تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
دنیا بھر سے آئے ہو ئے شمع رسالت کے پروانے سر جھکا ئے چہروں پر عقیدت و احترا م کے چاند روشن کئے ہو ئے دیوانہ وار روضہ رسول ۖ کی طرف بڑھ رہے تھے میں بھی دیوانوں کے اِس قافلے میں شامل ہو نے کا سوچ رہا تھا میں کئی بار کو شش کر چکا تھا جب بھی میں روضہ رسول ۖ کی طرف جا نے والے قافلہ شوق میں شامل ہو نے کا ارادہ کر تا تو اپنی حماقتیں کو تاہیوں گناہ ، سیا ہ کا ریا ں ، نا فرمانیاں دنیا داریاں جسم و روح میں پھیلے ہوئے نفرت ،غصہ تکبر ، لالچ ، غرور خو دپسندی ظلم جہالت دنیا پرستی ، شہوت ما دیت پرستی شہرت پسندی کے زہریلے ما دے پا ئوں میں زنجیر بن کر پلٹ جا تے مجھے اپنی ذات کے کمزور اور گناہ آلودہ زاوئیے نظر آنا شروع ہو جاتے میرے گناہ اور سیا ہ کا ریاں میرے سامنے آکر مجھے میرا چہرہ دکھا ئیں تو میں رک جا تا اور سو چتا کہ کیا میں اِس قابل ہوں کہ سرتاج الانبیاء ۖ نسلِ انسانی کے سب سے بڑے مسیحا کے دربار میں پیش ہو سکوں۔
کیونکہ یہ اٹل حقیقت ہے کہ بچپن سے لے آکر آج تک میں بے شمار نیک متقی لوگوں سے ملا ہوں جن کی راتیں اور دن سید الانبیا ء ۖ کی سنت میں رنگے نظر آتے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کے تمام مشاغل کو سنت ِ نبوی ۖ میں ڈھالا ہوا ہے پیا رے آقا ۖ کا نام آتے ہی جن کی آنکھیں عقیدت سے چھلک جا تی ہے جن کے جسم کا انگ انگ عا جزی اور عشقِ رسول ۖ کی تصویر بن جا تا ہے جن کو دیکھ کر اللہ اور اُس کے محبوب کی یاد آجاتی ہو جن کی کبھی کو ئی نماز یا تہجد نہ چھوٹی ہو جن کا وجود اہل معاشرہ کے لیے با عث برکت ہو جن کی جبینوں پر لاکھوں سجدوں کے نشان ہوں اور لاکھوں سجدے تڑپ رہے ہوں۔
جنہوں نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ سنت نبوی ۖ کے مطابق گزارا ہو جنہیں ما دیت پر ستی چھو کر نہ گزری ہو جو سانسوں کی مالاپر سرور کو نین ۖ کا نام جپتے ہوں جن کی صبحیں راتیں سرور دو جہاں ۖ کی محبت میں گزرتی ہوں۔ جن کی ترجیح اول ہی آقا پا ک ۖ کی خشنودی اور روضہ رسول ۖ پر حاضر ی ہو جنہوں نے زندگی کا مقصد ہی سنتِ نبوی ۖ پر عمل کو بنا لیا ہو ۔ جنہیں مدینہ منورہ اور روضہ رسول ۖ پر حاضری نے علا وہ اور کچھ نظر نہ آتا ہو جو ہر حج اور عمرے پر جا نے والے کے ہا تھ اپنا عقیدت بھرا سلام اور حا ضری کی تمنا کی درخواست بھیجتے ہوں جن کی ہر دعا اور سجدے میں روضہ رسول ۖ کی حاضری تمنا ہو تی ہو ۔ جو روزانہ ہزاروں درود سلام کے ہدیے با رگاہ رسالت میں بھیجتے ہوں ۔جو کروڑوں بار درود شریف آقا ۖ کی با رگاہ میں بھیج چکے ہوں جن کی زبان درود شریف کے علاوہ کسی اور کلمے یا ذکر سے آشنا ہی نہ ہو۔
جو میلاد شریف کے موقع پر اپنے گھروں مسجدوں گلیوں بازاروں شہروں کو آقا ۖ کی آمد کی خو شی میں بھر پور طریقے سے سجا تے اور منا تے ہوں جہاں شاہ ِ مدینہ ۖ نام آیاوہاں دیوانوں نے عقیدت سے سرجھکایا ۔ جو ہر نماز کے بعد آقا ۖ کی با رگاہ میں نوافل کا ہدیہ بھیجتے ہوں جنہیں ھا دی دو جہاں محبوب خدا ۖ کے علا وہ دنیا کی کسی چیز یا رشتے سے محبت نہ ہوجنہوں نے مدینہ شریف کی طرف کبھی ٹا نگیں نہ کی ہوں کبھی مدینہ کی طرح منہ کر کے کو ئی غلطی یا گستا خی نہ کی ہو جو مدینہ سے آنے والی ہوائوں کو عقیدت و احترام سے چومتے ہوں ۔ جو سیرت النبی ۖ کی کتا بوں کو عقیدت سے پڑھتے اور بار بار چومتے ہوں جو ہر وقت اِس ٹو ہ میں رہتے ہوں کہ ہر قدم اور زندگی کے معمولات پیا رے آقا ۖ کس طرح گزارتے تھے بعد وہ خو د بھی پیا رے آقا ئے دو جہاں ۖ کے مطابق زندگی کے ہر معاملے کو گزارنے کی کو شش کر تے ہوں جنہوں نے کروڑوں درود و سلام کے ہدیے پیا رے آقا ۖ کی زیارت کے لیے با رگاہ نبوت ۖ میں پیش کئے جنہوں نے اپنے وجود اور اپنے گھروں میں آقا ۖ کے رنگ کو غالب کیا ہوا ہو۔
جنہیں دیکھ کر سرور دو عالم ۖ کی یا د آتی ہو جو سرور کو نین ۖ کی حرمت کے لیے ہر لمحہ اپنی زندگی نثار کر نے کو تیا ر رہتے ہوں بلکہ حرمت رسول ۖ پر اپنی زندگی قربان کرنے کو سعادت عظیم سمجھتے ہوں ۔ جو میلاد شریف اور نعت شریف کی محافل میں سینکڑوں میل کا سفر کرکے عقیدت کے پھول چننے آتے ہوں جنہوں نے زندگی کی گرم سرد مشکلات میں کسی بھی لمحے سرتاج الانبیاء ۖ سے رشتے کو کمزور نہ ہو نے دیا ہو جنہوں نے ہر حال میں آقا ۖ کی خو شی اور خوشنودی کو ہی ترجیح اول رکھا ہو ۔ جنہوں نے ساری عمر محنت مزدوری کر کے حلال کما ئی اِس لیے کی ہو کہ روضہ رسول ۖ پر حاضری دے سکیں جنہوں نے کبھی اپنی کما ئی میں حرام کی آمیزش نہ ہو ئے دی ہو کہ کہیں با رگاہ رسالت میں حاضری کے وقت دھتکار نہ دیا جا ئے حرام کمائی کی آمیزش کہیں بلا وے میں رکا وٹ نہ بن جا ئے جنہوں نے ساری زندگی آقا کی عقیدت و محبت میں پل صراط پر گزاری ہو جن کا اوڑھنا بچھونا ہی سنت نبوی ۖ پر عمل اور آقا کی محبت ہو۔
ایسے لا کھوں عاشقا ن رسول ۖ جنہوں نے دن رات شاہِ مدینہ ۖ کے دربا ر میں حاضری کی دعائیں اور کششیں کی ہوں لیکن اُن کو بلا وا نہ آیا، اُن کی آنکھوں سے دربارِ مدینہ ۖ میں حاضری کی آبشار ابھی بھی تمنا بن کر اُبل رہی ہو اُن کا بلا وا بھی ا بھی نہ آیا، لیکن میرے جیسا گنا ہ گا ر سیاہ کار مسجد نبوی ۖ کے نرم گداز قالین پر بیٹھا اپنی قسمت پر رشک کر رہا تھا میں نے اپنی سابقہ زندگی پر نظر دوڑائی تو ایک بھی ایسی نیکی نظر نہ آئی جس کی قبو لیت پر میں یہاں آتا، نظر آئے تو گنا ہ اور سیا ہ کا ریاں پھر مجھے اپنے محروم والد صاحب اور والدہ صاحبہ یا د آئے شاید اُن کی کسی دعا کے صدقے میں یہاں آیا بیٹھا تھا یا برسوں اہل حق کی تلاش میں صحرا گر دی کر تے ہو ئے شاید کسی نیک بزرگ کی دعا کام آگئی جو میرے جیسا گنا ہ گا ر کر ہ ارض کے بہترین اور نیک لوگوں کے درمیان مسجد نبوی ۖ کے صحن میںرشک بھری نظروں سے عاشقانِ رسول ۖ کو دیکھ رہا تھا جن کے لبوں پر درود و سلام کی صدائیں تھیں اور اُن کے چہرے عشقِ رسول ۖ کی آنچ سے چمک رہے تھے۔
میں جب بھی روضہ رسول ۖ کی طرف جا نے کی کو شش کر تا تو اپنے ہی عرق ندامت میں غرق ہو جا تا پھر اچانک مجھے فتح مکہ کا دن یا د آیا جو بلا شبہ تا ریخ انسانی کا سب سے بڑا واقعہ ہے اُس دن قریش مکہ جنہوں نے ساری عمر آپ ۖ پر مظالم کے پہا ڑ تو ڑے ظلم و ستم اتنا زیا دہ کیا کہ شہنشاہِ دو عالم ۖ کو مجبو را ً مکہ چھو ڑنا پڑا اور پھر فتح مکہ کا دن آیا اور آپ ۖ فاتح بن کر مکہ شریف میں داخل ہو ئے تو قریش مکہ سر جھکائے مجرموں کی طرح اپنی اپنی سزا سننے کے لیے تیار کھڑے تھے تو محسنِ انسانیت سے دلنواز شفیق تبسم سے کہا جا ئو میں نے تم سب کو معاف کیا اِس احساس نے اچانک مجھے نئی امید اور زندگی بخشی ۔ شاہِ مدینہ ۖ کی تو یہ شان عظیم ہے کہ آپ ۖ نے ہمیشہ گنا ہ گا روں سیا کاروں کو اپنے سا یہ رحمت میں پنا ہ دی نبی رحمت ۖ کی شان رحمت سے مجھے بھی حو صلہ ہوا اوراب میں بھی شمع رسالت ۖ کے پروانوں کے قافلے میں شامل ہو نے کے لیے چل پڑا تو اچانک میری نظر پنجاب کے دور دراز کے گائوں سے آنے والے اُس بو ڑھے پا کستانی پر پڑی اِس سادہ دیہاتی بزرگ سے میری پہلی ملا قات پا کستان سے آتے ہو ئے جہاز میں ہو ئی تھی۔
سعودیہ ائر لا ئن کے دیو ہیکل طیا رے میں جب بزرگ آکر کھڑا ہوگیا بہت حیران پریشان پہلی بار جہاز پر سفر کر رہا تھا اور پنجا بی زبان میں کہہ رہا تھا میں کتھے جا واں ( میں کدھر جا ئو ) پھر ہوا ئی میزبان نے اُنکی ٹکٹ کو دیکھ کر میرے ساتھ والی سیٹ پر لا کر بٹھا دیا بو ڑھے بابا جی بلکل ان پڑھ تھے اُن کی فصل اچھی ہو ئی تھی تو وہ عمرے پر پہلی با ر جا رہے تھے ۔ میں نے سارے راستے اُن کی مدد اور راہنما ئی کر کے اپنی آخرت سیدھی کر نے کی کو شش کی سارے راستے میں بابا جی سے باتیں کر تا آیا جس سے اُن کا خو ف دور ہو گیا جدہ ائر پو رٹ پر با با جی سے جدا ہو گیا آج مسجد نبوی ۖ میں اُن کو دیکھا تو لپک کر اُن کی طرف گیا وہ یہاں بھی بے یار و مدد گار حیران پریشان پھر رہے تھے مجھے دیکھ کر اُن کی آنکھوں میں آشنائی کی چمک گہری ہو گئی بہت خوش ہو ئے وہ ریا ض الجنہ کی تلاش میں تھے میں با با جی کا ہا تھ پکڑا اور ریا ض الجنہ کی طرف بڑھنے لگا۔
آخر کار ہم ریا ض الجنہ کے پا س آگئے رش بہت تھا ہم بھی لا ئن میں لگ گئے لو گ دیوانہ وار ریا ض الجنہ میں نوا فل ادا کر رہے تھے یہاں پر لوگوں میں افراتفری اور جلد بازی اور اپنی اپنی پڑی ہو ئی تھی آخر کار ہما ری با ری بھی آگئی تو میں نے بابا جی کو آگے کیا تا کہ وہ ریا ض الجنہ میں نوا فل ادا کر سکیں بابا جی لرزتے قدموں سے ریاض الجنہ میں اُترے اور نوافل کے لیے کھڑے ہو گئے۔
تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
فون: 03004352956