دوسری جنگ عظیم میں جرمن افواج انتہائی تیز رفتاری سے مفتوحہ علاقوں کو روندتی ہوئی انگلستان کے ساحلوں پر پہنچ گئیں۔ لندن اور برطانیہ پر جرمن ایئرفورس تابڑتوڑ حملے کر رہی تھی انگریزوں کیلئے کوئی جائے پناہ نہ تھی مگر زندہ قوم نے جنگ عظیم کا رخ بدل کر رکھ دیا،ہندوستان نے ہم پر اسی طرح حملہ کیا مگر ہماری بہادر افواج نے اسے اپنی سرحدوں سے ایک گز بھی آگے نہیں بڑھنے دیا، ان کا جیم خانہ لاہور میں چائے پینے کا خواب چکناچور کردیا،ہندوستانی فوج کے سربراہ وہ ہی شخص تھا جس نےحیدر آباد دکن میں ڈھائی لاکھ اتحاد المسلمین کے رضا کاروں کو مار کر اپنی فتح کےجھنڈے گاڑ دیئے۔ یہ رضاکار حیدرآباد دکن کو جوایک بہت بڑی مسلم ریاست تھی بچاتے ہوئے شہید ہوئے اس وقت ہندوستان کے وزیر دفاع سردار ولبھ بھائی پٹیل تھے۔ انہوں نے اعلان کیا تھا کہ ہماری افواج کے سربراہ شام کی چائے لاہور جیم خانہ کلب میں پیئے گے۔ مگر ہماری قوت مدافعت نے انہیں سرحدوں کے پامال کرنے کی اجازت نہ دی اور ہندوستان کو روس کےذریعے معاہدہ تاشقندکے ذریعے پاکستان سے صلح کرنی پڑی اور معاہدہ تاشقند کرنا پڑا جس کے دستخط کرنے پر بھارتی وزیراعظم پر دل کا دورہ پڑا اور بے ہوش ہوگئے۔ یہ ہماری بہادر فوج اور زندہ جاوید قوم کی قوت مدافعت کی وجہ سے تھا، ہندوستان ہماری سرحدوں کو پار نہ کرسکا اور بی آر بی نہر اس کی فوج کا قبرستان بن گئی، پاکستانی قوم جس انداز سے1965کی جنگ میں جذبے سےسرشار ہوئی وہ دنیا کے لئے مثال ہے۔ آج ہم بڑے فخر کے ساتھ اپنی افواج کا ذکر کرتے ہیں، ہمارے صدر ایوب خان نے ریڈیو پاکستان سے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کومعلوم نہیں کہ اس کا واسطہ کس قوم سے پڑا ہے۔ دور غلامی میں قدرت نے ہمیں جس فیاضی سے قیادت عطا کی اور ہمارے یہاں بڑے دانشور پیدا ہوئے مگر آزادی کے بعد ایک بھی، قائد اعظم، علامہ اقبال،محمد علی جوہر، حسین شہید سہروردی نہ دیا، آج جو لیڈر شپ ہمارے یہاں ہے اس کا قد بہت چھوٹا اور عقل و خلد سے عاری ہے، جس نے پاکستانی قوم کو کوئی بھی راہ نجات اور عقل و دانش نہیں دی، جس کےذریعے قوم کوعظمت ملے ، جب سے پاکستان بنا ہے، ہم مسلسل خود ساختہ سیاسی رہنمائوں کی تحریکوں کی زد میں ہیں، ہم بنیادی جمہوریت،انتخابات اور مارشل لا کے دور سے گزر چکے ہیں مگر ابھی منزل کا پتہ نہیں ہمارے سیاسی ناخدائوں کو بھی معلوم نہیں کے انہیں کیا کرنا ہے، عام آدمی کو صرف قربانیاں دینے کیلئے رکھا جاتا ہے۔ شاید ہمارے دشمنوں کی یہی خواہش ہے کہ اس قوم کو مزاحمتی جدوجہد سے دور رکھا جائے۔ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے، دنیا کا ساتواں طاقتور ملک مگر بدقسمتی سے عوام کو ہمارے رہنما کوئی انقلابی لائحہ عمل دینے سے محروم ہیں، اقتدارکی گردشوں میں چند بڑے خاندان عیش لوٹنے میں مصروف ہیں، ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگتے رہتے ہیں، کرپشن ملک سے ختم نہ کی جاسکی، جغرافیائی لحاظ سے ہمارا ملک بہت اہم جگہ پر واقع ہے۔ قدرت نے بڑی فیاضی سے ہمیں قدرتی وسائل عطا کئے ہیں، مگر قرض لے لے کر ہمارے حاکموں نے ہمیں ایک سست قوم میں تبدیل کر دیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پلاننگ کے ذریعے ہمیں قوت مدافعت سے محروم کیا جارہا ہے۔ چین کو اب سے کچھ عرصہ پہلے ایک سوئی ہوئی قوم سمجھا جاتا تھا مگر اس کے رہنمائوں نے مسلسل قربانیاں دے کر اسے ایک انقلابی قوم میں تبدیل کر دیا۔ چینی قوم اپنی جدوجہد کے ذریعے ایک طاقت ور اور عظمت والی قوم بن چکی ہے، جس سے بڑی بڑی قوتیں خوف زدہ ہیں مگر ہمارے سیاسی ناخدا پتا نہیں کیا کرنا چاہتے ہیں، گزشتہ نصف صدی سے پاکستانی عوام بڑے صبر آزما مراحل سے گزرے ہیں۔ کرپشن کی خبریں سن سن کر ان کے دماغ مفلوج ہو چکے ہیں، قوم حکمرانوں سے اس معاشرے کی طلب کررہی ہے، جس میں حضرت عمرؓ سے پوچھا گیا تھا کہ آپ کے پاس یہ کرتا کہاں سے آیا ۔