تحریر : حافظ عبدالرحمان
میں کلاس میں بیٹھا ہوا تھا جب میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس اک افلاس زدہ نوجوان مجھے اپنی طرف آتا دکھائی دیا،کلاس کے کچھ لڑکے اسکی ہیت کزائی پر ہنسے،عجیب بات یہ تھی کہ اسکی ظاہری حالت سے غربت ٹپک رہی تھی لیکن چال میں مسکنت نہیں تھی وہ پر وقار قدموں سے چلتا آ رہا تھاہاں اپنے گردوپیش سے بے خبر سا لگتا تھااس نے جیسے سنا ہی نہیں لڑکے اسکی آمد پرہنسے تھے اور اب بھی مسکراتی آنکھوں سے اسکی طرف دیکھ رہے تھے،سب کو نظر انداز کرتا وہ میرے برابر آکھڑا ہوااور اپنی چھوٹی چھوٹی بے چین سی آنکھیں میرے چہرے پہ جما دیں مجھے لگا جیسے وہ مجھے آنکھوں ہی آنکھوں مین چیلنج دے رہا ہے کہ پہچان سکتے ہو تو پہچان لومجھے ،میں خود بھی اسے پہچاننا چاہتا تھا
میں نے ذہن پر زور دیا تو اک دھندلا سا چہرہ میرے ذہن کی سکرین پر ابھر آیامیں29سال پیچھے چلا گیا جب میں اپنے والد صاحب کی درسگاہ میں درجہ حفظ کا طالب علم تھامجھے اپنے سامنے کھڑے نوجوان کے جھریوں زدہ چہرے کے پیچھے درسگاہ کے سب سے ذہین طالب علم کا چہرہ نظر آگیااور بے ساختہ میری زبان سے نکلا”اظہر تم”؟؟اس نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اثبات میں سر ہلا دیامیں کرسی سے اٹھا اور اسے گلے لگا لیا خلاف توقع اس نے کوئی گرم جوشی نہیں دکھائی زمانہ طالب علمی کی شرارتوں ،مسکراہٹوں اور یادوں کا ذکر تک نہ کیالگتا تھا
زمانے کے سخت تھپیروں نے اسے پڑی بے رحمی سے ماراہے،مختصرسے حال احوال کے بعدجب اس نے گلو گیر لہجے میں کہا کہ “مجھے میرے بیٹے سے ملوادو”تو مجھے لگا جیسے دنیا جہاںکا درد اسکے لہجے میں سمٹ آیاہو،تفصیل کریدنے پر پتا چلا چند سال قبل اظہر نے شادی کی تھی جومختلف عوامل کی بنا پر ناکام ثابت ہوئی،اظہر کی فطری سخت طبیعت غربت اور بیوی جہالت و عدم برداشت کے سبب میاں بیوی میں روز نوک جھوک ہوتی رہتی۔
اکثر بیوی روٹھ کے میکے چلی جاتی دن مہینوں میں بدل جاتے اوریہ دونوں اپنی اپنی انا میںاپنے والدین کے گھر پڑے رہتے اور یوں اپنا گھر اجاڑتے گئے جسکا خوفناک انجام طلاق اور رشتوں کے ٹوٹنے کی صورت میں نکلا۔اظہر کا ایک بیٹا تھا جسے بیوی اہنے ساتھ لے گئی تھی۔اولاد تو اولاد ہی ہوتی ہے نا۔ماں باپ کے جگر کا ٹکڑا۔اظہر سے بھی بیٹے کی جدائی برداشت نہیں ہوئی اور وہ اندر ہی اندر ٹوٹتا چلا گیااظہر کا وہ بیٹا میرے سکول میں تیسری کلاس کا طالب علم تھا۔اور اظہر ایک باپ جوماں سے چوری بیٹے سے ملاقات کا خواہشمند تھا۔میں نے اسکے بیٹے کو اپنے دفتر میں بلا لیا۔
باپ بیٹا ایک دوسرے سے کس طرح ملے دونوں کی آنکھیں دریا کیسے ہوئیں۔اظہر نے اپنی نم آنکھوں سے اپنے بیٹے کو کیسے اور کہاں کہاں سے چوما،معصوم بچے نے اپنے باپ سے کیا کیا شکوے کیے وہ منظر وہ لمحے بیان کرنے کی میرے قلم میں طاقت ہے اور نا میرے پاس وہ الفاظ جن سے میں ان کے جذبات تحریر کر سکوں۔آپ الفاظ چھوڑیں۔اس سچی کہانی کے پس پردہ جذبات پڑھنے کی کوشش کیجیئے۔
کیا آپ کو نہیں لگتا کہ میاں بیوی کا رشتہ ٹوٹتا ہے تو وہ محض ایک رشتہ نہیں ٹوٹتا ایک خاندان ٹوٹتاہے پوری ایک نسل بکھر جاتی ہے ۔خدارا!اپنے رشتوں کی قدر کیجیئے۔رشتہ میاں بیوی کا ہویا بہن بھائی کا،باپ بیٹے کا ہو یا ماں بیٹی کا،استاد شاگرد کا ہو یا دوستی کا۔آپ کی تھوڑی سی برداشت ۔تھوڑی سی توجہ اور تھوڑی سی محبت مانگتا ہے ورنہ رشتوں کے ان پیڑوں پر خزاں آ جاتی ہے
تحریر : حافظ عبدالرحمان