تحریر: انجینئر افتخار چودھری
روءف کلاسرہ کمال کے جرنلسٹ ہیں اللہ تعالی سچ بولنے کے ہنر سے نواز رکھا ہے معاف کسی کو نہیں کرتے۔اس روز انہوں نے آرمی چیف پر ایک سوال داغ دیا کہ ٦ ستمبر کی محفل مین رحمان ملک کا کیا کام؟ رحمان ملک پر بڑے الزامات ہیں کرپشن آئی ایس آئی کو انڈیا کے نیچے لگانے کی مذموم کوشش بھی انہوں نے کی۔ان کا کہنا تھا جب آرمی چیف دہشت گردی کو کرپشن سے جوڑتے ہیں تو پھر ان کی مہمانوں کی لسٹ پر پاکستان کے معرف وزیر داخلہ جو کرپشن کے حوالے سے جانے جاتے ہیں وہ وہاں کیا کر رہے تھے۔کلاسرہ صاحب!سے ایک آدھ مرتبہ ملاقات ہوئی ہے خاص طور پر ٢٠٠٩ میں فلشمین ہوٹل میں جنرل ر اسد درانی کی بطور سفیر سعودی عرب ٢٠٠٢ کی چیرہ دستیوں کا ذکر کیا تو موصوف نے شارٹ سا انٹرویو کیا چھوٹے بھائی سجاد احمد سے ملتے رہتے ہیں۔کلاسرہ صاحب کو لوگ دیکھتے ہیں اپنی رائے بناتے ہیں۔مجھے اپنی فکر لگ گئی ہے لوگ تو آرمی چیف کو نہیں معاف کر رہے۔کیا وہ عمران خان کو معاف کریں گے۔
ہم دشت در دشت سفر کر کے جب لاہور داتا دربار یا چیئرنگ کراس پہنچتے ہیں تو ایک جانا پہچانا بوتھا سامنے آ جاتا ہے ایان علی اور ڈاکٹر عاصم کا وکیل لطیف کھوسہ۔سچ پوچھیں ہم شفافیت کا نعرہ لے کر نکلے ہیں۔ہم نے قوم کو امریکہ کی پالیسیوں کا مخالف بن کر اپنے پیچھے لگایا ہے۔اسی زرداری کو کرپٹ اور نون لیگ کے ساتھ مک مکا کرنے والا کہا ہے۔پاکستان کے لاکھوں لوگوں نے ہمیں ڈرون اٹیکس،بچوں کے مدارس پر حملہ کرنے والوں کے خلاف بولنے پر ہمارا ساتھ دیا۔ہم نے ثابت کیا کہ زرداری اور اس کا ٹولہ چور ہے اور یہ بھی کہا موجودہ حکمران اس سے بڑے چور ہیں۔کارکن ہم سے پوچھتے ہیں کہ کیا اس لئے سڑکوں پر نکلے تھے کہ معرکے میں پھر ان سے مدد مانگیں گے جو لٹیرے تھے۔ کیا یہ سچ نہیں کہ چور کے خلاف چور کو ساتھ لے کر لڑائی نہیں لڑی جا سکتی ۔یہ سوال آج ہر کارکن کا ہے۔
اس کارکن کا جس کے نصیب میں سڑکیں ہیں مظاہرے ہیں جیلیں ہیں۔یہ سوال پارٹی کی اعلی قیادت سے بھی اور ادنی قیادت سے بھی۔ اس لئے کہ ہم سوال کرنے جا رہے ہیں کہ جناب وزیر اعظم پانامہ لیکس میں میں آپ کے وہ بچے جو آپ کی کفالت میں تھے ان کے بارے میں پوچھنا ہے کہ پیسہ کہاں سے آیا۔در اصل سوال کرنا مشکل بنا دیا گیا ہے ویسے ہم جب تاریخ اسلام کے حوالے دیتے ہیں تو حضرت عمر کا حوالہ دیتے ہوئے ضرور کہتے ہیں کہ ان سے بھی سوال کر لیا گیا تھا کہ آپ کا چولہ کیسے بنا؟سوال کرنا بہادری اور دلیری ہے ایک سوال نواز شریف صاحب اور ایک تحریک انصاف سے بھی ہے کہ جب نواز شریف سے سوال کرنے نکلے ہو تو قوم کا یہ بھی سوال ہے کہ کس کے ساتھ نکلے ہو۔؟اس سوال کا جواب تو ہم مانگ سکتے ہیں اس لئے کہ ہم شفافیت کا نعرہ لگاتے ہیں۔
تاریخ کے پنوں پر کوئی یہ نہ لکھ دے کہ جب عمران خان رائے ونڈ جا کر نواز شریف سے پانامہ کے پیسوں کا حساب مانگ رہے تھے تو ان کے ساتھ ایان علی کا وکیل بھی تھا وہ ایان علی جو قوم کا پیسہ باہر لے جاتی تھی۔یہاں کیس بھی تو ملتا جلتا ہے ایک طرف نواز شریف ہیں جو قوم کا پیسہ باہر لے گئے تھے اور دوسری جانب ایان علی ہے جو کسی کے لئے منی لانڈرنگ کرتی رہی ہے ۔یہ سوال کارکن سے بھی ہے ،خادم سے بھی ہے اور مخدوم سے بھی۔سوال مرا نہیں کرتے۔چپ رہتے ہیں تو لوگ گونگا شیطان کہتے ہیں بولتے ہیں تو۔۔۔خان کو اس گھیرے سے نکلنا ہوگا جہاں اس کے کانوں میں آواز پہنچنے دی جاتی ہو۔کارکن تو اس خان کو ڈھونڈتا ہے جو اس کی معمولی سی آواز پر جواب دیا کرتا تھا۔لوگ جرنیلوں سے پوچھ رہے ہیں ہمارا قائد تو جرنیل بھی نہیں ہے۔
تحریر: انجینئر افتخار چودھری