کیکر تے انگور چڑھایا، ہر گھچا زخمایا
میاں محمد بخشؒ نے اپنے کلام میں لکھا ھے
نیکاں دے سنگ نیکی کرئیے نسلاں نئی بھلاندے
بریاں دے سنگ نیکی کرئیے الٹا ضعف پہچاندے
یعنی سلیم الطبع لوگوں کے ساتھ بھلائی کی جائے تو وہ نسل در نسل یاد رکھتے ھیں لیکن بدفطرت لوگ بھلائی کرنے والوں کو نقصان پہچانے کے درپے ھو جاتے ھیں۔جناب سعید احمد صاحب اس شعر کی تشریح میں ایک بہت دلچسپ حکایت بیان کرتے ھیں کہ کسی جنگل میں ایک بکری بہت بے فکری سے ادھر ادھر گھوم رہی تھی ۔ایک کوے کو بہت حیرت ھوئی اور وہ بکری سے پوچھنے لگا کہ تمہیں کسی سے خوف کیوں نہیں ھے؟ بکری نے کہا ۔ بھائی میری بے فکری کا سبب یہ ھے کہ کچھ عرصہ پہلے ایک شیرنی اپنے دو چھوٹے بچے چھوڑ کر مر گئی تھی ۔میں نے ان پہ ترس کھا کر اپنے دودھ پہ پال کر انہیں پروان چڑھایا۔اب وہ جوان ھیں اور انہوں نے جنگل میں اعلان کر رکھا ھے کہ ھماری بکری ماں کی طرف کوئی میلی آنکھ سے نہ دیکھے۔سو اب کسی بڑے خوںخوار جانور میں بھی یہ ہمت نہیں کہ مجھ پہ ہاتھ ڈالے کسی چھوٹے موٹے جانور کا ذکر ہی کیا ۔
کوے نے سوچا کاش مجھے بھی ایسی نیکی کرنے کا موقع ملے اور پرندوں کی دنیا میں مجھے بھی احترام حاصل ھو جائے۔وہ یہی سوچتا ھوا اڑتا جا رہا تھا کہ اس نے نیچے دریا میں ایک چوہے کو ڈبکیاں کھاتے دیکھا ۔ وہ فوراً نیچے اترا اور چوہے کو دریا سے نکال لایا اور ایک بڑے پتھر پہ لٹا کر اپنے پروں سے ھوا دینے لگا تاکہ وہ خشک ھو جائے۔جونہی چوہے کے حواس بحال ھوئے اس نے کوے کے پر کترنے شروع کر دئیے۔کوا بیچارہ نیکی کی دھن میں مگن تھا اور چوہا اپنی کار گزاری میں مصروف۔اتنی دیر میں وہ خشک بھی ھو چکا تھا ۔لہذا اس نے اپنے بل کی طرف دوڑ لگا دی ۔کوا نیکی کر کے بہت موج میں تھا۔اسی موج میں اس نے لمبی اڑان بھرنے کی کوشش کی مگر منہ کے بل زمین پہ آ پڑا اور اڑنے سے معذور ھو کر زمین پہ ہی اچھلنے اور گھسٹنے لگا ۔اتفاقاً بکری ادھر سے گزری تو پوچھنے لگی ۔بھائی کوے تم پہ کیا افتاد آن پڑی؟وہ غصے سے بولا۔یہ سب تمہارا کیا دھرا ھے۔تمہاری باتوں سے متاثر ھو کر میں نےنیکی کمانے کی چاہ میں چوہے کی جان بچائی مگر وہ میرے پر ہی کتر بھاگا۔بکری ہنس پڑی اور کہنے لگی۔بے وقوف اگر نیکی ہی کرنی تھی تو کسی شیر کے بچے کے ساتھ کرتے۔چوہے کا بچہ تو اپنا چوہا پنہی دکھائے گا۔بد ذات اور بد اصل کے ساتھ نیکی کرنے والے کا وہی حال ھوتا ھے جو تمہارا ھوا ھے ۔اسی بات کو میاں صاحب نے یوں بھی بیان کیا ھے۔
نیچاں دی اشنائی کولوں فیض کسے نہ پایا
کیکر تے انگور چڑھایا ہر گچھا زخمایا
اور شاہ مراد نے بھی کہا ھے۔
چنگیاں دے لڑ لگیاں جھولی پھل پئے
بریاں دے سنگ رلیاں اگلے وی ڈھل گئے
یعنی اچھی صحبت آدمی کے دامن کو پھولوں سے بھر دیتی ھے جبکہ بروں کی دوستی میں انسان پہلے سے جھولی میں موجود چند پھول مراد ھے اچھی عادتیں بھی گنوا بیٹھتا ھے ۔
میاں صاحب ایک اور جگہ فرماتے ھیں ۔
مورکھ نوں کی پند نصیحت پتھر نوں کی پالا
دودھاں اندر ناگ نوہائیے انت کالے دا کالا
یعنی نااہل کو نصیحت کرنا پتھر کو سردی سے بچانے کے مترادف ھے کیونکہ سانپ کو آپ ڈھیروں دودھ سے نہلا دیں پھر بھی وہ کالا ہی رھے گا ۔یہاں سلطان باہو بھی یاد آتے ھیں ۔
کاواں دے بچے ہنس نہ تھیندۓ توڑے موتی چوگ چگائیے
کوڑے کھو نہ میٹھے ھندے توڑے مناں کھنڈ پائیے
یعنی کو وں کے بچے موتی چگنے سے ہنس نہیں بن جاتے اور کھارے پانی کے کنویں منوں میٹھا ڈالنے کے بعد بھی کھارے ہی رہتے ہیں ۔
سعدی شیرازی کی نصیحت بھی یہی ھے کہ کسی نا اہل کی تربیت کرنا گنبد پہ اخروٹ ٹکانے کے مترادف ھے ایسا کرنے والا شور زمین سے سنبل اگانے کی فکر میں سر گرداں ھے ۔حالانکہ ایسی زمین پہ چارہ اگ جائے تو یہ بھی بڑی بات ھے اور موتیوں کے تول ان بولوں پہ سب سے بھاری حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ھے کہ جس کے ساتھ نیکی کرو اس کے شر سے ڈرو ۔ان تمام حکائتوں ، اشعار اور اقوال پہ نظر ڈالئے اور پھر سوچئیے کہ
کیا کیا خضر نے سکندر سے
اب کسے رہنما کرے کوئی
ایس ایم حسنین
ایڈیٹر یس اردو اسلام آباد