counter easy hit

کہیں کوئی دم توڑ رہا ہے، مظہر برلاس

There is someone going through a soul by Mazhar Barlas Column on 20 Sep 2016

There is someone going through a soul by Mazhar Barlas Column on 20 Sep 2016

شہر علم کے دروازے سے ابتداء ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں، موت سے متعلق وصیت کرتے ہیں’’اے اللہ کے بندو! میں تمہیں دنیا کے چھوڑنے کی وصیت کرتا ہوں جو تمہیں چھوڑ دینے والی ہے حالانکہ تم اسے چھوڑنا پسند نہیں کرتے اور وہ تمہارے جسموں کو کہنہ و بوسیدہ بنانے والی ہے۔ تمہاری اور دنیا کی مثال ایسی ہے جیسے چند مسافر کسی راہ پر چلیں اور چلتے ہی منزل طے کر لیں یعنی بہت جلد اپنے انجام کو پہنچ جائیں۔ دنیا میں عزت اور اس میں سر بلندی کی خواہش نہ کرو اور نہ اس کی آرائشوں اور نعمتوں پر خوش ہوا کرو اور نہ ہی اس کی سختیوں اور تنگیوں پر چیخا چلایا کرو، اس لئے کہ اس کی عزت و فخر، دونوں مٹ جانے والے ہیں۔ اس کی آرائشیں اور نعمتیں زائل ہو جانے والی ہیں اور اس کی سختیاں اور تنگیاں آخر ختم ہو جائیں گی۔ ہر زندہ کا انجام فنا ہونا ہے، کیا پہلے لوگوں کے واقعات تمہارے لئے کافی تنبیہ کا سامان نہیں اور تمہارے لئے عبرت اور بصرت نہیں؟ اگر تم سوچو سمجھو، کیا تم گزرے ہوئے لوگوں کو نہیں دیکھتے کہ وہ پلٹ کر نہیں آتے اور ان کے بعد باقی زندہ رہ جانے والے بھی زندہ نہیں رہتے کیا تمہاری نظر دنیا والوں پر نہیں جو وہ صبح و شام کرتے ہیں، کہیں کوئی میت ہے جس پے رویا جا رہا ہے، کہیں کوئی مبتلائے مرض ہے، عیادت کرنے والا عیادت کر رہا ہے اور کہیں کوئی دم توڑ رہا ہے، کوئی دنیا تلاش کرتا پھرتا ہے اور موت اسے تلاش کر رہی ہے اور کہیں کوئی غافل پڑا ہے لیکن موت اس سے غافل نہیں ہے، گزر جانے والوں کے نقش قدم پر ہی باقی رہ جانے والے چل رہے ہیں میں تمہیں متنبہ کرتا ہوں کہ بداعمالیوں کے ارتکاب کے وقت ذرا موت کو بھی یاد کر لیا کرو کہ جو تمام لذتوں کو مٹا دینے والی ہے، تمام نفسانی مزوں کو کرکرا کر دینے والی ہے۔ اللہ کے واجب الادا حقوق ادا کرنے اور اس کی ان گنت نعمتوں اور لاتعداد احسانات کا شکر بجا لانے کے لئے اس سے مدد مانگتے رہو۔۔۔‘‘
آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کیا میں نے ڈرانے والی باتوں سے آغاز کیا ہے مگر حقیقت یہی ہے، اس سے جتنی مرضی آنکھیں چرائی جائیں، اس حقیقت کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ چند دنوں کے بعد نئے اسلامی سال کا آغاز ہونے والا ہے اور خوش قسمتی سے نیا سال پاکستان کے لئے بہت عمدہ ہے لیکن پاکستان کے ہمسائے بھارت کے لئے پریشانی کا سال بن کر نیا برس آ رہا ہے۔ اس وقت بھارت کے کئی علاقوں میں آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں صرف برہمنوں کو اونچا دکھانے کے لئے مودی سرکار انتہائی گھٹیا کھیل کھیل رہی ہے۔ واضح رہے کہ برہمن ہندوئوں میں احترام کی نگاہ سے ضرور دیکھے جاتے ہیں مگر برہمنوں کی اکثریت تو نہیں، ہندوئوں میں بھی اکثریت ان کی ہے جنہیں بہت نچلا تصور کیا جاتا ہے۔ ایسے ہندوئوں نے بھی آزادی کی تحریک شروع کر رکھی ہے جنہیں غلامی کی زندگی گزارتے صدیاں بیت چکی ہیں۔
ہندوستان میں علیحدگی کی دو تحریکیں اس وقت خطرناک موڑ پر ہیں۔ ان دونوں تحریکوں کے پس منظر میں مذہبی عقائد کی توہین شامل ہے، کون نہیں جانتا کہ بھارت سرکار نے سکھوں کی عبادت گاہوں کی توہین کی، کون نہیں جانتا کہ کشمیر میں مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے بھارتی سرکار عرصے سے کھیل رہی ہے۔ اس مرتبہ بھی سری نگر کی دو مرکزی مساجد میں عید کی نماز نہ ہو سکی۔ پوری وادیٔ کشمیر میں کرفیو کے باعث اجتماعی نماز عید مشکل ہو گئی تھی، اسی طرح مسلمانوں کو قربانی میں مشکلات پیش آئیں بلکہ اکثر علاقوں میں قربانی نہ ہو سکی۔ کشمیر میں مسلمانوں کو اسی طرح نماز جمعہ سے بھی روکا جاتا ہے جو لوگ بھارت سے دوستی کے قائل ہیں انہیں شرم آنی چاہئے کہ وہ ایک ایسے ملک سے محبت کے خواب دیکھتے ہیں جہاں محبت کو کچلا جاتا ہے، جہاں انسانی حقوق کو پامال کیا جاتا ہے، جہاں لوگوں کی مذہبی آزادیوں کو سلب کیا جاتا ہے، جہاں انسانوں میں اونچ نیچ کا نظام ہے، جہاں تشدد ہے، ظلم ہے، بددیانتی ہے، جھوٹ ہے، فریب ہے، مکاری ہے اور انسانیت کی توہین ہے۔
شرم تو مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو بھی آنی چاہئے کہ وہ دنیا کی چند روزہ عزت اور شہرت کے لالچ میں اپنے مسلمان بھائی بہنوں کے ساتھ کیا ظلم کر رہی ہے، کیا جب کسی مسلمان کا جنازہ اٹھتا ہے تو اس وقت محبوبہ مفتی کے پلڑے میں نیکیاں لکھی جاتی ہیں، محبوبہ مفتی کے لئے مقام عبرت ہے کہ اس کا کردار یزیدی قوتوں جیسا ہے، مسلمانوں پر جاری ظلم و ستم کے جواب میں چاہئے تو یہ تھا کہ محبوبہ استعفیٰ دیتی، احتجاج کرتی اور آزادی کی تحریک میں شامل ہو جاتی، اس کا نام بھی’’ حُر‘‘ کی صف میں لکھا جاتا، مگر افسوس مفتی سعید کی بیٹی محبوبہ مفتی ایسا نہ کر سکی، شاید لوگوں کو یاد نہ ہو کہ مفتی سعید کی سیاسی پارٹی بنانے میں اجیت کمار دوول کا کردار تھا، 90ء کی دہائی میں جب مفتی سعید پارٹی بنا رہے تھے تو اجیت کمار دوول وزارت داخلہ میں اہم عہدے پر تھا، اس نے کشمیر کے لئے ایک پلان ترتیب دیا، اسی منصوبے میں محبوبہ مفتی کے باپ کی پارٹی بھی شامل تھی۔
میں بھارت سے ایک ہندو کی زبانی بیان کئے گئے ظلم و ستم پر کیا کہوں کہ آخر کشمیریوں پر ظلم کس قدر ہو گا کہ ہیومن رائٹس واچ کی ڈائریکٹر جنوبی ایشیا میناکشی گنگولی کا کہنا ہے کہ۔۔۔ ’’نئی دہلی کو کشمیر میں بے چینی کی اندرونی وجوہات کو دور کرنے کی ضرورت ہے، جس میں ناانصافی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا احتساب بھی شامل ہو، کچھ عرصے سے کشیدگی اور ناراضی بڑھ رہی ہے۔۔۔‘‘
میناکشی گنگولی نے بڑے نرم اور سادہ الفاظ میں بھارتی حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ظلم و ستم کا راستہ چھوڑ دے مگر مودی سرکار پر شاید اس کا اثر نہ ہو کیونکہ وہ تو کشمیر میں فوج بڑھا رہی ہے، ظلم بھی بڑھا رہی ہے۔
خبروں کے مطابق وزیراعظم نواز شریف اقوام متحدہ میں کشمیر کا مقدمہ پیش کریں گے، وزیراعظم کو چاہئے کہ جب وہ کشمیر میں ہونے والے ظلم و ستم کی داستان بیان کریں تو ساتھ ہی وہ اعلان کریں کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں آل پارٹیز حریت کانفرنس کی جنرل کونسل کو مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی تسلیم کرنے کا اعلان کرتا ہے، نہ صرف اسے تسلیم کرنے کا اعلان کرتا ہے بلکہ اس کے لئے باقاعدہ بجٹ کا بھی اعلان کرتا ہے تاکہ مقبوضہ کشمیر کے اصل نمائندے اپنی آواز دنیا تک پہنچا سکیں، یہ بجٹ ان کی آواز کو جہان بھر میں پہنچانے کے لئے بہت ضروری ہے، اس اعلان سے کشمیریوں کی اخلاقی مدد بھی ہو گی، ان کی تحریک میں مزید جان آئے گی اور سب سے زیادہ اہم بات یہ کہ وہ اپنی آواز دنیا تک خود پہنچا سکیں گے۔
مودی سمیت کٹر ہندو گائوماتا کا بہت احترام کرتے ہیں، مقبوضہ کشمیر کے نوجوانوں نے انوکھا اور پیارا کام یہ کیا ہے کہ گائے کے بدن پر پاکستان کا پرچم بنا دیا ہے۔ اس کا توڑ برہمنوں کے پاس نہیں ہے جاتے جاتے محسنؔ نقوی یاد آگئے کہ
جنگ ٹھہری تھی میری گردش تقدیر کے ساتھ
میں قفس میں بھی الجھتا رہا زنجیر کے ساتھ
دل کے زخموں سے الجھتے ہیں، بھٹک جاتے ہیں
لفظ ڈھلتے ہیں میرے شہر میں تاخیر کے ساتھ
ایسا قاتل ہے مسیحا کے با انداز جنوں
دل کو دل سے ملاتا ہے شمشیر کے ساتھ

بشکریہ جنگ

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website