تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
کراچی میں لسانیت، برادری ازم کی زہریلی فصل تیار ہو چکی اب آپ لاکھ کہیں کہ یہ ناسور نہیں ہے مگر وہ تو ہے کہ حقیقت کو کبھی چھپایا نہیں جا سکتا بنگلہ بدھو شیخب مجیب کو جب بھارت کی امداد پر اگرتلا سازش کیس میں گرفتار کیا گیاتو اسی وقت ملک دشمن سانپ کا سر کچل ڈالنا چاہیے تھا مگر ہمارے نام نہاد سیاستدانوں نے ایوب خاں کے ساتھ گول میز کانفرنس میں جہاں دیگر مطالبات پیش کیے وہیں مجیب الرحمٰن کی رہائی اور اس مقدمہ کی واپسی کامطالبہ بھی سر فہرست تھاایوب خان نے حب الوطنی کے تقاضوں کے تحت سیاسی لیڈر شپ سے گذارش کی تھی کہ مجھ سے یہ غلطی نہ کروائیں ہمیں بالآخر پچھتانا پڑے گا مجیب کو رہائی کیا ملی پاکستان کو توڑنے کی بنیادیں کُھد گئیں۔
70کے انتخابات میں مجیب نے کسی دوسری سیاسی پارٹی کو جلسہ تک نہ کرنے دیا حتیٰ کے مولانا مودودی کاجلسہ بھی اکھاڑ پھینکا اور مسلح غنڈوں نے اسلامی چھاترو شنگھو کے کارکنان کا ڈھاکہ یونیورسٹی میں قتل عام شروع کردیا سانپ کو پکڑ کر چھوڑ دیا جائے گا تو وہ خطر ناک اژدھا بن کر زیادہ ہلاکتیں کرتا ہے جب واضح ملک دشمنی کی سازش پکڑی گئی تھی تو”برائی کی جڑ کو شروع ہی میں گہرا دبا ڈالو”کا فارمولا استعمال کیا جانا چاہیے تھا بعد میں کیا ہوا پوری دنیا جانتی ہے۔بھارتی فوجیں مجیب کی امداد کے لیے بین الاقوامی سرحدیں عبور کرکے مشرقی پاکستان میں داخل ہوگئیں اور ہماری مسلح افواج کے93ہزارسپاہی ہتھیار ڈال کر بھارتی قیدی بن گئے۔
پاکستانیو! خدا کی قسم یہاں بھی ویسا ہی معاملہ در پیش ہے ایوب خاں نے جب دھاندلی کے ذریعے جعلی صدارتی انتخاب میں محترمہ فاطمہ جناح کو ہراڈالا تھا تو ایوب کے شہزادے گوہر ایوب نے کراچی میں ہار جانا قبول نہ کیا اور فتح کا جلوس نکال کر لسانیت اور برادری ازم کی مکروہ بنیادوں پر دہشت گردی کرکے مخالفین کا قتل عام کروایا۔لسانی بنیادوں پر کئی بارکراچی کو علیحدہ صوبہ اور سندھو دیش بنانے کی آوازیں بھی اٹھتی رہتی ہیں۔ اور مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کی طرح آبادی کے تناسب سے کراچی اور سندھ کے دیگر شہروں کو مناسب حقوق اور ملازمتوں کا کوٹہ واقعی کئی سالوں سے نہیں دیا جارہا تھا۔جب مہاجر فیکٹر کو سالوں قبل الطاف حسین نے ہائی لائٹ کیا تو پی پی پی ،جماعت اسلامی ،جے یو پی نورانی تک کے مہاجر بھی ٹوٹ کر ایم کیو ایم کی صفوں میں گھستے چلے گئے اب کہا تو یہی جاتا ہے اور اصلیت بھی یہی ہے کہ الطاف لندن سے بیٹھا تخریب کاریاں کروارہا ہے بھتہ خور ،قاتل ودہشت گرد اس کی آبرو کے اشارے پر ناچتے ہیں وہ جیسا بھی حکم بھیجتا ہے یہاں من و عن عمل کرنا اس کی برادری اشد ضروری خیال کرتی ہے الطاف حسین نہ بھی ہو تو مہاجر فیکٹر جو اکٹھا ہوا ہے اس میں دراڑیں ڈالنا محال ہے۔
بیورو کریسی نے مشرقی پاکستان کی طرح یہاںبھی وقت کٹائی کا کام کیا ہے شہریوں کے مطالبات اور حقوق پر توجہ دی ہے اور نہ ہی کوئی ٹھوس حل نکالا ہے۔جب گوہرایوب فتح کے خمار میں بدمست ہو کر قتل عام کروارہا تھا تو اسے کیوں نتھ نہیں ڈالی گئی پھر دوران طالب علمی کراچی یونیورسٹی میںخالص لسانیت کی بنیاد پر طلباء تنظیم بنی جب مہاجروں نے محسوس کیا کہ انھیں ان کے حقوق واقعی نہیں مل رہے تو وہ جلے بھنے تو بیٹھے ہی تھے اس وقت الطاف کی جگہ کوئی دوسرا نعرہ زن ہو جاتا تو یہ قوم اس کے گرد اکٹھی ہوجاتی۔اب بیورو کریسی نے برادری ازم کے اس ناسور کو ختم کرنے کی پہلے بھی کوششیں کیں۔ مگر سارے وہ پولیس کے اور دیگر ذمہ دار ملازمین جنہوں نے اس کمپین میں حصہ لیا وہ سبھی بعد ازاں چن چن کر قتل کرڈالے گئے۔حکمرانوں نے کوئی ایکشن نہ لیا اور سیاستدان تو بیان بازیاں اور مذمت کرناہی جانتے ہیںاب لندن سے زبانی نام نہاد حکم جاری ہوا کہ فلاں فلاں میڈیا ہائوسز کو تہس نہس کردیا جائے تو گھڑے کی مچھلیوں کی طر ح کارکنوں نے تو یہی کرنا تھا سوال یہ ہے کہ میڈیا ہائوسز کے خلاف اعلان جنگ ہو جانے کے بعد کیوں نہ حفاظتی مؤثر اقدامات کیے گئے۔
سانپ گزر گیا تو لکیر کو پیٹا کراب مرکز نائن زیرو سیل ہو گیا کیوں نہ ایسا یا کوئی متبادل حفاظتی قدم پہلے اٹھایا گیا۔لندن سے پاکستان کو گالیاں دی گئیں ،پھر معذرت کی اور اگلے دن امریکہ، بھارت ،اسرائیل اور برطانیہ سے پاکستان کو تباہ کرڈالنے کے لیے مدد مانگ لی۔ہماری بیورو کریٹک کمزوریوں اور کوتاہیوں پر بھی تو سزا تجویز کی جانی چاہیے وقت تیزی سے گزررہا ہے جلدلسانی زہریلی فصل کو مکمل بلڈوز کرڈالیں تو امن وامان قائم ہو سکتا ہے۔ہم اب تو پاکستان کے خلاف غلیظ ترین ہرزہ سرائیوں کا توڑ کرسکتے ہیں۔
اگر اس سے بڑ ا ملک دشمنانہ اور سا لمیت کے خلاف لندن سے احمقانہ نعرہ لگ گیا تو آپ کیا کریں گے؟کس کس گھر سے جھنڈا تاریں گے را مکمل پشت پنا ہ اور فنڈنگ کر رہی ہے باقی اسلام دشمن ممالک سے امداد طلب کی جارہی ہے شہیدوں کے خاندان کے محب وطن و دلیر ثپوت جنرل راحیل شریف خود اس کیس کی مکمل گہرائی سے غورو غوض فرمائیں اور کوئی مؤثر حکمت عملی اپنائیں آخر اندرا گاندھی کے کہنے پر اس وقت کے حکمرانوں نے اصل خالصتان تحریک کے مسلح افراد کی لسٹیں بھارت کو مہیا کر کے تمام ہی کو نہ ختم کرواڈالا تھا؟ اب کیا مسلح نام نہاد سیاسی دہشت گردوں کی لسٹیں دستیاب نہ ہیں ضرور ہوں گی مگررا کے واضح ایجنٹوں کے خلاف مؤثر کاروائی کرنے کی بجائے ٹک ٹک دیدم والی کیفیت کیوں ہے؟اور تجھے پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو کے مصداق حکمران اپنی کرسی بچائو مہم میں محو ہیں۔
مودی کی دوستی اور محبت بھی آڑے آرہی ہے اور جب میاں صاحب کو قومی اسمبلی میں مکمل اکثریت حاصل تھی تو انہوں نے “اپنے پرانے گناہ”کی معافی تلافی کے لیے نائن زیرو کو 20کروڑ کا تاوان ادا فرمایااورمشرف نے تواین آر ا و کے ذریعے الطاف حسین پر قتلوں کے 27مقدمات بھی معاف کرڈالے۔اور لندن میں موجود ” پیر صاحب ” کی قدم بوسی کے لیے سبھی حکمرانی و اپوزیشنی لیڈر جاتے رہتے ہیں ان حالات میں پوری قوم دعا گو ہے کہ خداپاکستان کو اپنے حفظ وآمان میں رکھے اور ملک ودین دشمنوں کے سبھی ارادوں کو خاک میں ملا ڈالے۔
تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری