تحریر : منظور احمد فریدی
اللہ کریم سبحانہ کی بارہا حمد و ثنا اور ذات کبریا حضرت محمد مصطفی ۖ پر کروڑوں بار درودو سلام کا نذرانہ جنہوں نے اس امت سے پیار فرمایا کہ کسی بھی نبی نے اپنی امت سے اتنے پیار اتنی محبت اور آپۖ جیسے حسن سلوک کو اختیار نہ کیا طائف کی وادی میں لوگوں نے پتھروں سے جھولیاں بھری ہوئی ہیں اور دیوانہ کہہ کر پتھر برسائے جا رہے ہیں مگر سراپا معجزہ محمد ۖ کی زبان مبارک سے نہ تو اللہ کی ناشکری کے الفاظ آئے اور نہ پتھر مارنے والوں کے لیے بد دعا اللہ کریم واضح ارشاد فرمایا کہ تمھارے لیے رسول عربی ۖ کی زندگی مکمل نمونہ حیات ہے آپ ۖ بڑے فخر سے ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ میں دو ذبیحوں کا بیٹا ہوں ایک جناب اسماعیل علیہ السلام اور دوسرے والد رسول کریم جناب عبداللہ قربانی کا فلسفہ اور پورا سیاق و سباق کے ساتھ بیان کرنا ہو تو ایک ضیغم کتاب بن جاتی ہے یہاں سنت ابراہیمی اللہ کی رضا کے لیے قربانی کا فریضہ ادا کرنے کے مختصر فضائل قارئین کی نظر کرنا مقصود ہیں۔
قربانی ہر اس شخص پر لازم ہے جو استطاعت رکھتا ہو اگر وہ قربانی نہ کرے تو آقا کریم ۖنے فرمایا کہ اسکا ہماری عیدگاہ سے کوئی تعلق نہیں آپۖ ہر سال دو قربانیاں پیش کیں ایک بار صحابہ کرام مے سوال کیا کہ یا رسول اللہ کیا آپ ۖ پر دو قربانیاں فرض ہیں تو آپۖ نے فرمایا نہیں بلکہ ایک قربانی اپنی طرف سے اور دوسری اپنی امت کے ان غرباء کی طرف سے جو دل میں جذبہ تو رکھتے ہونگے مگر مالی استطاعت نہ ہونے سے قربانی نہ کر سکیں گے تو اب امت کے صاحب استطاعت لوگوں کو بھی چاہیے کہ ایک اپنی قربانی اور دوسری رسول کریم کی طرف سے اللہ کی بارگاہ میں پیش کریں تو بروز قیامت اللہ کے محبوب کا قرب ملیگا موجودہ حالات کے پیش نظر صاحب استطاعت کون ہے اور کون نہیں تو وقت ایک چلتی ہوئی چیز کا نام ہے اور تبدیلی اسکی فطرت ہے۔
ہمہ وقت دھوپ رہتی ہے نہ چھائوں کوئی صاحب روزگار اگر آج پریشان ہے اور اسے اپنے رب کی پاک ذات پر مکمل توکل ہے کہ وہ کل اچھے دن عطا کریگا تو ایسے بندہ کو چاہیے کہ وہ قربانی کا فریضہ لازمی ادا کرے اور اللہ سے دعا کرے کہ اے رب العالمین میری اس قربانی کو قبول کرکے میرے لیے فراخی کے دروازے کھول دے تو وہ قادر بھی ہے اور اپنے بندوں سے پیار بھی کرتا ہے یہ قربانی ایک مالدار شخص کی قربانی سے افضل بھی ہوگی اور بارگاہ ء ربی میں مقبول بھی اور اگر دو وقت کی روٹی بھی مشکل ہو رہی ہے تو پھر اپنے آپ کو مشکل میں ڈالنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ کسی کو تکلیف میں پڑنے کا حکم نہیں دیتا۔
قرآن پاک میں واضح حکم ہے کہ اللہ کو نہ تو تمھاری طرف سے بہائے گئے خون کی ضرورت ہے اور نہ ہی گوشت کی وہ تو محض تمھاری نیتوں کا اخلاص چاہتا ہے ایک ایسا مالدار شخص جو دس بکرے یا دوچار لاکھ والے بیل اپنی نمود ونمائش کے لیے قربان کرتا ہے کہ لوگ کہیں گے کہ واہ چوہدری صاحب بڑے دیندار آدمی ہیں تو اسکے یہ سارے جتن اسے دنیا سے تو داد دلوا سکتے ہیں مگر اللہ کی رضا والی قربانی اسکی نہیں ہوگی قربانی دراصل اس جذبہ کا نام ہے جس پر اللہ کی رضا کے حصول کے لیے کسی قربانی سے بھی دریغ نہ کیا جائے اور اس میں ریاکاری کا پہلو ہرگز نہ آنے پائے ورنہ فضول ہوگا سب کچھ تیسری اہم بات یہ کہ قربانی کے گوشت کی تقسیم کا مسئلہ ہے۔
قربانی کا بکرا ایک لاکھ کا خریدا محلہ میں اسکی نمائش کی اور ذبح کرکے فریزر میں رکھ لیا تو یہ قربانی ہرگز نہیں بلکہ یہ گوشت ان لوگوں کا حق ہے جو شائد صرف قربانی پر ہی گوشت کھاتے ہوں قربانی کا جانور خریدنے کے لیے مال آپکا رزق حلال ہو حرام طریقہ سے کمایا ہوا مال منشیات فروشی سے ڈکیتی راہزنی سے اور بالخصوص کسی کی حق تلفی کرکے کمایا ہوا مال اللہ کی بارگاہ میں پیش کرنا ایسے ہی ہے جیسے ہم اللہ کو نہ تو بصیر مانیں اور نہ علیم و حکیم قربانی قربت خداوندی کا بہترین ذریعہ ہے۔
اسلام قربانیوں کی داستان کا نام ہے اسکی بتدا بھی قربانی ہے اور انتہا بھی قربانی مگر قربانی اگر اپنی نمائش کے بجائے صرف اسی کی رضا کے لیے ہو تو سنت رسول عربیۖ بھی ہو گی اور سنت ابراہیمی بھی ،،،مسجد بنا رہا ہے سنگ مرمر سے امیر شہر پڑوس میں ہیں بچے بھوکے سوئے ہوئے والسلام۔
تحریر : منظور احمد فریدی