مجھے ایک شخص کی تلاش ہے، وہ شخص جس نے پہلے پہل کہا کہ عورت ناقص العقل ہوتی ہے، آسان لفظوں میں بھولی، نادان اور کم عقل۔مجھے تلاش اس لئے ہے کہ جان سکوں کہ تاریخ میں صنف نازک کے بارے میں اس نے اتنا بڑا فیصلہ کب کیا اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ کیوں کیا؟ میں اس واردات کو جاننا چاہتا ہوں جس کی بنا پر طے پایا کہ عورتوں میں قوت فیصلہ کی کمی ہوتی ہے۔ خود میں اپنے مشاہدے کی بنا پر اس رائے سے متفق نہیں تھا۔ کبھی کبھی ایسے مباحثوں میں بھی الجھا جہاں یہی موضوع زیر بحث تھا۔ پھر ایک واقعہ ہوا جس نے اس گاڑھے عربی لفظ پر پڑی ہوئی کم علمی کی چادر ذرا سی سرکائی۔اچھی بھلی ، پڑھی لکھی ، باشعور خواتین کو دیکھا کہ کسی کے کہنے پر نا مناسب نہیں، نامعقول نعرے لگا رہی ہیں۔ کوئی بھوک ہڑتالی کیمپ لگائے ٹھیک ٹھا ک بیٹھی تھیں کہ ناگاہ کسی میخانے سے آنے والی آواز نے انہیں صدا دی کہ ٹوٹ پڑو۔ خواتین یہ سنتے ہی جھپ سے اٹھ کھڑی ہوئیں اور کسی میڈیا ہاؤس کے بخئے ادھیڑنے کے لئے چل پڑیں۔ پھر ہم نے صنف تو دیکھی جو نازک ہرگز نہ تھی۔ ایک بزرگ کا یہ قول یاد آیا کہ عورتوں کی عقل کمزور ہوتی ہے اور ان کا ارادہ پختہ نہیں ہوتا، بہتر ہے کہ انہیں پردے میں بٹھاؤ کیونکہ پردے کی سختی ان کی عزت اور آبرو کو بر قرار رکھتی ہے ۔
کچھ روز پہلے ان ہی یا اسی قبیل کی خواتین کوا یک جلسہ گاہ میں بیٹھے دیکھا۔وہی لڑکھڑاتے قدموں والی مردانہ آواز انہیں سمجھا رہی تھی کہ رحم مادر میں بچّہ کیوں کر وضع ہوتا ہے۔ یہ سر جھکائے سن رہی تھیں۔اس وقت مجھے ان پر رحم آیا۔ سوچا کہ عقیدت کا ہونا انسانی فطرت میں شامل ہے لیکن عقل کا ہونا بھی تو اسی مخلوق کے لئے قدرت کا بے مثال تحفہ ہے۔تو کیا اس سے ثابت ہوا کہ معاذ اﷲ عورتیں عقل سے عاری ہیں حالانکہ ہم تو سنتے آئے تھے کہ ان کا پردہ مردوں کی عقل پر پڑگیا ہے۔ بہت زیادہ سوچ بچار کے بعد میں جس نتیجے پر پہنچا ہوںوہ یہ ہے کہ عورت نہ بھولی ہے، نہ نادان۔ نہ کم عقل ہے اور نہ قوّت ِ فیصلہ سے محروم۔ اب وہ جو کچھ ہے اس کے لئے لفظ نہیں مل پارہا ۔قریب ترین لفظ جو میری دسترس میں ہے وہ ہے ’مظلوم‘،مگر نہیں۔ اب ایسا بھی نہیں لیکن پوری تاریخِ انسانی میں مرد نے اس کے ساتھ جو سلوک روا رکھا اس کی تازہ مثال وہی مردانہ حکم تھا کہ ڈنڈے اٹھا کر پچھواڑے ہی واقع میڈیا ہاؤس پر ٹوٹ پڑو۔ یہی حکم مردوں کو دیا جاتا تو وہ ایک ذرا سا تامّل بھی کرتے اور توقف بھی۔
بات کہاں سے کہاں نکلی چلی جارہی ہے، اور وہ بات یہ ہے کہ بھارت میں مسلمان خواتین کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہو رہا ہے۔ اطلاعا ت کے مطابق مردو ں نے یہ وطیرہ بنا لیا ہے کہ کھڑے کھڑے بیویوں کو طلاق دینے لگے ہیں۔ ا س میں مردوں نے ایک نرالی اختراع کی ہے او راسے نام بھی دیا گیا ہے:تین طلاق۔پہلے تو اتنی زحمت کرتے تھے کہ تین بار کہا کرتے تھے:طلاق، طلاق، طلاق۔ اب انہوں نے یہ تکلف بھی اٹھا دیا ہے۔ اب کہنے لگے ہیں کہ جا، میں نے تجھے تین طلاقیں دیں۔ اچھا، یہ کارروائی اتنی پختہ اور ٹھوس ہوتی ہے کہ اس کے بعد واپسی کا کوئی راستہ نہیں رہتا۔ اگر کہیں اتفاق سے شوہر ِ نامدار کو کچھ خیال آجائے اور بیوی کو واپس لانا چاہے تو پھر اسے جھوٹا لقمہ نگلنا پڑتا ہے، یعنی حلالہ ہوتا ہے۔تفصیل میں نہیں جاؤں گا۔ بڑوں نے سمجھایا ہے کہ لغوباتوں کو کھول کھول کر بیان کرنے کا مطلب ان باتوں کی لذّت اٹھانے کے سوا کچھ نہیں۔
بھارت میں یہ معاملہ اتنا سنگین ہوگیا ہے کہ بات عدالتِ عالیہ تک جا پہنچی ہے۔ وہاں عائلی قوانین اور شریعت کے ادارے نے یہ حکم صادر کیا ہے کہ مردوں میں فیصلہ کرنے کی قوت عورتوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ادارے نے بھارت کی سپریم کورٹ میں یہ بھی کہا ہے کہ مردوں کو اپنے جذبات پر زیادہ قابو ہوتا ہے اور وہ جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہیں کرتے۔مسلم خواتین نے عدالت میں جا کر شکایت کی تھی کہ طلاق کے مقدمات میں مردوں کی طرف جھکاؤ صاف نظر آتا ہے۔انہوں نے کہا تھا کہ یہ تو سراسر مردوں کی بالا دستی کا مظاہرہ ہے جو غیر انسانی ہے اور غیر منصفانہ بھی ہے۔
اس وقت بھارت کی سپریم کورٹ کے سامنے کئی درخواستیں ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ یہ کھڑے کھڑے طلاق دینے کا کیا مطلب ہے؟ عورتوں کے ساتھ یہ کیسا سلوک ہے؟۔ مرد حضرات تین بار طلاق طلاق کہتے ہیں جس کے ساتھ ہی انسانی رشتے کی ایک بنیادی عمارت دھڑام سے نیچے آرہتی ہے۔ اس پر شریعت بورڈ نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ عورتوں کے مقابلے میں مرد وں میں زیادہ سمجھ بوجھ ہوتی ہے۔ اس کے جواب میں ممبئی میں قائم بھارتیہ مسلم مہیلا آندولن اور آل انڈیا ڈیموکریٹک ویمنز ایسو سی ایشن نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ یہ دور جاہلیّت کا انداز فکر ہے جس میں عورتوں کے خلاف تعصّب روا رکھا گیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ سب ایک سے زیادہ شادیاں رچانے اور کھڑے کھڑے طلاق دینے کے حیلے ہیں جو نہ صرف آئین کی کھلی خلاف ورزی ہے بلکہ اسلام میں مردوں او ر عورتوں کو جو برابر درجہ دیا گیا ہے اس کی بھی نفی ہے۔ خاص طور پر یہ تین طلاق کا قصہ تو سراسر من مانی ہے، اور کچھ نہیں۔پورے عالم اسلام میں تین طلاق کو قانونی حیثیت حاصل نہیں۔ ہم اس کی مخالفت کرتے ہیں اور اس پر فی الفور پابندی لگانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ بات بھی اسی مشترکہ بیان کاحصّہ ہے۔ عورتوں کے حق میں آواز بلند کرنے والوں نے شریعت بورڈ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ تمام خواتین سے معافی مانگے اور دھیان رکھے کہ آئندہ ایسی کوئی بات نہ کہے جس سے عورت ذات کی توہین یا دل آزاری ہو۔وہ کہتے ہیں کہ یہ رسم اسلامی اصولوں کے خلاف ہے اور اسے غیر آئینی قرار دیا جانا چاہئے۔ مسلم ملکوں میں اس کا رواج نہیں جب کہ بھارت میں تین طلاق خوب پروان چڑھ رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ شریعت میں تو طلاق کا طریقہ صاف اور واضح ہے کہ اس عمل میں تین مہینے کی مدت ہوتی ہے۔ اس دوران میاں بیوی چاہیں تو ان کے درمیان صلح صفائی ہو سکتی ہے ۔ بھارت میں تو یہ بات بھی سننے میں آرہی ہے کہ اب مسلمان مرد اسمارٹ فون، اسکائپ، واٹس ایپ اور فیس بُک پر بھی طلاقیں دینے لگے ہیں۔ لیکن شریعت بورڈ والے کہتے ہیں کہ یہ سب کہنے کی باتیں ہیں۔ بھارت کے مسلمانوں میں طلاق کا رواج اب بھی بہت کم ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جو اسلام سے خار کھائے بیٹھے ہیں اور بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں۔ اب میری رائے سنئے۔ میں عورت کی شبیہ کا نہ تو خالق ہوں نہ مصوّر مگر اس تصویر کو ذرا پیچھے ہٹ کر دیکھنے کا اہل ضرور ہوں۔ مجھے تو اس میں نازک سی کونپل نظر آتی ہے ۔ جس کسی نے بھی اسے بنایا ہے نازک شاخ جیسا بنایا ہے۔ مجھے عورت میں جتنی خوبیاں نظر آتی ہیں، بالکل وہی خوبیاں چمن میں، گلوں میں ، گلزاروں میں ، نظاروں میں ، آب شاروں میں ، سامنے کسی ڈالی پر بیٹھ کر سُر بکھیرنے والی جاڑوں کی بارش میں بھیگی ہوئی چڑیا میں نظر آتی ہیں۔ مجھے بیٹیوں کا باپ ہونے پر ناز ہے۔ ان سے ہمارے گھر کیسے شاد وآباد رہے۔ وہ جب تک رہیں، کیسے سلیقے سے ، کتنی خاموشی سے او رکیسی آہستگی سے رہیں کہ کبھی پاؤں کی آہٹ بھی نہ
سُنی۔ مجھے اور کچھ یاد رہے نہ رہے پر یہ نہیں بھول سکتا کہ مجھے بخار ہوا تو بیٹی نے خاموشی سے قریب آکر میرے ماتھے پر ہاتھ رکھا تھا۔ا س روز مجھے کتنا چین ملا تھا،کوئی میرے دل سے پوچھے۔
بشکریہ جنگ