تحریر: مہر بشارت صدیقی
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کی طرف سے نہتے کشمیریوں پر پیلٹ گن فائرنگ اور سینکڑوں کو بصارت سے محروم کرنے پر کڑی تنقید کا نشانہ بناتے لکھا ہے کہ بھارتی فورسز کی طرف سے مظاہرین پر پیلٹ گن استعمال کرنے کے بعد لگتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں آنکھیں بے نور کرنے والی کوئی وباء پھوٹ پڑی ہے۔ 6 جولائی کو کمانڈر برہان وانی کی شہادت کے بعد ہونے والے مظاہروں کے دوران بھارتی سی آر پی ایف فوج اور پولیس کی پیلٹ فائرنگ سے اب تک 570 ایسے افراد سری نگر کے سرکاری ہسپتال میں لائے جا چکے ہیں جن کی پیلٹ کے چھرے لگنے سے ایک یا دونوں آنکھیں بصارت سے محروم ہو چکیں۔
مقبوضہ کشمیر کی گلیوں میں جب بھارتی فوجی گنیں اٹھائے گشت کرتے ہیں’ سرکاری ہسپتال میں شعبہ آپتھمالوجی کے سربراہ اور سینئر آئی سرجن ڈاکٹر ایس نٹراجن پیلٹ کے چھرے لگنے سے زخمی کشمیری نوجوان کی آنکھیں کھول کر نشتر چلاتے ہیں۔ آنکھ کے ڈھیلوں میں پیوست چھرے انتہائی احتیاط کے ساتھ نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ روزانہ چودہ پندرہ ایسے آپریشنز ہوتے ہیں جن میں سے اکثر کی آنکھیں دوبارہ دنیا دیکھنے سے محروم رہ جاتی ہیں۔ ڈاکٹر ایس نٹراجن کہتے ہیں بے نور آنکھوں کی شاید کوئی وباء پھوٹ پڑے۔ بھارتی درندگی دیکھ کر وہ بس اتنا کہہ پاتے ہیں بہت بْرا ہوا کسی کی آنکھ کے گہرے گھائودیکھ کر وہ بھی دل گرفتہ ہو جاتے ہیں۔ 2016ء کو مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بے نور آنکھوں کا سال قرار دیا جا سکتا۔ ایس کے ایم ایس ہسپتال کے ڈاکٹر افروز نے ایک 8 سالہ بچے سے متعلق بتایا کہ وہ پیلٹ کے چھرے لگنے سے بینائی سے محروم ہو گیا۔ یہ بچہ ایک نارمل عمر 60 یا 80 سال تک جئے گا مگر جب تک جئے گا پیلٹ گن کے ظلم کی یاد دلاتا رہے گا۔
رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر کی گلیوں سے اچانک نقاب پوش نوجوان نکل کر جمع ہوتے ہیں۔ آزادی کے حق میں نعرے لگاتے ہیں۔ بھارتی فوج اورپولیس کے آنے پر پتھرائواور جھڑپیں معمول بن گیا ہے۔ کشمیر کی دیواریں ”’بھارتی کتو واپس جائو ہم پاکستان سے محبت کرتے ہیں’ برہان وانی ہمارے دلوں میں زندہ ہے” جیسے نعروں سے بھری پڑی ہیں۔ رپورٹ میں کشمیری مظاہرین کا روز سامنا کرنے والے سی آر پی کے کمانڈنٹ چودھری کی گفتگو بھی شامل کی گئی ہے جو کہتا ہے کہ ان کشمیری نوجوانوں کے چہروں پر ہماری فائرنگ شیلنگ یا لاٹھی چارج کا کوئی خوف نہیں ہوتا۔ اس نے کہا کہ پیلٹ گن ہم مظاہرین پر قابو پانے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
ایک اور درندے بھارتی فوجی افسر راجیش یادیو نے کہا کہ جب تک آپ ان کشمیریوں کو تکلیف نہیں دیں گے’ یہ ہمارا مطلب نہیں سمجھیں گے کہ گھر واپس جائو۔ رپورٹ کے مطابق بھارتی فوجیوں نے پیلٹ گن کے 3 ہزار کارٹریج سے 12 لاکھ چھرے 32 روز کے دوران کشمیریوں پر برسائے اور ان کی آنکھوں کو بے نور جسموں کو چھلنی کر دیا۔ بعض کی جانیں بھی چلی گئیں۔مقبوضہ کشمیرمیں سکھ دانشور سرکل ، شرومنی اکالی دل (امرتسر) ، انٹرنیشنل سکھ فیڈریشن اور سکھ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے لیڈروںمقبوضہ علاقے میں پر امن مظاہرین پر بھارتی فورسز کی طرف سے طاقت کے وحشیانہ استعمال کی شدید مذمت کرتے ہوئے کشمیریوں کے ناقابل تنسیخ حق ، حق خودارادیت کی حمایت کا اعلان کیا ہے ۔ مختلف سکھ تنظیموں کے لیڈروں اور نمائندوں کی بڑی تعداد نے پریس انکلیو سرینگر میں پر امن احتجاجی مظاہرہ کیا اور کشمیریوںکی جاری جدوجہد آزادی کی حمایت کا اعلان کیا۔
مظاہرے کی قیادت نریندر سنگھ خالصہ کر ہے تھے۔ نریندر سنگھ خالصہ نے کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین سید علی گیلانی اور دیگر حریت رہنمائوں میر واعظ عمر فارق اور محمد یاسین ملک کے مشترکہ پروگرام کی حمایت کا بھی اعلان کیا۔ان کا کہنا تھا کہ کشمیریوں کی عوامی تحریک کو دبانے کیلئے طاقت کا بے تحاشہ استعمال قابل مذمت ہے۔ بھارتی حکمران کشمیریوں کی پر عزم جدوجہد کی وجہ سے بوکھلاہٹ کا شکار ہیںاوراب وہ اس جدوجہد کو دبانے کیلئے طاقت کا وحشیانہ استعمال کر رہے ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز نے گزشتہ 27برس کے دوران ہزاروںکشمیریوں کوزیر حراست لاپتہ کیا جن کے اہل خانہ غم والم کی تصویر بنے اپنے پیاروں کی راہ تک رہے ہیںاورانہیں کچھ نہیں بتایا جا رہا کہ آیا وہ زندہ ہیں یا پھر مار دیے گئے ہیں۔
لاپتہ افراد کے عالمی دن کے موقع پر جاری کئے گئے ا عداد و شمار میں انکشاف کیا گیا کہ گزشہ 27برس کے دوران بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں نے مقبوضہ کشمیر میں دس ہزارسے زائد افراد کوحراست کے دوران لاپتہ کردیاہے۔علاقے میں ہزاروں بے نام قبریں دریافت ہوئی ہیں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو خدشہ ہے کہ یہ قبریں لاپتہ افراد کی ہوسکتی ہیں۔ مقبوضہ کشمیرمیں کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو طاقت کے وحشیانہ استعمال کے ذریعے کمزور کرنے کی تمام تر سفاکانہ کوششوں میں ناکامی کے بعد اب بھارتی حکومت بوکھلاہٹ اور گھبراہٹ میں مبتلا ہوچکی ہے ۔ بھارت حریت رہنمائوںاور کارکنوں کے خلاف تعزیراتی اور نفسیاتی کریک ڈاؤن جاری رکھے ہوئے ہے تاکہ حریت قیادت عوامی جذبات واحساسات کی ترجمانی سے دستبردار ہوجائیں اور بھارت کو نہتے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر پردہ ڈالنے کا موقع میسر آئے۔تاہم ایسا ممکن نہیں کیونکہ کشمیری عوام نے بھارت کے جبری تسلط سے مکمل آزادی تک اپنی جدوجہد جاری رکھنے کا عزم کر رکھا ہے۔
عوامی تحریک کو فوجی طاقت کے بل پر کچلنا اور حریت قیادت کے خلاف جاری کریک ڈاؤن اکیسویں صدی کی چنگیزیت ہے۔ ظالمانہ اور جابرانہ ہتھکنڈوں سے مزاحمتی قیادت ہرگز مرعوب اور وہ اپنے حق خودارادیت کے حصول کی تحریک سے دست کش نہیں ہوگی ۔ بھارتی وزارت داخلہ نے بدنامِ زمانہ نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی کوکل جماعتی حریت کانفرنس کے خلاف کریک ڈاؤن پر مامور کررکھا ہے تاکہ معاملات کشمیر سے دلی منتقل ہوں اور حریت قیادت کو خوف زدہ کیا جاسکے ، لیکن بے بدل اور لامثال قربانیوں کی داستان رقم کرنے والی قوم کے قائدین ان جابرانہ حربوں سے ہرگز خائف نہیں ہوں گے۔
حریت قائدین کی بلاجواز گرفتاریوں اور ‘این آئی اے” کے خفیہ ٹھکانوں میں انہیں ذہنی اذیتوں کا نشانہ بناناکشمیر پر بھارتی تسلط کو طول دینے میں اب ہرگزکارگر ثابت نہیںہوگا، کیونکہ کشمیر کی چوتھی نسل کا بچہ بچہ اب لہولہان ہوکر اپنا حق مانگنے سڑکوں پر آچکا ہے اور بھارت تو کیا دنیا کی کوئی بھی طاقت اس طوفان کا سامنا کرنے کی طاقت نہیں رکھتی۔امریکہ میں مقیم کشمیریوں نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کے ہاتھوں بڑے پیمانے پر نہتے کشمیریوں کے قتل عام اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف ایٹلانٹا جارجیہ میں نیشنل سینٹر فار سیول اینڈ ہیومن رائٹس کے باہر خاموش احتجاج کیا۔
احتجاج میں بھارت اور دیگر ممالک سے وابستہ انسانی حقوق کے کارکنوں نے بھی شرکت کی۔ کشمیری تارکین وطن کی ترجمان انشاء قاری نے اس موقع پرصحافیوںکو بتایا کہ2012میں جنوبی دلی میں ایک23سالہ لڑکی کی اجتماعی عصمت دری کے بعد ہزاروں لوگ بھارت میں سڑکوں پر نکل آئے اور جھڑپوں کے دوران78پولیس اہلکار زخمی اور پولیس کی متعددگاڑیاں اور بسیں تباہ کی گئیں۔لیکن جوابی کارروائی میں کوئی ہلاکت نہیں ہوئی اور نہ پیلٹ گن استعمال کی گئی ۔ رواں سال فروری میں میں ہزاروں مظاہرین نے جاٹ برادری سے وابستہ لوگوںنے دلی کی سڑکوں پر مخصوص کوٹا کے مطالبے کے حق میں زبردست احتجاج کیا۔
جاٹ برادری نے ہڑتال کر کے بھارت کے ایک کروڑ لوگوں کا پانی بند کردیا ، جس کے نتیجے میں 10ہلاکتیں ہوئیں لیکن یہاں بھی پیلٹ نہیں چلائے گئے۔لیکن کشمیر میں ایک اندازے کے مطابق20لاکھ پیلٹ چلائے گئے ہیں۔ تقریبا گزشتہ دو ماہ کے دوران وادی کشمیرمیں10ہزار لوگ زخمی ہوچکے ہیںجن میں500سے زائد لوگ بصارت سے محروم ہو گئے ہیں۔بھارت اگر کشمیر کو اپنا حصہ سمجھتا ہے تو پھر کشمیریوں کیساتھ امتیازی سلوک کیوں رواں رکھا جا رہا ہے۔
تحریر: مہر بشارت صدیقی