ایک منفرد نظریہ تھا جس کے پیچھے ایک نہایت پختہ عقیدہ، وسیع و عریض اور مضبوط و منفرد تہذیب ، تابناک ماضی اور روشن مستقبل مضمر تھا۔ اس نظریے نے جہاں قیامِ پاکستان کے امکانات روشن کیے وہیں اس کی بقا و سلامتی اور ترقی و استحکام کا رُخ بھی متعین کیا۔ تحریکِ پاکستان کی اس فوری اور شاندار کامیابی نے مصورِ پاکستان کے اس قول کی تائید کر دی۔
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسولِ ہاشمی
قرار دادِ پاکستان بھی دراصل اسی نظریے کی بنا پر سامنے آئی تھی۔ جس نے مسلمانوں کی منزل قیامِ پاکستان تک رسائی کو ممکن بنایا۔ آج جب تعمیرِ وطن کی بات ہو رہی ہے تو اس وقت بھی کسی نئی توجیہ اور تاویل کے بجائے ہمیں پھر انہیں نشانوں پر پلٹنا ہوگا۔ اس مملکت کی بنیاد جس نظریے پر ہے اس کا استحکام اسی سے مشروط ہے۔ صوبائی، نسلی اور لسانی امتیازات کی اس ملک میں گنجائش اس لئے بھی نہیں ہے کہ اس ملک کا پیمانہ ہی اسلام ہے۔
درحقیقت نظریہ ہی کسی قوم کی تشکیل، بقا اور دوام کا ضامن ہوتا ہے۔ اس کی تہذیب و ثقافت، ترقی اور تمدن اسی نظریے پر منحصر ہوتی ہے۔ اگر کسی قوم کی نظریاتی بنیادیں کمزور پڑ جائیں تو وہ زیادہ دیر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی۔ پاکستان جو اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا ہے اس کا استحکام اور بقا بھی اسی نظریہ سے وابسطہ ہے۔ ایک نظریاتی مملکت ہونے کے ناطے نظریہ پاکستان کی حفاظت ہمارا اولین فرض ہے۔ پاکستان عصر حاضر میں جن خوفناک اور اندوہناک سیاسی اور قومی منجدھار سے ہمکنار ہے۔اس سے بروآزما ہونے کے لیے ہمیں قرآن اور اسلام کی امداد کی اشد ضرورت ہے۔حضرت قائداعظم اور علامہ اقبال کے نظریات اور تصورات کو مکمل طور پر جزوجاں بنانا ہوگا۔
انہی اہم ترین مقاصد کے حصول کے لیےنظریہ پاکستان کو دوبارہ اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ اکثروبیشتر دانشوراں کرام نظریہ پاکستان کی تفہیم میں ڈنڈی مار جاتے ہیں۔جو کسی طرح بھی قومی تعمیر و ترقی اور عروج کا باعث نہیں بنتا۔ لہذا عصر حاضر کا تقاضہ ہے کہ وہ بنیادی نظریات جو تخلیق پاکستان میں کارفرما تھے انہیں جلد از جلد بروئے کار لایا جائے۔ اور پاکستان کی نسل نو میں احساس تفاخر اور قومی استقلال و استقامت کی ضمانت دی جائے۔
یہ بات مسلم ہے کہ جسموں پر حکومت کی نسبت روحوں کی تسخیر زیادہ اثر انگیز ہوتی ہے۔ اگرچہ جسم پر وار ہونے والے واقعات بھی خاص حد تک نظریات و افکار میں تغیر کا باعث بنتے ہیں۔ مگر مسلمانوں کی تاریخ میں کئی ایسے بلال موجود ہیں کہ جنہوں نے جسم و جاں سب کچھ لٹا دیا۔ مگر نظریے سے انحراف نہیں کیا۔ آج پوری دنیا میں یہ تاثر عام کیا جا رہا ہے کہ ہمیں فلاں اچک لے گا یہ نہ کیا تو ہماری معیشت برباد ہوجائے گی۔ ملک پر قبضہ ہوجائے گا ایٹمی حملہ ہو جائے گا۔
حالانکہ
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیخ بھی لڑتا ہے سپاہی
ہم تو مومن ہیں ہمارا دین ہمیں دروریوار سجانے کی بجائے روح کو سنوارنے کا درس دیتا ہے اگر مسلمانان پاکستان کے لیے نظریہ کی نسبت معیشت اہم ہوتی تو قیام پاکستان کے لیے تاریخ انسانیت کی سب سے بڑی ہجرت وقوع پزیر نہ ہوتی وسیع و عریض جاگیروں اور محلات کے مالک سب کچھ لٹا کر بے سروسامان پاک سرزمین پر قدم نہ رکھتے۔ اگر جان کا خوف ہوتا تو نہتے ہندوستان کا سینہ چیرتے خونی لکیر اور لاشوں کے پل عبور کرنے کا ہرگز نہ سوچتے۔ ہاں اگر انہیں فکر تھی تو ایمان کی عقیدے کی ، مستقبل کی۔ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت کے قیام کی اور اس کے بقا کی۔ وہ اس وقت بھی سید، مرزا، پنجابی، سندھی، بنگالی، بلوچی، پٹھان اورکشمیری تھے مگر ان پہچانوں کو انہوں نے ایک وطن کےحصول میں حائل نہیں ہونے دیا۔ بلکہ اس یکجائی نے ملت اسلامیہ کو اس عظیم سلطنت کے حصول کے قابل بنایا۔ اس نظریہ نے انہیں ہر خوف سے بےنیاز کر دیا تھا۔
آج جبکہ ہم روحانی، فکری، نظریاتی، اور عملی ہر لحاظ سے زوال و انحطاط کا شکار ہیں۔ آج ظاہری حدیں ختم اور غیر موئثر کرنے کی بات ہورہی ہے۔ اس تناظر میں اگر یہ کہا جائے کہ نظریہ پاکستان پرکام کی پہلے اتنی ضرورت نہ تھی جتنی آج ہے تو یہ بے جا نہ ہو گا۔ فرق صرف یہ ہے کہ آج شوگر کوٹڈ گولیاں ہیں۔ جو پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک اور شرانگیز ہیں مگر ہماری بےچارگی نے ہم سے وہ بھی چھین لیا جو دور غلامی میں بھی ہم سے نہیں چھینا تھا۔
جو قومیں اپنے نظریات سے رو گردانی کرتی ہیں وہ اقوام عالم کی اندھی تقلید میں اپنا تشخص کھو بیٹھتی ہیں ۔ نظریات اگر عمل کی تجربہ گاہ سے نکل جائیں تو اصل میں شکوک و شبہات جنم لے لیتے ہیں اور نئی نسل ان تصورات کو دقیانوسیت اور بنیاد پرستی کا لیبل لگا کر ان سے کنارہ کش ہو جاتی ہے۔ اور وقت کی دھار کو دیکھ کر نئے اصول و ضوابط کی طرف متوجہ ہو جاتی ہے۔
عصرحاضر میں جہاں ہم اور بہت سے مسائل کا شکار ہیں وہاں نئی نسل میں نظریاتی نا پختگی اورفکری ناہمواری سب سے بڑا مسئلہ ہیں۔ انہیں اس حقیقت کا علم نہیں کہ نظریہ ہے تو ریاست ہے بصورت دیگر “اکھنڈ بھارت” کا نعرہ لگانے والے ابھی تک گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ آج سرحدوں کو غیر ضروری بندھن قرار دینا معاشرتی، ثقافتی تعلیمات کے نغمے الاپنا۔ بھارت کی طرف سے آئے دن ہونے والے شر پسندانہ اقدامات اور دشمنی پر مبنی کاروائیاں سب اسی سوچ سمجھے منصوبے کا حصہ ہیں۔ ایک ہزار برس اکھٹے رہنے کے باوجود اپنا الگ الگ تشخص برقرار رکھنے والی قوموں کو پھر سے ایک کرنے کی باتیں نہ صرف یہ کہ عارضہ عقل کی طرف نشاندہی کرتی ہیں بلکہ دشمن کے خوفناک عزائم کا پردہ چاک کرتی ہیں۔
ملک کی موجودہ خطرناک صورت حال کا تقاضہ ہے کہ انفرادی اور اجتماعی سطع پر پھر سے نظریہ پاکستان اور اس کے تقاضوں کو قوم کے سامنے اجاگر کرکے ملک سے محبت کے جذبات کو فروغ دیا جائے۔ نسل نو کی نظریاتی تربیت کے لیے حکومتی سطع پر عملی اقدامات کیے جائیں۔ تمام سیاسی، مذہبی اور عسکری قائدین دیگر اہم شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ مل بیٹھ کر ملک کے لیے مستقل پالسیاں مرتب کی جائے اور ان پر عمل درامد یقینی بنایا جائے۔ سیاسی اور مذہبی ہم آہنگی کے لیےکانفرسوں اور سیمیناروں کا انعقاد کیا جائے۔ اور فرقہ درایت پھیلانے والے عناصر کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ تاکہ قوم کو ایک بار پھر متحد اور منظم کیا جا سکے اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکے۔
تحریر : ڈاکٹر محمد ریاض چوہدری