تین دن کی عید منانے کے بعد اور مختلف اقسام کے لذیذ پکوان اور بکروں کی کلیجیاںکھانے کے بعد شاید آپ کسی سنجیدہ اور تحقیقی کالم کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہ ہوں لیکن میرے مزاج کی مجبوری کو ذہن میں رکھتے ہوئے مجھے معاف فرمادیں۔ میری مجبوری یہ ہے کہ جب قائد اعظمؒ یا تاریخ پاکستان کے حوالے سے بے بنیاد یا غیر ذمہ دارانہ باتیں لکھی جائیں تو میں مداخلت کئے بغیر نہیں رہ سکتا بشرطیکہ ایسی تحریریں میرے علم میں ہوںاور میرے محدود مطالعے کے مطابق بے بنیاد ہوں۔ ظاہر ہے کہ میرا مطالعہ محدود ہے ، مجھے ساری تفصیلات اور تاریخی حقائق کے علم کا دعویٰ نہیں، عید سے دو روز قبل 11ستمبر کو قائد اعظم کا یوم وفات تھا۔ میں بمشکل تین اخبارات پڑھ سکتا ہوں۔ ان میں مجھے بعض ایسی تحریریں نظر آئیں جو حقائق کے منافی تھیں اور ان سے یقیناً قارئین کے ذہنوں میں غلط تاثرات پیدا ہوئے ہوں گے۔ اسے کہتے ہیں تاریخ کو مسخ کرنا اور نوجوان نسلوںکو گمراہ کرنا……اصل موضوع کی طرف آنے سے قبل مجھے اس دکھ کے اظہار کرنے کی اجازت دیجئے کہ ہمارے میڈیا کی قائد اعظم اور تحریک پاکستان میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے۔ عید کے مسلسل تین روز مجھے تقریباً ہر چینل پر بکرے، بیل، اونٹ اور ان کی ادائیں، سجاوٹیں اور بیلوں کی بغاوتوں کے مناظر بے تحاشا نظر آئے، کھابوں اور پکوانوں کے مناظر بھی بھوک پیدا کرتے رہے لیکن گیارہ ستمبر کو قائد اعظم کے حوالے سے ایک بھی ڈھنگ کا پروگرام دیکھنے کو آنکھیں ترستیں رہیں۔ الیکٹرانک میڈیا ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں اپنا قومی فرض بھول چکا ہے اور وہ قومی فرض ہے قوم کی ذہنی تعمیر، نوجوان نسلوں کی تعلیم و تربیت اور تحریک پاکستان کے جذبوں کا احیاء…..اس کے ساتھ ساتھ قائد اعظم کی شخصیت اور کردار کو اجاگر کرکے ناظرین کے ذہنوں میں ایک آئیڈیل قیادت کے تصور کو پروان چڑھانا بھی ایک اہم قومی فرض ہے۔ ہر قوم اپنے ہیروز پر فخر کرتی ہے اور انہیں قوم کے لئے باعث تفاخر بناتی ہے۔ میرے نزدیک معاشرے میں آئیڈیلز (Ideals)،تاریخی شعور اور عظیم شخصیات کے کردار اور کارناموں کو زندہ رکھنا خود اپنے معاشرے کو زندہ رکھنے کے لئے ناگزیر ہوتا ہے اور یہ کام میڈیا ہی کرسکتا ہے۔ اخبارات نے تو قائد اعظم کو ایک ایک رنگین صفحہ دے کر حاتم طائی کو شرمندہ کردیا لیکن الیکٹرانک میڈیا بدستور سیاستدانوں کے دنگل کروانے اور تجزیات کی آڑ میں نفرتیں پھیلانے میں مصروف رہا یا پھر گانوں سے لوگوں کے دل بہلاتا رہا۔ میری جسارت کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ گانے نہ سنائے جائیں، بکروں کی سجاوٹ، بیلوں کے فرار اور اچھل کود کے مناظر نہ دکھائے جائیں۔ آپ جس طرح چاہیں قوم کی خدمت کریں اور تفریح کا سامان مہیا کریں لیکن اپنے آٹھ یا بارہ گھنٹوں میں سے اہم قومی ایام کو بھی45منٹ دے دیں تو اس سے قوم کی صحت پر اچھا اثر پڑے گا۔ پھر پورے سال میں اہم قومی ایام ہیں ہی کتنے؟ بس یہی کوئی چھ سات…..اگر ان مواقع پر ریٹنگ کے چکر سے تھوڑا سا آزاد ہوجائیں تو گھاٹے کا سودا نہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ اس بار14اگست کو بھی یہی بے حسی دیکھنے میں آئی۔ ایک چینل نے 14اگست کے حوالے سے معمولی درجے کا پروگرام کیا اور پھر محسوس کیا کہ اس کی ریٹنگ توقع سے کم تھی۔ میرا مشاہدہ ہے کہ ایسے اہم مواقع پر ریٹنگ کی کمی کا باعث عام طور پر وہ حضرات ہوتے ہیں جنہیں پروگراموں میں مدعو کیا جاتا ہے اگر شریک گفتگو موضوع پر گرفت رکھتا ہو اور گفتگو کا ڈھنگ جانتا ہو تو ناظرین اتنے بدذوق یا علم دشمن نہیں کہ پروگرام نہ دیکھیں۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ اللہ کے فضل و کرم سے مجھے ہر ہفتے کئی کتابیں موصول ہوتی ہیں اور ہر سال مجھے قائد اعظم اور تحریک پاکستان وغیرہ پر کئی درجن کتابیں ملتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان موضوعات پر لکھنے اور پڑھنے کا سلسلہ جاری ہے اور قارئین کی ان موضوعات میں دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ اس لئے اگر الیکٹرانک میڈیا یا ایسے پروگراموں کے حوالے سے ریٹنگ (Rating)کی شکایت کرے تو مجھے اس کے پروگرام کی کوالٹی پر شبہ ہوگا نہ کہ ناظرین کی دلچسپی پر…..ان دنوں مجھے قائد اعظم کے حوالے سے چند کتابیں موصول ہوئیں جن میں محترم جبار مرزا کی کتاب قائد اعظم اور افواج پاکستان، میاں عطا ربانی مرحوم کی کتاب(Jinnah a political saint) قابل ذکر اور قابل مطالعہ ہیں تحقیق، گہری ریسرچ اور اعلیٰ درجے کی دو کتابیں جن کے مصنّفین نے کئی برس عرق ریزی کی اور حوالہ جاتی کتابیں لکھیں وہ ہیں ڈاکٹر شہلا کاظمی کی کتاب(M A Jinnah leadership pattern) اور ڈاکٹر سکندر حیات کی کتاب(The charismatic leadership)کا نظرثانی شدہ ایڈیشن …..دنیا جہان میں قائد اعظم پر تحقیقی کام جاری ہے اور ہر سال غیر ممالک میں اس موضوع پر اعلیٰ درجے کی علمی کتابیں اور تحقیقی مقالے چھپ رہے ہیں۔ میں یہ کیسے مان لوں کہ پاکستانی عوام کی اپنے قائد ،قائد اعظم اور تحریک پاکستان میں دلچسپی کم ہوگئی ہے جبکہ میں پریس میں ہر روز ایسے مضامین پڑھتا ہوں جن میں موجودہ قائدین کے کردار، کارناموں اور بصیرت کے فقدان کا نوحہ لکھتے ہوئے قائد اعظم کی مثالیں دی جاتی ہیں، ان کی زندگی کے واقعات کے حوالے دئیے جاتے ہیں۔
دوستو! معاف کرنا بات ذرا دور نکل گئی، میں کہہ رہا تھا کہ گیارہ ستمبر کے حوالے سے صرف تین اخبارات پڑھتے ہوئے مجھے قائد اعظم کے حوالے سے تین ایسے مضامین یا کالم پڑھنے کا اتفاق ہوا جن میں واقعاتی اور تاریخی غلطیاں تھیں۔ یہ غلطیاں نہ صرف غلط تاثر پیدا کرتی تھیں بلکہ تاریخ کو مسخ کرنے کے مترادف تھیں، اس لئے میں نے تصحیح یا وضاحت اپنا قومی فرض جانا۔ ہمارا پرابلم یہ ہے کہ ہمیں لکھنے کی جلدی ہوتی ہے اور تحقیق کی ہم ضرورت نہیں سمجھتے ،چنانچہ سنی سنائی کو مستند تاریخ کا درجہ دینے کے مرتکب ہوتے ہیں۔ گہری نظر سے مطالعہ اور تحقیق بڑا کٹھن اور صحت لیوا کام ہے جس کے لئے ہمارے پاس وقت ہی نہیں۔ ا فسوس، میں ان ’’ہوائیوں‘‘ اور بے بنیاد باتوں کی شواہد کے ساتھ کئی مرتبہ وضاحت اور تردید کرچکا ہوں لیکن چونکہ ہمیں پڑھنے کی عادت نہیں اس لئے انہیں دہراتے رہتے ہیں۔ جنگ میگزین میں جھانکتے ہوئے میری نظر محترم سلطان صدیقی(پشاور) کے مضمون پر پڑی جس میں انہوں نے نیپ سابق نیشنل عوامی پارٹی اور محترم غفار خان کے ساتھیوں کی پھیلائی ہوئی سازش کہانی کو تاریخی واقعے کے طور پر پیش کیا ہے۔ صدیقی صاحب نے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ1948کے دورے کے دوران گورنر جنرل قائد اعظم کی غفار خان سے ملاقات نہ ہوسکی جس سے مستقبل کی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ افسوس محترم صدیقی صاحب تھوڑی سی تحقیق کرلیتے اور آنکھیں بند کرکے مخالفین کی بات نہ مانتے۔ میں تحقیق کے بعد یہ عرض کررہا ہوں کہ یہ جھوٹ ہے، افسانہ ہے۔ قائد اعظم کی غفار خان اور ڈاکٹر خان صاحب سے ملاقاتیں ہوئیں اور ہر ملاقات ڈیڑھ گھنٹے پر محیط تھی۔16اور17اپریل 1948کی ملاقاتوں کے بعد خود خان برادران نے اخباری رپورٹروں سے کہا کہ گفتگو دوستانہ ماحول میں ہوئی لیکن تفصیل نہیں بتاسکتے۔ اے کاش! صدیقی صاحب صرف اور صرف اپریل1948کا پرانا پاکستان ٹائمز اخبار دیکھ لیتے جس میں ان ملاقاتوں کی خبریں بھی موجود ہیں اور فرنٹیئر ریجن کے جوائنٹ سیکرٹری کرنل اے ایس بی شاہ کی پریس بریفنگ بھی شائع ہوئی ہے۔ کرنل صاحب قائد ا عظم کی ڈیوٹی پر مامور تھے جو حضرات اس موضوع میں دلچسپی رکھتے ہیں وہ میرا تفصیلی مقالہ میری کتاب ’’دور آگہی‘‘ میں ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ میرے ایک محترم دوست نے روزنامہ نوائے وقت میں 11ستمبر1948کو کراچی میں قائد اعظم کی آمد کے موقع پر لیاقت علی خان کی غیر حاضری پر غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ یہ تاثر لیاقت مخالف لابی نے اتنی محنت سے گھڑا اور قائم کیا ہے کہ ہر شخص اس سازش تھیوری میں یقین رکھتا ہے۔ میں تحقیق کے بعد کئی بار اس کی تردید کرچکا ہوں لیکن مہربان پڑھنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے۔ سچ یہ ہے کہ لیاقت علی خان نہ صرف ائیر پورٹ پر آئے بلکہ جب ایمبولینس خراب ہوگئی تو دوسری ایمبولینس کے آنے تک وہیں موجود رہے۔ کیپٹن(بعد ازاں بریگیڈیر) نور حسین قائد اعظم کے اے ڈی سی کی حیثیت سے ساتھ آئے انہوں نے نہ صرف میرے ساتھ انٹرویو میں اس کی تصدیق کی بلکہ اس موضوع پر ایک فکر انگیز مضمون بھی لکھا جو دی نیوز میں شائع ہوا اور میری کتاب’’اقبال جناح اور پاکستان‘‘ میں بطور ضمیمہ شامل ہے۔ بریگیڈیر نور حسن نے اپنے ایک اور انٹرویو میں بھی لیاقت علی خان کی ائیر پورٹ پر موجودگی کی تصدیق کی ہے(بحوالہ دی گریٹ لیڈر، منیر احمد منیر صفحہ155)سید بشیر حسین جعفری نے اپنے مضمون پاکستان کے ساتھ میرا سفر میں قائد ا عظم کے سیکورٹی آفیسر کریم اللہ کی خود نوشت ڈائری کا حوالہ دیا ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ لیاقت علی خان ائیر پورٹ پر آئے۔ ایمبولینس کی کہانی ذرا طویل ہے لیکن سچ یہ ہے کہ اس کی خرابی کسی سازش کا حصہ نہیں تھی اور اس کی ذمہ داری قائد اعظم کے ملٹری سیکرٹری کرنل نوٹلز ا ور معالج کرنل رحمان پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے اس کا انتخاب کیا۔ قائد اعظم سے منسوب تیسری بات جگن ناتھ آزاد کے ترانے کے حوالے سے لکھی گئی جو سراسر بے بنیاد ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ نہ قائد اعظم جگن ناتھ آزاد کے نام سے شناسا تھے، نہ اسے ترانہ لکھنے کے لئے کہا گیا اور نہ ہی کبھی جگن ناتھ آزاد کا ترانہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا۔ اس حوالے سے ریڈیو پاکستان کا حلفی بیان میرے پاس موجود ہے جو حضرات اس موضوع پر تفصیلی مضمون پڑھنا چاہتے ہیں وہ میری کتاب ’’پاکستان میری محبت‘‘ میں اس پر شامل تحقیقی مقالہ ملاحظہ فرمائیں۔