تحریر : اختر سردار چودھری
حجاب کا مطلب کیا ہے ؟ عربی زبان میں ،حجاب ،کا لفظ ،پردہ، اور ،لباس ،کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے ۔ مروّج، جدید عربی میں اس لفظ کا مطلب مسلمان خواتین کا سکارف ہے یاحجاب جو عورت کا حسن اور بد صورتی دونوں کو چھپا کرتحفظ فراہم کرتا ہے حضور ۖ نے فرمایا کہ دین اسلام کا امتیازی وصف حیاء ہے ،دوپٹہ عورت کی عزت ہے، عورت جب ا س کو اپنے سر سے اتار دے گی تو پھر کوئی مرد اسے عزت کی نگاہ سے کیسے دیکھے گا،یہ بات بھی ہمیں سمجھ لینی چاہئے کہ قرآن و حدیث کی اصطلاح میں حیاء کا مفہوم بہت و سیع ہے، حضور ۖ نے فرمایا کہ” ایمان و حیاء لازم و ملزوم ہیں، ان میں سے اگر ایک بھی اٹھ جائے تو دوسرا خود بخود اٹھ جاتا ہے۔حجاب مسلم معاشرے میں پاکیزگی، فروغ اور حیاء و تقدس کے تحفظ کا ذریعہ ہے ا سلام نے حقیقت میں عورت کو نگینے اور آبگینے جیسی حساس اور نازک طبع اور قیمتی چیز سے تشبیہ دی ہے حجاب کے احکامات عورت کے لئے تحفہ کادرجہ رکھتے ہیں۔
حجاب کے بارے میں کئی ایک نقطہ نظرسامنے آتے ہیں ۔کچھ اس کے حق میں کچھ مخالف ہیں ۔کچھ لوگ حجا ب کو روایت سمجھ کر اس کی مخالفت کر تے ہیں ۔یعنی دین اسلام کا حکم نہیں سمجھتے۔اور کچھ اسے دین اسلام کا حکم سمجھ کر مخالفت کرتے ہیں کچھ اسے خواتین پر پابندی قرار دیتے ہیں ،کچھ اسے عورت کی حفاظت سمجھتے ہیں ۔ ہر سال 4 ستمبر کو حجاب کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔یہ دن 4 ستمبر 2004 ء کو فرانس میں حجاب پر پابندی کے قانون کی منظوری کے بعد سے منایا جاتا ہے ، سب سے پہلے اسے منانے کا آغاز بھی فرانس سے ہوا ۔ بعد میں کینیڈا کی یونیورسٹیوں میں بھی اس دن کو منایا جانے لگا ۔ فرانس اور کینیڈا کے بعد اب چار ستمبر کو عالمی سطح پر حجاب کا دن منایا جاتا ہے حجاب کا عالمی دن منانے کا مقصد اس کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش ہے۔
حجاب کے بارے میں مزید کچھ لکھنے سے پہلے دو خواتین کا تعارف ضروری ہے جنہوں نے حجاب کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں ان میں سے بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والی ناظمہ خان نے سوشل میڈیا پر حجاب تحریک شروع کی ۔دیکھتے ہی دیکھتے اس تحریک نے دنیا بھر کی خواتین کو متاثر کیا ناظمہ خان نے بتایا کہ جب وہ نیویارک کے سکول میں پڑھتی تھیں تو انہیں ‘حجابی لڑکی’ کہا جاتا تھا،جب وہ مڈل سکول میں تھیں تو انہیں ‘بیٹ مین’ یا ‘ننجا’ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ناظمہ خان نے بتایا کہ گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کے بعد جب وہ کالج پہنچیں تو انہیں ‘اسامہ بن لادن’ یا ‘دہشت گرد’ کہا جاتا تھا۔اب ان کی تحریک میں لاکھوں خواتین اس کا ساتھ دے رہی ہیں ۔اس کے علاوہ دوسری خواتین ہے مروہ شہیدجب بھی حجاب کا ذکر آئے گا تو شہیدالحجاب کا ذکر ہوتا رہے گا۔
نام تھا مروہ الشر بینی تعلق مصر سے مسلمان شادی شدہ شعبہ طب سے وابستہ بتیس سالہ خا تون شوہرایلوے علی اوکاز اور تین سالہ بیٹامصطفیٰ ،جرمنی میں مقیم تھیں ۔حجاب پہن کر گھر سے نکلتی تھیں ۔ان کا پڑوسی روسی نزاد ایلکس اسلام دشمن جنو نی وہ انہیں حجاب کے ساتھ رہنے پر اکثر سخت الفا ظ میں طنزیہ جملے کستا، تنگ آکر مروہ الشر بینی نے قا نون کی مدد چا ہی مروہ کی شکایت پر ایلکس پر جرمانہ کیا گیا ،یکم جولا ئی 2009ء کو عدالت میں مقدمہ کے دوران دونوں کا آمنا سا منا ہوا تو ایلکس نے بھری عدالت میں مروہ پر تیز دھار چا قو سے حملہ کر دیا ِ” تم کو جینے کا کوئی حق نہیں ِ”تین ماہ سے حاملہ مروہ الشربینی اسلام دشمن نفر ت اورتعصب کی بھینٹ چڑھ گئی اس کا جرم اسکارف پہننا تھا ۔ اس بیٹی کو عالم اسلام نے ( شہیدہ الحجاب ) کے خطاب سے نوازا۔
گزشتہ چند سالوں سے سے خواتین میں حجاب اور عبائیہ پہنے کا روحجان زیادہ نظر آرہا ہے، اس حوالے سے پردے والی خواتین ہی نہیں بلکہ اکثر خواتین شوقیہ پہنے ہوئے بھی نظر آتی ہیں۔مغربی ممالک میں حجاب کو اسلامی ثقافت سمجھ کر اس پر تنقید کی جاتی ہے ۔وہاں مسلمان خواتین کے لیے تعلیم اور ملازمت کے لیے حجاب پہن کر جانا مشکلات پیدا کرتا ہے ۔مغربی ممالک میں فرانس پہلا متعصب ملک ہے، جس نے مسلم خواتین کو گھر سے با ہر حجاب پہن کر نکلنے پر پا بندی عا ئد کر دی ہے۔ جرمانے کے ساتھ سات دن قید کی سزاکا بھی قانون نافذ کر دیا ہے۔ دراصل یہ مغرب میں اسلام کی روز بہ روز بڑھتی مقبولیت کا راستہ روکنے کی ناکام کوششیں ہیں۔ فر انس کی پیروی کر تے ہو ئے بیلجیم میں بھی مسلما ن خواتین سے یہی سلو ک روا رکھنا شروع ہوا ۔ان کے بعد ہالینڈ میں بھی برقع پہننے پر پابندی کا اعلان کردیاگیا ہے۔
ہالینڈ کے وزیراعظم میکسین کا کہنا ہے کہ آئندہ سال سے برقع، نقاب یا حجاب اورایسے ملبوسات جن سے چہرہ نظر نہ آئے ، کے پہننے پر مکمل پابندی ہوگی ۔اس سے پہلے آسٹریلیا میں بھی حجاب پر پابندی ہے ۔اور اس شر میں خیر کی خبر یہ ہے کہ جہاں جہاںحجاب کو ہدف تنقید بنایاجا رہا ہے پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں وہاں کی خواتین میں اسلام اورحجاب کی مقبولیت بڑھتی جارہی ہے ۔بہت سی غیر مسلم خواتین نے بھی حجاب پہننا شروع کر دیا ہے گزشتہ سال اخبارات میںجب یہ خبر پڑھی تو حیرت ،صدمہ ،دکھ ہوا کہ جس ملک کو حاصل ہی اسلام کے نفاذ کے لیے کیا گیا ہے ۔یعنی پاکستان اس ملک کے ایک کالج اور وہ بھی گورنمنٹ کالج میں ایک لڑکی کو اس لیے داخلہ نہیں دیا گیا کہ وہ حجاب پہنتی ہے ۔آخر وہ ہائیکورٹ چلی گئی اور لاہورہائیکورٹ نے حجاب پہننے والی طالبہ کو داخلہ نہ دینے پر گورنمنٹ کالج، وفاقی اور صوبائی حکومت سے جواب طلب کرلیا۔لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس اعجاز الحسن کے رو برو درخواست گزار طالبہ مہرین نے موقف اختیار کیا کہ نقاب پہنے کی بنیاد پر گورنمنٹ کالج میں داخلہ نہیں دیا جا رہا۔
ڈاکٹر سمعیہ قاضی نے اس با رے میں خوبصورت با ت کہی ہے کہ بے حجابی شیطان کی اولین چا ل تھی جس میں اس نے حضرت آدم کو گرفتا ر کیا اور آج تک اس کی کوشش ہے کہ ابن آدم کوگمراہ کر کے اس کے لباس سے محروم کردیا۔ایسے لوگوں پر غفلت کا حجاب ہے جو عورت کی آزادی کو بہانہ بنا کر بقول جون ایلیاء عورت تک پہنچنا چاہتے ہیں ،مزے کی بات ہے کہ بہت کم ایسے ہیں جو ایسا ماں ،بہن ،بیٹی کے لیے بھی آزادی چاہتے ہوں ۔لیکن کمی ایسے افراد کی بھی نہیں ہے حجاب عورت کی عزت وناموس کی حفاظت کی علامت ہے ۔اس پابندی میں وہ مردوں کی ہوس بھری نظروں سے بچ جاتی ہے ۔قرآن میں حجاب کے متعلق اللہ تعالی فرماتا ہے ۔” اورمومن عورتوں سے بھی کہہ دو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم و حیا کی حفاطت کیا کریں اوراپنی آرائش کو ظاہر نہ ہونے دیا کریں، مگر جو خود نمایاں ہو رہا ہو۔
اپنے سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھے رہا کریں اور اپنے شوہر اور باپ اور سسر ا ور بیٹوں اور شوہر کے بیٹوں، اور اپنے بھائیوں اور بھتیجوں اور بھانجوں اور اپنی ہی قسم کی عورتوں اور کنیزوں اور غلاموں، نیز اْن خدّام کے سوا جو عورتوں کی خواہش نہ رکھیں، یا ایسے لڑکوں کے سوا، جو عورتوں کے پردے کی چیزوں سے واقف نہ ہوں، کسی اَور پر اپنی زینت اور آرائش کو ظاہر نہ ہونے دیں ۔ اور اپنے پاؤں کو زمین پر اِس طرح نہ ماریں کہ ان کا پوشیدہ زیور معلوم ہوجائے ۔ اے مومنو! تم سب اللہ کے آگے توبہ کرو، تاکہ فلاح پاؤ۔” ( سوةنور)اے نبی ،اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہلِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادر کے پلّو لٹکا لیا کریں ۔یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تا کہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں اور اللہ معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے ۔” ( سو رةاحزاب)۔
”مسلم خواتین، پردہ اور جنس” کے موضوع پر اپنے آرٹیکل میں ناومی والف نے اہل مغرب کو مشورہ دیا ہے کہ مسلم اقدار کو دیانت داری کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کریں، پردے کا مطلب عورت کو دباکر رکھنا ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ ”پبلک بمقابلہ پرائیویٹ” کا معاملہ ہے ۔ مغرب نے عورت کو آزاد چھوڑ کر ایک طرح سے جنسِ بازار بناکر رکھ دیا ہے ، جب کہ اسلام عورت کے حسن اور اس کی جنس کو صرف اْسی مرد کے لیے مخصوص کردیتا ہے ، جس کے ساتھ مذہب کے رسوم ورواج کے مطابق، اس کا زندگی بھر ساتھ رہنا طے پایاجائے۔
تحریر : اختر سردار چودھری