counter easy hit

آئٹم نمبر برداشت کرنے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے، خان صاحب رحم کریں، رحم

بہتر ہوتا کہ وزیر اعظم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کےلئے روانہ ہونے سے قبل پارلیمان میں موجود حکومت مخالف جماعتوں کے رہنماﺅں سے ایک باقاعدہ اجلاس کے ذریعے صلاح و مشورے کر لیتے۔ یہ ہو جاتا تو بھارتی پراپیگنڈہ بریگیڈ کو یہ کہانی گھڑنے کی گنجائش نہ مل پاتی کہ پاکستانی وزیر اعظم نے وہاں ایک ایسی تقریر پڑھی جو ہماری عسکری قیادت نے تحریر کی تھی۔

بھارتی پراپیگنڈہ بریگیڈ کو یہ کہانی گھڑنے کےلئے مواد اگرچہ ہمارے ان ”محب وطن“ سیاستدانوں اور اینکر خواتین و حضرات ہی نے فراہم کیا ہے جو دن رات ”مودی کے یار“ کو بزدلی کے طعنے دیتے رہتے ہیں۔ ان دنوں بھی ان میں سے چند سیاست دان مسلسل کہے چلے جا رہے ہیں کہ پاک، بھارت جنگ کی صورت وہ ”پاک فوج کا ساتھ دیں گے“۔ یہ ”پیشکش“ یا وعدہ انتہائی سفاکی سے یہ بات بھلائے ہوئے کیا جا رہا ہے کہ کسی بھی ملک کی فوج آج کے دور میں دشمنوں کےساتھ تنہا نہیں لڑسکتی۔ جدید جنگ کو صرف ہتھیاروں کے ذریعے ہی نہیں، سماجی اور معاشی معاملات سے جڑے تمام شعبوں کو متحرک کرنے کے ذریعے ہی لڑا جا سکتا ہے۔
بہرحال اس کالم کو لکھنے کے روز وزیر اعظم نے پارلیمان میں موجود جماعتوں کے سربراہوں کو پاک- بھارت تعلقات کے حوالے سے حال ہی میں نمایاں ہوئی کئی نئی جہتوں کی روشنی میں صلاح مشورے کےلئے بلا لیا ہے۔ مجھے ہرگز خبر نہیں کہ وزیر اعظم اس اجلاس کو کس انداز میں چلانے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہیں۔ خواہش البتہ میری بہت شدید ہے کہ اپنے مہمانوں کی رائے لینے سے قبل ان کےلئے عسکری اور سفارتی نمائندوں کے ذریعے تفصیلی بریفنگ کا بندوبست بھی ہو۔
گزشتہ جمعرات کی صبح کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر “سرجیکل سٹرائیک” کے دعوے کے بعد بھارتی وزیر اعظم نے چند گھنٹوں کے اندر اپنی پارلیمان میں موجود حکومت مخالف جماعتوں کے رہنماﺅں کا اجلاس بلا لیا تھا۔ بھارت کے ڈائر یکٹر جنرل ملٹری آپریشنز نے ان رہنماﺅں کو “سرجیکل سٹرائیک” کے بارے میں لیپ ٹاپ کی مدد سے تفصیلی بریفنگ دی۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے ’یا چوری ‘ کو اس بریفنگ کے دوران اٹھائے کئی سوالات کا تسلی بخش جواب نہیں مل پایا۔ وہ بہت محتاط زبان میں اب اپنے تحفظات کا اظہار کھلے عام کر رہے ہیں۔
انہیں ان تحفظات کا اظہار کرنےکی وجہ سے انکے ملک میں کوئی ”غدار“ کہہ کر نہیں پکار رہا۔ سب کو علم ہے کہ ایک عوامی رہنما ہوتے ہوئے ٹھوس معلومات کو تفصیلی انداز میں جاننا یا چوری کا حق ہے۔ ٹھوس معلومات کو تفصیلی انداز میں جان کر ہی عوامی رہنما فوجی منصوبہ سازوں کو ٹھوس سیاسی ان پٹ  فراہم کر سکتے ہیں۔
ٹھوس معلومات کو تفصیلی انداز میں جاننے کا مطالبہ ہمارے رہنماﺅں کی جانب سے بھی بھرپور انداز میں اٹھانا چاہیے۔ بھارت کی طرف سے لائن آف کٹرول پر سرجیکل سٹرائیک کا دعویٰ دفاعی معاملات کی ذرا سی شدھ بدھ رکھنے والے شخص کو ہضم کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ سفارتی حوالوں سے البتہ ایسی  سٹرائیک کے دعوے پر جمے رہتے ہوئے بھارتی حکومت پاکستان اور دُنیا کو یہ بتانا چاہ رہی ہے کہ اسکی نظر میں اب 1972ءکے معاہدہ شملہ کے تحت کشمیر پر قائم ہوئی لائن آف کنٹرول کی حرمت باقی نہیں رہی۔ پیر کے روز شائع ہوئے اپنے کالم میں اس خاکسار نے اس پہلو کو اجاگر کرنےکی کوشش کی ہے۔
مجھ ایسے دو ٹکے کے رپورٹر کے پاس مگر حقائق تک ایسی رسائی نہیں ہوتی جو وزیر اعظم یا انکے سیاسی مخالف لیکن عوام کے نمائندہ سیاست دانوں کا حق ہوا کرتا ہے۔ انہیں رسائی کے اس حق کو بھرپور انداز میں استعمال کرنا ہو گا۔ بھارت نے اگر حقیقتاً معاہدہ تاشقند کے تحت ہوئے بندوبست کا احترام نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو یہ پاک- بھارت کشیدگی کے تناظر میں ایک اہم ترین پیراڈیم شفٹ ہے۔ اس شفٹ  کے اثرات ہمیں آنے والے دنوں میں تواتر اور شدت کےساتھ نمایاں ہوتے نظر آسکتے ہیں۔
ٹھوس حقائق کو تفصیلی انداز میں جاننے کی تڑپ لیکن ہمارے منتخب سیاستدانوں میں موجود نظر نہیں آرہی۔ عمران خان کو آپ پسند کریں یا نہیں۔ ٹھوس حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ عوامی پذیرائی کے حوالے سے وہ اس وقت پاکستان میں سب سے زیادہ طاقت ور اور بااثر اپوزیشن رہنما ہیں۔ بہتر ہوتا کہ وہ وزیر اعظم کی جانب سے بلائے اجلاس میں ذاتی طور پر شریک ہوتے۔ نواز شریف کی نفرت میں لیکن انہوں نے اس اجلاس میں شریک ہونا گوارا نہیں کیا۔ شاہ محمود قریشی کو تحریک انصاف کی نمائندگی کےلئے نامزد کر دیا ہے۔
شاہ محمود قریشی کو نامزد کرنے کے بعد بھی عمران خان یہ مطالبہ کر سکتے تھے کہ وزیر اعظم کی جانب سے پیر کے روز بلائے اجلاس میں منتخب سیاستدانوں کے خیالات جاننے سے قبل پاکستان کے عسکری اور سفارتی ادارے انہیں ٹھوس معاملات کو تفصیلی انداز میں سمجھائیں۔ ایسا ہی مطالبہ قومی اسمبلی میں حزب مخالف کے رہنما سید خورشید شاہ کی جانب سے بھی آنا چاہیے تھا۔ پیر کے روز ہونےوالے اجلاس میں اپنی جماعت کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی شرکت کا اہتمام کرتے ہوئے انہوں نے ایک اچھا فیصلہ کیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کو ایک نوجوان اور پڑھے لکھے سیاستدان ہوتے ہوئے ہمارے لئے یہ معلوم کرنا چاہیے کہ آیا بھارت نے واقعتاً انکے نانا کی جانب سے طے کئے کشمیر پر کنٹرول لائن والے بندوبست کو رد کر دیا ہے یا نہیں۔
بڑھک بازی کے عادی بنائے میرے کئی قارئین اُکتاہٹ میں یہ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ میری سوئی، معاہدئہ تاشقند کے ذریعے کشمیر میں قائم ہوئی لائن آف کٹنرول پر اٹک کر کیوں رہ گئی ہے۔ اس سوال کا تفصیلی جواب ضروری ہے۔ اسے محض ایک کالم کے ذریعے لیکن ہرگز بیان نہیں کیا جاسکتا۔ آپ سے وعدہ ہے کہ آنےوالے دنوں میں وقتاً فوقتاً اس معاملے سے جڑے کئی پہلوﺅں کو آپ کے سامنے لانےکی کوشش کرتا رہونگا۔ فی الوقت یہ دہرانا البتہ بہت ضروری ہے کہ بھارت کو واضح الفاظ میں پاکستان کی طرف سے یہ پیغام فی الفور مل جانا چاہیے کہ معاہدہ تاشقند کے ذریعے ہوئے بندوبست کا ہر حوالے سے احترام کرنا ہوگا۔ اس بندوبست سے انکار ممکنہ پاک- بھارت جنگ کو ہرگز ”محدود“ نہیں رکھ پائےگا۔
پاک- بھارت تعلقات میں ہمہ وقت بڑھتی کشیدگی اور لائن آف کنٹرول کی حرمت سے جڑے سوالات کی اہمیت کے تناظر میں مجھے عمران خان کے ایک ٹویٹر کو پڑھ کر دلی افسوس ہوا۔ اس ٹویٹر پیغام کے ذریعے تحریک انصاف کے رہنما نے اس بات کا تقاضہ نہیں کیا کہ وزیر اعظم کی جانب سے بلائے اجلاس میں انکے نمائندے- شاہ محمود قریشی- کو عسکری اور سفارتی نمائندوں کے ذریعے ٹھوس معلومات تفصیلی انداز میں فراہم کی جائیں۔
اپنے ٹویٹر پیغام میں عمران خان نے افسوس کا اظہار کیا ہے تو صرف اس بات پر کہ راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے ان کے مربی اور تحریک انصاف کے جلسوں کو ”آئٹم نمبرز“ کے ذریعے گرمانے والے صاحب کو پیر کے روز ہوئے اجلاس میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی۔
عمران خان کا دُکھ سمجھا جا سکتا ہے۔ راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراط عصر اکثر یہ دعویٰ کرتے ہیں چینی انقلاب برپا کرنےوالے ماﺅزے تنگ نے اپنے وزیر اعظم کو فون کر کے حکم دیا کہ وہ پاکستان کے اس ”انقلابی“ سے ملاقات کریں۔ چو این لائی سے ہوئی ملاقات میں غالباً ہمارے بقراط نے وہ نسخے فراہم کئے ہوں گے جن پر عمل کرتے ہوئے عوامی جمہوریہ چین اب امریکہ جیسی سپر طاقت کا اہم پلہ نظر آرہا ہے۔
نواز شریف صاحب کو بھی اس ”حکیم عصر“ سے کچھ نسخے حاصل کرنا چاہئیں۔ مجھے اگرچہ یہ خوف ہے کہ موصوف پیر کے روز ہوئے اجلاس میں بھارت کو بھی اسی طرح ”ڈبونے“ کا مشورہ دے سکتے تھے جس طرح رائے ونڈ میں جمعہ کے روز جمع ہوئے ہجوم کو جاتی امراءلے جا کر اسے ”ڈبونے“ کا سوچا گیا تھا۔ “آئٹم نمبرز” کو برداشت کرنے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے خان صاحب۔ رحم کریں رحم۔

نصرت جاوید

بشکریہ نوائے وقت

 

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website