تحریر : طارق حسین بٹ
نائن الیون کے بعد افغان جنگ اپنے مہلک اثرات سے جنوبی ایشیا کے امن کو تار تار کر رہی تھی کہ امریکہ نے برطا نوی وزیرِ اعظم ٹونی بلئیر کے پر زور دبائو پر عراق کے خلاف فوج کشی کر دی۔عراق پر الزام یہ لگا یا گیا کہ وہ کیمیاوی ہتھیار بنا رہا ہے لہذا دنیا کو جنگ و جدل اور تباہی سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ عراق کو اس طرح کے کیمیاوی ہتھیار بنانے سے روکا جائے ۔عراق نے جب اس طرح کے کیمیاوی ہتھیاروں کی موجودگی سے لاعلی کا اظہار کیا تو اقوامِ متحدہ نے اپنی تحقیقاتی ٹیم عراق روانہ کی جسے اس سارے معاملے کا جائزہ لے کر اپنی رپورٹ پیش کرنے کافریضہ سونپا گیا ۔ اس قائم کردہ تحقیقی ٹیم نے جب پورے عراق کا تفصیلی دورہ کیا اور انتہائی کوشش کے باوجود جب اس نے کسی ایسی لیبارٹری یا سائنسی کارخانہ کو موجود نہ پایا تو اسے لکھنا پڑا کہ عراق میں کیمیاوی ہتھیار بنانے کا نہ تو کوئی کارخانہ ہے اور نہ ہی کوئی لیباٹری ہے۔برطانوی وزیرِ اعظم نے قوم سے اپنی غلطی کی معافی مانگی اور مستعفی ہو کر گھر بیٹھ گیا لیکن اس سے عراق اور پورے خطے کو جو جانی اور مالی نقصان اٹھا نا پڑااس کا مداوا کون کریگا ؟۔لاکھوں لوگ بارود کا نشانہ بنے، لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے جبکہ زخمیوں کی تعداد بھی لاکھوں میں تھی اور یہ گھنائونا کھیل اب بھی جاری ہے۔
یہ سارا ڈرامہ مسلم امہ کے خلاف سٹیج کیا گیا تا کہ اس کی ترقی، خوشخالی اور امن کو تہہ و بالا کیا جائے ۔فی الوقت مسلم امہ لہو میں تر برتر ہے اور صیہونی، ہندو، امریکن اور یورپی سازشیں اسے مزید لہو میں نہلانے کے لئے بے چین ہیں۔یہی وہ جنگ ہے جس کی کوکھ سے داعش جیسی دھشت گرد تنظیم وجود میں آئی اور امریکہ اور یورپ کے لئے ایک نئے خطرے کا پیش خیمہ بنی ۔ القاعدہ کی دھشت تو اپنی جگہ تھی لیکن داعش نے دھشت گردی کی انتہا کر دی ۔امریکہ، فرانس، سپین، برطانیہ، جرمنی، بیلجیم ،ہا لینڈ، سویڈن، اٹلی اور بہت سے یورپی ممالک داعش کی کاروائیوں کا نشانہ بن رہے ہیں لیکن اہلِ یورپ کو سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ اس آسیب سے کیسے جان چھڑائیں؟ یہ آسیب انہی کا پیدا کردہ ہے اور اس کے ثمرات بھی انھوں نے ہی سمیٹنے ہیں۔اگر وہ افغانستان،عراق، لیبیا،شام،الجزئر اور یمن کو اپنی فوجی قوت کے اظہار کا نشانہ نہ بناتے تو شائد ان کے ساتھ اس طرح کا برتائو نہ ہوتا لیکن جب انھوں نے خود ہی آگ سے کھیلنے کا فیصلہ کیا ہے تو اس آگ نے ان کے گھر کو جلانا تھا اور آجکل ایسا ہی ہو رہا ہے۔امریکہ اس سارے فساد کا ذمہ دار ہے اور وہی اسے ختم کر سکتا ہے لیکن وہ اس اندا ز سے سوچ نہیں رہابلکہ اس کا ہدف مسلم امہ کی تباہی ہے اور اس نے اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے اپنا ایک االگ گروپ بھی تشکیل دیا ہوا ہے لیکن یہ الگ بات ہے کہ اس طرح کی سوچ خود امریکہ کی تباہی کا پیش خیمہ بن رہی ہے۔،۔
چند ہفتے قبل خود ڈیلاس (امریکہ ) میں نسلی فساد پھوٹ پڑا جس میں دو سیاہ فاموں کی موت واقعہ ہوگئی جس کے ردِ عمل میں سیاہ فاموں نے پانچ پولیس والوں کو قتل کر دیا جس کے نتیجے میں چنددنوں کیلئے پورا امریکہ نسلی امتیاز کے شکنجے میں جکڑا ہوا تھا ۔بڑی مشکل سے اس اندرونی خلفشار سے امریکہ نے اپنا دامن بچایا لیکن دلوں کے اندر جو رنجشیں اور تحفظات جنم لے گئے شائد انھیں اتنی جلدی نہ مٹا یا جا سکے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ ایک جمہوری ملک ہے اور انسانی حقوق کی پاسداری کی راوئیات اس کے ہاں بڑی مضبوط ہیں لیکن اس کا کیا جائے کہ جب امریکہ کا واسطہ کسی مسلم ریاست کے ساتھ پڑتا ہے تو وہ سارے انسانی حقوق بھول جاتا ہے ۔اس وقت مسلمانوں کو نیچا دکھانا اور انھیں نیست و نا بود کرنا اس کا واحد مقصد رہ جاتا ہے اور اسرائیل اس طرح کے اقدامات کیلئے امریکہ کی پیٹھ ٹھونکتا ہے۔امریکہ میں اس وقت بڑی دلچسپ صورتِ حا ل نے جنم لے رکھا ہے ۔امریکی انتخابات بالکل سر پر ہیں اور دونوں صدارتی امیدوار خم ٹھونک کر میدان میں اترے ہوئے ہیں۔
ایک طرف ہیلری کلٹن ہیں جبکہ دوسری طرف ڈولنڈ ٹرمپ ہیں اور بدقسمتی سے دونوں علیحدہ علیحدہ انتہائوں پر کھڑے ہیں۔ ڈولنڈ ٹرمپ مسلمانوں کا دشمن نمبر ایک ہے لہذا وہ امریکی انتخاب میں نسلی امتیاز کو ہوا دے رہا ہے۔وہ میکسیکو،ہسپانوی، ہندوستانی،پاکستانی اور دوسرے تارکینِ وطن کو امریکہ سے نکالنا چاہتا ہے۔اس کا سارا زور مسلمانوں کو دھشت گرد ثابت کرنے پر صرف ہو رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ دنیا میں ساری دھشت گرد کاروائیوںکے پیچھے مسلمانو ں کا ہاتھ ہوتا ہے لہذا اگر ہمیں امریکہ سے دھشت گردی کو جڑ سے اکھا ڑ پھینکنا ہے تو پھر مسلمانوں کو امریکہ سے نکال باہر کرنا ہو گا۔اس معاملے میں یہودی،ہندو اور عیسائی یک زبان ہیں کیونکہ انھیں خود جس مذہب اور تہذیب سے خطرہ ہے وہ اسلام ہے۔وہ اپنے خوف کو دھشت گردی کے غلاف میں لپیٹ کر بیان کر رہے ہیں لیکن اس سے بات بنتی ہوئی نظر نہیں آ رہی کیونکہ امریکی ووٹر ڈولنڈ ٹرمپ کی اس متعصبانہ نسلی سوچ کو بڑھاوا دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ حال ہی میں ایک پاکستانی نژاد امریکی فوجی ہمایوں خان کے والد خضر خان نے ڈیمو کریٹک پارٹی کے کنو نشن میں جو تقریر کی ہے اس نے امریکیوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
اس کا کہنا تھا کہ اس کے بیٹے ہمایوں خان نے امریکہ کے لئے قربانی دی تھی اور اس کی قربانی یہ ثابت کرتی ہے کہ مسلمان اس ملک کے استحکام اور بقا کے لئے لئے اپنا لہو دے رہے ہیں لہذا انھیں دھشت گرد کہہ کر ان کی توہین نہیں کی جا سکتی۔جو شخص ہمایوں خان جیسے نوجوانوں کی قربانیوں کا مذاق اڑا رہا ہے اس کی اپنی قربانیوں کا ریکارڈ اس سے پوچھا جا نا چائیے۔اسے بتانا ہو گا کہ اس نے امریکہ کی خاطر کونسی قربانی دی ہے؟وہ سارے لوگ جو مسلمانوں کو دھشت گرد قرار دلوانے پر تلے ہوئے ہیں انھیں امریکی آئین کا مطالعہ کرنا چائیے جو نسل،رنگ اور مذہب سے بالا تر ہو کر انسانیت کے احترام کا علم بلند کرتا ہے۔
اس کے پہلے صدر جارج واشنگٹن انسانی حقوق کے سب سے بڑے چیمپین تھے اور یہی وجہ ہے کہ امریکی آئین ان کی بالغ نظری کا کھلا اظہار ہے۔مسلمان امریکی شہری ہیں اور امریکی شہری ہونے کے ناطے انھیں اپنے نئے مقام کا تعین کرنا ہو گا تا کہ کوئی انھیں کمزور سمجھ کر نظر انداز نہ کر سکے۔صدارتی امیدوار ڈولنڈ ٹرمپ کی نفرت اپنی جگہ مسلمہ ہے لیکن وہ لوگ جو انسانی عظمت کے پجاری ہیں انھیں اس کی راہ میں مزاحم ہو نا ہو گا تا کہ دنیا جنگ وجدل کی نہیں بلکہ امن کی آماجگاہ بنے۔
مسلمانوں کو ہر اس سوچ کے خلاف ڈٹ جانا ہو گا جس میں نسلی امتیاز کی بو آتی ہو کیو نکہ اسلام نسلی امتیاز کا نہیں بلکہ انسانیت کی عظمت اور برابری کا مذہب ہے۔ ،۔ کیا کمزور قوموں کو زندہ رہنے کا حق حاصل ہے؟ کیا امریکہ کے اشا روں پر ہی ہر فیصلہ ہونا ہے؟ کیا ہر قوم اتنی آزاد ہے کہ وہ اپنے فیصلے خود کرسکے ؟کیا کمزور قوموں کے خلاف جارحیت کی یہ پالیسی امن کی ضمانت بن سکتی ہے؟یہی وہ سوال ہے جس کا جواب امریکہ اور اس کے حواریوں کو دینا ہے تا کہ دنیا امن کی آماجگاہ بن سکے اور ہر کوئی انسان ہونے کے ناطے واجب التکریم قرار پائے ۔ڈولنڈ ٹرمپ کی نسل پرست سوچ کے خلاف اس کی اپنی جماعت کی سینئر قیادت نے جس طرح مزاہمت کا رویہ اپنایا ہے وہ قابلِ ستائش ہے۔
اس سے ڈولنڈ ٹرمپ کو کافی دھچکہ لگا ہے اور اس کے انتخابات جیتنے کے امکانات کافی حد تک کم ہو گئے ہیں۔ڈولنڈ ٹرمپ کی جیت نسلی ا متیاز کی جیت ہو گی لہذا ہمیں نسلی امتیاز کی بجائے انسانی اخوت کی جیت کو یقینی بنانا ہے۔پاکستانیوں کو ہیلری کلنٹن کا ساتھ دینا چائیے کیونکہ وہ امن اور یکجہتی کی بات کر رہی ہے اور وہ لوگ جو اس کرہِ ارض کو نسلی، لسانی اور مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنا چاہتے ہیں ان کی مخالفت کر رہی ہے۔
اگر امریکہ بھی اس راہ پر چل نکلا جو ڈولنڈ ٹرمپ کا منشور ہے تو پھر ایک نئے ہٹلر کے ظہور کو کوئی نہیں روک سکے گا۔یہ کرہ ِ ارض پہلے ہی دھشت گردی کی لپیٹ میں ہے لیکن ڈولنڈ ٹرمپ کی جیت اسے نئی عالمی جنگ میں جھونک دیگی جس سے دنیا ایک بار پھر خاک و خون میں لتھڑی جائے گی۔ہمیں انسانیت کو لہو میں تر بتر ہونے سے بچانے کیلئے ڈولنڈ ٹرمپ جیسے نسل پرست سیاست دانوں کی آواز کو بے اثر کرنا ہوگا تا کہ انسانیت سر بلند ہو سکے۔،۔
تحریر : طارق حسین بٹ