اس تجربے کے لیے امریکی محکمہ صحت سے خصوصی اجازت لی گئی تھی جس کے دوران 4 زندہ خواتین سے رحمِ مادر (uterus) حاصل کرکے ایسی 4 خواتین میں پیوند کیے گئے جو پیدائشی طور پر رحمِ مادر سے محروم تھیں۔ منتقلی اور پیوند کاری کے بعد ان 4 رحمِ مادر میں سے 3 کو دوبارہ سے نکالنا پڑگیا کیونکہ انہیں مناسب مقدار میں خون نہیں پہنچ رہا تھا البتہ ایک رحمِ مادر کامیابی سے منتقل ہوگیا۔
رواں سال فروری میں بھی ایک مردہ خاتون سے حاصل کردہ رحمِ مادر کی منتقلی اور پیوند کاری کا تجربہ کیا گیا تھا لیکن وہ ناکام رہا۔ اس مناسبت سے یہ اپنی نوعیت کی پہلی کامیابی ہے جس میں ایک زندہ خاتون کا رحمِ مادر دوسری خاتون میں منتقل اور پیوند کیا گیا ہے۔ کامیابی سے ٹرانس پلانٹ کیا گیا رحمِ مادر فی الحال صحت مند ہے لیکن یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ آنے والے مہینوں میں اس کی بدولت وہ خاتون ماں بننے کے قابل ہوسکیں گی یا نہیں۔
سائنسدانوں کا کہنا ہےکہ انہیں ان تجربات کے دوران اپنی غلطیوں سے سیکھنے کا موقعہ ملا ہے اور رحمِ مادر کی منتقلی و پیوند کاری کا طریقہ بتدریج بہتر بنایا جائے گا۔ البتہ کسی کو یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ یہ تدبیر جلد ہی عوامی استفادے کے لیے دستیاب ہوگی کیونکہ فی الحال یہ اپنے ابتدائی مرحلے پر ہے۔
اسی نوعیت کے دوسرے تجربات کے لیے بوسٹن کے برگہام اینڈ ویمن اسپتال کو بھی اجازت دی جاچکی ہے جو اگلے چند ماہ میں کیے جائیں گے۔ ایسی ہی کوششوں کی منصوبہ بندی برطانیہ میں بھی جاری ہے لیکن ان میں مُردہ خواتین سے رحمِ مادر حاصل کیے جائیں گے۔
واضح رہے کہ انسانی رحمِ مادر کی منتقلی اور پیوند کاری میں امریکا سے پہلے سویڈن کے سائنسدانوں نے کامیابی حاصل کی تھی لیکن وہ رحمِ مادر مُردہ خواتین سے لیے گئے تھے۔