تحریر : عرفانہ ملک
کامیابی ایسی تتلی ہے جس کے رنگین پروں پ انسان سفر کرنے کا متلاشی ہوتاہے تاکہ وہ کامیابیوں کی بلندیوں تک پہنچ سکے اور وہ اندھیروں کو کوسنے کی بجائے ایک شمع روشن کر دینا چاہتا ہے جب اس کے پاس محنت کامیابی نصیب اوروقت یہ سب اکھٹا ہوجائے توپھر سونے پہ سہاگہ ہے اس لئے کہ انسان محنت کے لئے پیداکیا گیاہے رات دن وہ کسی نہ کسی کام میں مصروف ہے کہیں تکمیل توکہیں تشکیل اس کی ہر خواہش محنت سے شروع ہوکر محنت پر ختم ہوتی ہے۔کہ وہ گائوں کوشہر اورشہروں کوملک سے بدل دیتاہے اس کی آرٹ کے ایسے نمونے قائم ہیں جن سے کوئی بھی انکاری نہیںوہ اپنی آرزو پوری کرنا چاہتاہے اورآرزو کی جدوجہد میںبھاگ بھاگ کر اپنے آپ کو ہلکان کردیتاہے ۔تکمیل کی تشکیل کو ہٹا دیاجائے تو باقی کائنات میںکوئی کام نہیں کامیابی بھی ہو اور نصیب بھی ساتھ دے مگر دکھ کا مقام وہ ہوتاہے جب ہم وقت گنواچکے ہوں اس لئے یہ وقت کب آیا کب گیا ہم یہ کہتے رہ جاتے ہیں کہ ہمیں کچھ بنناہے۔اوریہی سوچتے سوچتے ہم بے وقوف بن جاتے ہیں اپنا وقت محفلوں اورہنسی مذاق کے نا م کر چھوڑتے ہیں کبھی خوشی کبھی غم کے ہمارے پاس چند ایام ہی تو ہوتے ہیں جس میں فیصلہ کرنا مشکل ہوتاہے کہ ہمیںکیاکرنا چاہیے۔اورکیا نہیں۔
آدھے دن جاگ کے اورباقی راتیں سو کر گزار ہی لیتے ہیں۔مجبوریاںہمیں دیمک کی طرح چاٹ لیتی ہیں۔وقت ہی تو وہ قدیم سرمایہ ہے جس کو ہم سمجھتے ہیں تب وہ ہمارے ہاتھ سے جاچکا ہوتاہے ۔آدمی ٹھیک سے دیکھ پاتا بھی نہیں اورمنظر بدل جاتاہے۔تب سوچتے ہیںکہ ہم نے تو کچھ نہیںبنایا نہ دنیا سے جانے کے لئے اور نہ دنیا میںرہنے کے لئے گھڑیوںکی سویاں آگے کرنے سے توہم آگے نہیںہوسکتے۔خواب ایسے نہ ہوں جوہم سوکردیکھتے ہیں بلکہ ایسے ہوں جو ہمیں سونے نہ دیں۔لگن جدوجہد شوق عمل سب ایک ساتھ ہو ںتو شاید ہم دنیا کے لئے نہیں بلکہ اپنی آخرت کے لئے بھی کچھ اکٹھا کرسکتے ہیں۔عمر اور وقت شاید ایک ہی چیز کے دونام ہیں۔جب ہم وقت یا عمر جو بھی گنوا دیں تب بھی اپنے آپ کو کوسنے کے سوا ہمارے پاس کچھ باقی نہیں رہتا۔ہمارے ادارے پر چارجوان لڑکیاں آئیں جو اپنا ٹکٹ لے کر انتظار گاہ میں انتظارکرنے لگیں۔چونکہ گاڑی دیر سے جانی تھی اس لئے ہم سے کچھ گپ شپ کرنے لگی۔ہم سے بھی رہا نہ گیا ہم نے چاروں کے نام پوچھے تو بڑے شوق وذوق سے انہوںنے اپنے نام بتائے۔
ایک بولی نوشین شاہ،دوسری سمیرا عامر،تیسری ثناء لیاقت اور چوتھی حسیبہ خان ۔میںنے پوچھا آپ لاہور کیوںجارہی ہیں۔تو وہ بولیں آنٹی ہماری سوئمنگ کی Tryہے اس لئے ہم جارہی ہیں آپ دعا کریںکہ ہم کامیاب ہوجائیں۔میںنے جواب دیا اللہ آپ کو کامیاب ضرور دے گا۔اس لئے کہ وقت ہے اوریہی حسین خزانہ ہے۔ابھی آپ کے پاس باقی ہے اس کو ضائع مت کرنا اوراپنی لگن اورکوشش کو کبھی کم نہ ہونے دینا ۔آپ کی دوڑ ہی اس سرمایے کو سنبھال سکتی ہے۔اور یقینا وقت جیسی اہم چیز جس کے پاس موجود ہو اور وہ اسے ضائع کردے تو ایسے شخص کو انتہائی درجے کا بے وقوف ہی کہا جاسکتاہے۔وقت ایک ایسی چڑیا کانام ہے جو کسی کے ہاتھ نہیں آتی اوربقول شاعر کے کہ
روز گھڑیاں بدل دیتا ہوں
وقت کہاں قابومیںآتاہے
یقینا وقت کسی کے قابویا بس میںآنے والا نہیں۔اگر ایسا ہوتا تو وقت کے عظیم اورنامورپہلوان اوربادشاہ وقت کو اپنے بس میںکرکے مزید زندگی جی لیتے ۔لیکن وہ بے چار ے بھی بے بس تھے اور خاموشی کے ساتھ اس فانی دنیا سے کوچ کرگئے۔وقت عجیب شے ہے کسی کو خوشی تو کسی کوغم کے انبار دکھا دیتاہے۔انسان کتنی بھی کوشش کرے اسے اپنا غلام نہیںبناسکتا۔البتہ دوسروںکے کام آکر اپنے وقت کو قیمتی ضرور بنا سکتاہے۔ہمیں جہاں اپنے آپ کو جدید دورکا باسی کہتے ہیں وہاں ہمیں ان باتوںکو بھی ضروربالضرور خیال کرنا ہوگا کہ آخر وقت چیز ہی کیا ہے جو ہم اس کے غلام بن بیٹھے ہیں۔ہمیں تو وقت سے لڑنا سکھایا گیا ہے اسے اپنے بس میں کرنا اپنے قابومیںکرنا سکھایا گیاہے۔تو پھر آج کیوں ہم اتنے بے بس ہوچلے ہیں۔لیکن خیر انسان بھی آخر فانی ہے اس لئے وہ وقت کو کبھی قابومیںنہیں کرسکتا۔وہ الگ بات کہ انسان کبھی کبھار کامیاب ہوکر وقت کو مات دے ڈالتا ہے لیکن ایسا جناب کوئی کوئی کرپاتاہے۔
ایسا کرنا سب کے بس کی بات نہیں۔ہم جہاں ادھر ادھر کے حالات سے متاثرہوکر ایک ڈگر پر چل نکلتے ہیں وہاں ہمیں یہ بالکل بھی احساس نہیںہوتا کہ وقت بھی آخر کچھ چیز ہے کسی چڑیا کانام ہے۔اسی احسا س کو بہت کم لوگ محسوس کرپاتے ہیں۔جو کرتے ہیں وہ کامیابی کے زینے چڑھ جاتے ہیں اورجو نہیں کرپاتے اس پر وقت کے ساتھ ساتھ اردگرد کے لوگ بھی ہنستے ہیں۔ہم نے زندگی کے ایام خوشی اور غموںکے نذرکردیے ،کہیںوقت نے ہمارے ساتھ کھلواڑکیا تو کہیں ہم نے وقت کے ساتھ۔کیونکہ جب انسان زندگی اپنے لئے اور صرف اور صرف اپنے مفا دکے لئے جیتاہے تو وہ دنیا کے ساتھ وقت کو بھی دھوکا دے رہاہوتاہے۔
یہاں اپنے آپ کو دھوکادینابھی شامل ہے۔لیکن کون اپنے آپ کو قصوروار ٹھہرائے گا۔چلئے جناب ہم ہی اپنے آپ کو قصور وار ٹھہراتے ہیں ورنہ تو دنیا چار انگلیاں چھوڑکر ایک انگلی اوروںکی جانب بڑھانے میں کبھی دیر نہیں کرتی۔یہی دنیا کی ریت اور رواج ہیں جو صدیوں سے چلے آرہے ہیں۔اورجنہیں کوئی نہیںبدل سکتا البتہ انسان خود کو بدل کر وقت کو قابومیں ضرو رکرسکتاہے کوشش کرنے میںکوئی حرج نہیں۔ہم بھی کررہے ہیں آپ بھی کرلیں ۔اللہ ضرور کامیاب کرے گا۔انشاء اللہ۔
تحریر : عرفانہ ملک