counter easy hit

پاکستانیوں کا ایک ہی نعرہ کشمیر ہمارا کشمیر ہمارا

Kashmir

Kashmir

تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ
مسئلہ کشمیر پرپوری دنیا کے سامنے موری حکومتی کا مظالم ایک نئی تاریخ رقم کررہاہے۔تودوسری طرف بھارت نے پاکستان کی طرف سے کشمیر پر بات چیت کرنے کی پیشکش کو اس شرط پر قبول کرنے کا اعلان کیا ہے اگر یہ مذاکرات سرحد پار دہشتگردی تک محدود ہوں گے اور کشمیر میں ہونے والے مظاہروں اور سکیورٹی فورسز کی طرف سے کئے گئے تشدد پر بات نہیں کی جائے گی۔

’’اِس کو کہتے ہیں چوری اور اوپر سے سینہ زوری اور الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے ‘‘۔ بھارت کودنیا جانتی ہے کہ وہ دہشتگردی کی سرپرستی والے ممالک میں سرفہرست ہے ۔ مودی صاحب جہاں بھی گئے دہشتگردی کے واقعات کی داستان قائم کرکے آئے بلکہ جس ملک میں بھی گئے وہاں سے خوشیاں چھین لائے۔

چند روز قبل اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمشنر گوتم بامبا والا نے پاکستانی وزارت خارجہ کو بھارت کے سیکرٹری خارجہ سبرامنیم جے شنکر کا مراسلہ پہنچایا ہے جس میں بات چیت کو دہشتگردی تک محدود کرنے کی بات کی گئی ہے۔ یہ خط پاکستانی سیکرٹری اعزاز چوہدری کے خط کے جواب میں وصول ہوا ہے۔ اب پاکستانی وزارت خارجہ اس مراسلہ کا جواب تیار کر رہی ہے۔ پاکستان اور بھارت نے ایک دوسرے کو بات چیت شروع کرنے کیلئے جو خطوط روانہ کئے ہیں۔تاہم بات چیت کے ذریعے اختلافات ختم کرنے اور کشمیر کے معاملہ پر کسی اتفاق رائے پر پہنچنے کیلئے دونوں ملکوں کی سیاسی قیادت کو سیاسی و سفارتی سوجھ بوجھ اور جرات سے کام لینے کی ضرورت ہو گی۔

Negotiations

Negotiations

پاکستان الزام تراشی کے ماحول میں بھی مسلسل بات چیت کی پیشکش کرتا رہا ہے۔حکومت بھارتی نے آل پارٹیز کانفرنس بھی منعقد کی تھی لیکن نریندر مودی اپنی پالیسیوں کو ترک کرنے اور علیحدگی پسند کشمیری لیڈروں سے بات کرنے سے صاف انکار کرتے رہے ہیں ۔ وزیراعظم نریندر مودی کی یہ حکمت عملی ناکام ثابت ہو رہی ہے۔ کیونکہ بھارتی اپوزیشن پارٹیوں اور کشمیری لیڈروں کی طرف سے مسلسل سیاسی مذاکرات کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔ حتیٰ کہ مقبوضہ کشمیر کی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھی نئی دہلی سرکار سے کہا ہے کہ وہ تشدد اور طاقت سے تحریک کو دبانے کی بجائے کشمیری لیڈروں سے بات چیت کا آغاز کرے۔

لیکن اس دعوے کو کشمیر کی صورتحال کی روشنی میں درست تسلیم کرنا ممکن نہیں ہے۔ اگرچہ بعض مقامی لیڈروں نے بھارت نواز پارٹیاں قائم کی ہوئی ہیں اور وہ فوج کی نگرانی میں منعقد ہونے والے انتخابات میں کامیاب ہو کر مقبوضہ وادی میں اقتدار بھی سنبھال لیتے ہیں لیکن کشمیری عوام کی اکثریت ان انتخابات کا بائیکاٹ کرتی ہے۔ یا وہ مقامی مسائل سے نمٹنے کیلئے محدود تعداد میں انتخابات میں حصہ لیتے ہیں۔ کشمیر کی علیحدگی یا کشمیری عوام کو وادی کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دلوانے کے حامی کشمیری لیڈر اور پارٹیاں انتخابات میں حصہ لینے سے انکار کرتے رہے ہیں۔ اس لئے بھارت نواز پارٹیاں کسی مقابلہ کے بغیر ہی انتخاب جیت کر اپنی کامیابی کے اعلانات کرتی رہتی ہیں۔ ان انتخابات کو کسی بھی معیار سے کشمیری عوام کے حق رائے دہی کے مترادف قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تاہم بھارت نے کشمیر میں انتخابات کو بہانہ بنا کر ایک طرف اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرنے سے انکار کیا ہے تو دوسری طرف پاکستان کے ساتھ بات چیت کے ذریعے اس متنازعہ مسئلہ کا حل تلاش کرنے سے گریز کرتا رہا ہے۔

Pakistanis Protest Kashmir killings

Pakistanis Protest Kashmir killings

اس پس منظر میں پاکستان نے ہمیشہ بھارت سے کشمیر کے سوال پر بات چیت کے ذریعے کوئی قابل قبول حل تلاش کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ شملہ معاہدہ سمیت دونوں ملکوں نے متعدد اعلانات میں اصولی طور پر اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے اور دونوں ملکوں کو مذاکرات کے ذریعے اس کو حل کرنا چاہئے۔ تاہم پاکستان کی طرف سے مذاکرات پر آمادگی اور خواہش کے باوجود بھارت نے ہٹ دھرمی سے کام لیتے ہوئے کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دینے کی رٹ لگانے کے بعد اب یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت و بلتستان کے علاقے بھی دراصل بھارت کا حصہ ہیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے 15 اگست کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے اس دعویٰ کو ایک بار پھر دہرایا اور یہ بھی قرار دیا کہ بلوچستان اور آزاد کشمیر کے عوام پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھائی جائے گی۔ اس بیان کی روشنی میں ہی ایک بھارتی صحافی نے منگل کے روز امریکی وزارت خارجہ کے شعبہ اطلاعات کی ڈائریکٹر الزبتھ ٹروڈیو سے کہا کہ مودی کے اعلان کے مطابق پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے باشندے بھارتی شہری ہیں۔ اس لئے اب امریکہ کو اس مسئلہ پر واضح موقف اختیار کرنا چاہئے۔ امریکی ترجمان نے اپنے جواب میں واضح کیا کہ امریکہ کشمیر کو مسلسل متنازعہ علاقہ سمجھتا ہے۔ ہمارا موقف ہے کہ بھارت اور پاکستان کو بات چیت کے ذریعے اس مسئلہ کا حل تلاش کرنا چاہئے۔

اسلسلے میں سینئر صحافی سیدمجاہدعلی اپنے تجزیے میں لکھتے ہیں کہ بھارت نے لائن آف کنٹرول پر خاردار باڑ لگا کر سرحدیں عبور کرنے کو تقریباً ناممکن بنا دیا ہے۔ پاکستان بھی مقبوضہ کشمیر میں عملی مداخلت کی پالیسی ترک کر چکا ہے۔ یوں بھی چند لوگوں کو سرحد پار بھیج کر کسی مسلح جدوجہد کو فائدہ نہیں پہنچایا جا سکتا۔ اس کے باوجود بھارت پاکستانی ایجنٹوں کو مارنے کے دعوے کرکے، ان کی بنیاد پر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا مہم چلا رہا ہے۔ بھارتی وزیراعظم سے لے کر اس کے وزیر تک پاکستان کے خلاف اشتعال انگیز اور نفرت بھرے بیان دے رہے ہیں۔ اس کا جواب اسلام آباد سے کشمیری تحریک کی کھل کر حمایت اور یوم آزادی کو کشمیری عوام کی آزادی کے نام کر کے دیا گیا ہے۔ تاہم اس دوران پاکستان کی طرف سے مذاکرات کیلئے بھی پیشرفت کی گئی ہے۔ بھارتی جواب کے بعد یہ امید کی جا سکتی ہے کہ دونوں ملک رسمی ملاقات کے ذریعے فوری طور پر تصادم کی موجودہ کیفیت کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ مستقبل میں ٹھوس اور جامع مذاکرات کی راہ ہموار ہو سکے۔

اب پوری دنیا میں کشمیری قوم نے ثابت کردیا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ ہیں۔اورپاکستانیوں نے یوم آزادی کشمیریوں کے نام کرکے دنیا کو بتادیا کہ’’ کشمیرہمارا کشمیرہمارا ‘‘ انشاء اللہ جلد مقبوضہ کشمیر آزاد ہوکر پاکستان بنائے گا۔

Ghulam Murtaza Bajwa

Ghulam Murtaza Bajwa

تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ