تحریر : شاہد شکیل
طبی زبان میں بلڈ پوائزننگ میں مبتلا بیماری کو سپیسیس کہا جاتا ہے یہ بیماری ہمیشہ جسم کے اندرونی اور بیرونی مختلف حصوں میں ہزاروں اقسام کے جراثیم میں سے کسی ایک کے منتقل ہونے سے انفیکشن کی صورت میں پھیلتی ہے مثلاً ٹانگوں میں تکلیف ،دانتوں اور مسوڑھوں یا پھیپھڑوں میں معمولی تکلیف سے شروع ہوتی اور بعد ازاں انفیکشن سے رفتہ رفتہ سارے جسم کے خون میں پھیلنے سے ایک مہلک زہر بن جاتی ہے جس سے تمام جسمانی اعضاء انفیکشن میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور انسان بلڈ پوائزن کا شکار ہو جاتا ہے۔عام حالات میں انسانی جسم خطرناک حالات کا سامنا کرنے اور حکمت عملی کیلئے تیار رہتا ہے تاہم کبھی کبھی دفاعی اقدامات کے باوجود مہلک اور خطرناک جراثیم پر قابو پانے میں ناکام ہو جاتا ہے کیونکہ وہ وسیع پیمانے پر بہت بڑا ہونے کے ساتھ اتنا نقصان دہ ہوتے ہیں کہ جہاں کوئی حکمت عملی یا دفاعی اقدامات کارآمد ثابت نہیں ہوتے۔
حتیٰ کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی انسان بلڈ پوائزن جیسی خطرناک بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے اور کوئی میڈیسن کارگر ثابت نہیں ہوتی۔بلڈ پوائزن کی ابتداء عام طور پر جسم میں انفیکشن ہونے سے ہوتی ہے جس سے انسان کا رد عمل اشتعال انگیز ہوتا ہے کیونکہ جراثیم اس قدر طاقت ور اور پیچیدہ ہوتے ہیں جو جسم کے اورگان میں پھیلنے اور بعد ازاں ایسے تکلیف دہ اثرات چھوڑتے ہیں کہ انسان موت کی خواہش رکھتا ہے ان کی چند مندرجہ ذیل نشانیاں ہیں جو جسم کے مختلف حصوں اور خلیات میں شامل ہو کر سوزش،سرخی ، سوجن اور شدید تکلیف وغیرہ میں مبتلا کرتی ہیں۔
انفیکشن کی صورت میں ممکنہ طور پر جسم میں کمزوری محسوس ہوتی ہے کیونکہ جراثیم جارحانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے اور مختلف خلیات میں اپنی جگہ بنانے کی جد وجہد کرتے ہیں جس سے انسان شدید کوفت محسوس کرتے ہوئے الجھن اور پریشانی میں مبتلا رہتا ہے اور عام طور پر آکسیجن کی کمی محسوس کرتا ہے جراثیم کے پھیلنے سے انسان کی صحت اور اعضاء جتنی تیزی سے متاثر ہوتے ہیں اتنا ہی انسانی جسم حرکات وسکنات سے محروم ہوتا ہے اور تکلیف برداشت نہیں کر سکتا،بلڈ پوائزن کے شکار افراد کی دیگر نشانیوں میں گردوں ، پھیپھڑوں،جگر اور خون کی سرکولیشن کا منفی رد عمل سر فہرست ہیں جسے طبی زبان میں سپیسیس شاک کہا جاتا ہے اور یہ شاک انسان کو موت کے دھانے لا کھڑا کرتا ہے۔
بلڈ پوائزن یعنی سپیسیس بریسٹ کینسر اور ایڈز سے کم خطرناک ہوتا ہے ایک اندازے کے مطابق اس میں مبتلا افردا کی تعداد ایک تہائی ہے جبکہ بلڈ پوائزن کا موازنہ ہارٹ اٹیک سے کیا جا سکتا ہے اور اس میں مبتلا افراد کی اموات عام طور پر آئی سی یو میں ہوتی ہیں۔بلڈ پوائزن کی علامات کو باآسانی محسوس نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ممکنہ طور پر دیگر کئی بیماریوں کی علامات یا نشانیاں بھی اخذ کی جا سکتی ہیںمثلاً تیز بخار،سردی محسوس کرتے ہوئے جسم کا کانپنا،سانس لینے میں دشواری،دل کی دھڑکن کا تیز ہونا یا بلڈ پریشر کا ہائی ہونا وغیرہ تاہم ظاہری علامات یعنی جسم کے کسی حصے پر انفیکشن کے بعد لالی نمودار ہونا، جلن،سوجن اور شدید درد کے ساتھ سوزش کی صورت میں پھیل جانے سے بلڈ پوائزن کا خدشہ ہوتا ہے۔
خون میں انفیکشن کی نشانی پائی جانے پر سرخ خلیات جم جانے سے ان میں گندگی شامل ہو جاتی ہے جس سے دماغ شدید متاثر ہوتا ہے اور الٹرا ساؤنڈ سے کئی اعضاء مثلاً جگر اور دیگر جسمانی خلیات دکھائی دیتے ہیں،محقیقین کا کہنا ہے فی الحال جینز کی تحقیق جاری ہے اور یہ بھی ریسرچ جاری ہے کہ جراثیم مزید کس قدر خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں تاہم نتائج آنے میں کافی وقت درکار ہوگا۔
بلڈ پوائزن میں مبتلا افراد کا علاج اور تھیراپی آئی سی یو میں ہی کیا جاتا ہے کیونکہ مریض شدید تکلیف سے دوچار ہوتا ہے اور صحت یابی اسی صورت میں ممکن ہوتی ہے کہ اگر بروقت علاج شروع کیا جائے،ابتداء اینٹی بایوٹک سے کی جاتی ہے اور بیماری کی شناخت ہونے پر سب سے پہلے انفیکشن زدہ حصے کو ختم کیا جاتا ہے ساتھ ساتھ یہ بھی کوشش کی جاتی ہے کہ مریض شاک سے باہر آئے اور سب سے اہم بات کہ اسکے اعضاء متاثر نہ ہوں اس سلسلے میں انسولین تھیراپی ، مصنوعی سانس ،گردوں کی تبدیلی ،مصنوعی اور مخصوص غذا کے علاوہ دیگر طبی امداد دی جاتی ہے ،موجودہ دور میں طب نے کافی ترقی کی ہے جس سے مریض کا مدافعتی عمل مضبوط رہتا ہے اور اموات کی شرح میں کمی واقع ہوئی ہے۔
تحریر : شاہد شکیل