counter easy hit

اندرونی مسائل میں اُلجھی بھارتی فوج جنگ چھیڑ سکتی ہے؟

The Indian Army is waging war entangled in the internal problems?

The Indian Army is waging war entangled in the internal problems?

’’یہ حکمرانوں کی خوش قسمتی ہے کہ عام لوگ بالعموم غور و فکر نہیں کرتے۔‘‘ (جرمن لیڈر، ایڈلف ہٹلر)

18 ستمبر کو اڑی، مقبوضہ کشمیر میں نامعلوم افراد نے بھارتی فوج کے بریگیڈ ہیڈ کوارٹر پر ہلّہ بولا اور اٹھارہ فوجی مار ڈالے۔ اس حملے کے بعد بھارت میں جیسے زلزلہ آگیا۔ دھڑا دھڑ طبل جنگ بجنے لگے اور بھارتی میڈیا نے پاکستان کے خلاف زوردار لڑائی چھیڑ دی۔ یوں محسوس ہونے لگا کہ بس دھنادھن توپیں چلنے ہی والی ہیں۔ حتیٰ کہ بھارتی حکومت نے ’’سرجیکل سٹرائیکس‘‘ کا ڈرامہ تخلیق کرڈالا۔ بھارتی عوام نے سرزمین پاک پر ان حملوں کو خراج تحسین پیش کیا اور ہر جانب مودی حکومت کی واہ واہ ہوگئی۔

بھارتی عوام میں سے کم ہی لوگوں کو احساس ہوا کہ جنگی جنون کو ہوا دے کرمودی حکومت نے نہ صرف انہیں الو بنا یا بلکہ اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت حاصل کرلی۔ حقیقت یہ ہے کہ مودی حکومت پچھلے ایک برس سے مختلف مسائل کا نشانہ بنی ہوئی تھی اور اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ مسائل کے بکھیڑے سے کیسے نکلے؟

جنگجو اور اور ’’مردِ میدان‘‘ نریندر مودی بلند آہنگ دعویٰ کرکے اقتدار میں آئے تھے۔ تاہم وہ بھارتی عوام کی تکالیف و مصائب میں کمی نہ لاسکے۔ الٹا ہندو قوم پرستی پہ مبنی پالیسیاں اختیار کرنے کے باعث بھارتی معاشرے میں تعصب و تفریق بڑھ گئی۔ مودی حکومت نے پہلے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرکے مسلمانوں کو دق کیا۔ پھر دلت اور دیگر پس ماندہ طبقے اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کا نشانہ بنے ۔ بھارتی مسلمان تو مار کھا کھا کر ناتواں ہوچکے، دلت بھارتی حکمرانوں کے خلاف زبردست احتجاج کرنے لگے۔ حتیٰ کہ یہ خطرہ پیدا ہوگیا کہ بی جے پی سب سے بڑی بھارتی ریاست، اترپردیش کا آمدہ ریاستی الیکشن ہار سکتی ہے۔ ریاست میں مسلمان اور دلت بڑی تعداد میں آباد ہیں۔

اس دوران نئی دہلی اور دیگر بھارتی شہروں میں عورتوں کی بے حرمتی کے واقعات جاری رہے۔ بھارت کے لیے یہ امر ناسور بن چکا ہے۔ عالمی میڈیا وسیع پیمانے پر خواتین کی بے حرمتی پر بھارت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتا ہے۔جولائی سے مقبوضہ کشمیر میں کشمیری احتجاج کرنے لگے۔ جب بھارتی سیکورٹی فورسز نے کشمیریوں پر لرزہ خیز ظلم و تشدد کیا، تو اقوام عالم نے اس کی مذمت کی۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے بھی بھارتی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ستمبر میں بھارتی ریاستوں، کرناٹک اور تامل ناڈو کی حکومتیں دریائے کاویری کے پانی پر آپس میں الجھ گئیں۔

دونوں ریاستوں کے شہریوں نے اپنی اپنی حکومتوں کے حق میں مظاہرے کیے۔تاہم یہ مظاہرے تب پُرتشدد ہوگئے جب پولیس نے گولیاں چلا کر دو شہری مار ڈالے۔غرض درج بالا حالات اور واقعات نے مودی حکومت کو بیک فٹ پر کھیلنے پر مجبور کردیا۔ اس اثنا میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس آپہنچا۔ نریندر مودی کو یقین تھا کہ اجلاس میں مقبوضہ کشمیر اور مسلمانوں و دلتوں کے خلاف ریاستی دہشت گردی پر بھارتی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ اسی لیے وہ نیویارک جانے کی ہمت نہ کرسکا۔

اس دوران 18ستمبر کو اڑی حملہ ہوگیا۔ بھارتی حکومت نے فوراً حملہ کرانے کا الزام پاکستان پر دھردیا۔ اچانک بھارتی میڈیا بھی پاکستان کے خلاف زہر اگلنے لگا اور پھر مودی حکومت تو آستنیں چڑھا کر جیسے میدان جنگ میں اترگئی۔ سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کی دھمکی دی اور پاکستان کو اقوام عالم میں تنہا کردینے کی باتیں ہونے لگیں۔ غرض اڑی حملے نے مودی حکومت کے بے جان وجود میں جیسے نئی روح پھونک دی۔ اسی باعث بعض ماہرین کا دعویٰ ہے کہ مودی حکومت نے اڑی حملہ ازخود کرایا۔اگر یہ سچ نہیں تب بھی مودی حکومت اس حکمت عملی میں خاصی حد تک کامیاب رہی کہ بھارتی عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا کر جنگ کی طرف موڑ سکے۔

جذباتی بھارتی عوام اصل معاشرتی ومعاشی مسائل سے رخ پھیر کر جنگجو مودی حکومت کے گُن گانے لگے۔بے شعور اور جذبات کی رو میں بہہ جانے والے بھارتی شہریوں کی اکثریت اس تلخ سچائی سے ناواقف ہے کہ فی الوقت ان کی برّی فوج پاکستان پر حملہ نہیں کرسکتی… جنگی و سامان اور کم نفری کے باعث وہ اس قابل ہی نہیں کہ پاکستان پر دھاوا بول دے۔ خود بھارتی ماہرین عسکریات کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں بھارتی برّی فوج صرف بیس دن تک لڑنے کا اسلحہ رکھتی ہے۔ چناں چہ جنگ زیادہ عرصہ جاری رہے، تو اس کی شکست یقینی ہے۔

اعدادو شمار کی رو سے بہ لحاظ نفری وہ دنیا کی دوسری بڑی فوج ہے۔ سوا تیرہ لاکھ حاضر فوجیوں اور ساڑھے گیارہ لاکھ ریزرو فوجیوں پر مشتمل ہے۔ چھ ہزار کے قریب ٹینک اور تین ہزار سے زائد توپیں رکھتی ہے۔ غرض بھارتی فوج کاغذات میں یقیناً طاقت ور دکھائی دیتی ہے۔ مگر حقیقی زندگی میں وہ چھوٹے بڑے کئی مسائل سے دوچار ہے۔ یہی امر بھارتی ماہرین عسکریات کو ہر وقت تشویش میں مبتلا رکھتا ہے۔

مثال کے طور پر انساس (INSAS) یعنی بھارتی ایسالٹ رائفلوں کا معاملہ ہی لیجیے۔یہ 1998ء سے بھارتی فوجیوں کا بنیادی ہلکا ہتھیار ہیں۔ جب پاکستانی فوجیوں کو ’’نائٹ گوگلز‘‘ ملیں، تو بھارتی جرنیلوں کے کان کھڑے ہوگئے۔ وجہ یہ کہ انساس ایسالٹ رائفلوں کے بٹ کا رنگ نارنجی تھا۔ لہٰذا نائب گوگلز پہنے پاکستانی فوجی بھارتی فوجیوں کی رائفلوں کے بٹ دیکھ کر جان لیتے کہ وہ کہاں چھپے بیٹھے ہیں۔ چناں چہ بھارتی فوجی اپنی حکومت پر زور دینے لگے کہ انہیں رائفلوں کے بٹ کا رنگ بدلنے کی خاطر فنڈز جاری کیے جائیں۔ بھارتی افسر شاہی کی سست رفتاری و نااہلی کا اندازہ اس حقیقت سے لگائیے کہ یہ فنڈز جاری کرنے میں کئی سال لگ گئے۔ حال ہی میں فنڈز جاری ہوئے، تو رائفلوں پر خاکی رنگ پھیرا گیا۔ یہ واقعہ دیگ کے ایک دانے کے مصداق ہے۔ بھارتی حکومت اور بھارتی فوج کے مابین کشمکش اور کھینچا تانی کی تاریخ اتنی ضخیم ہے کہ اسے لکھتے ہوئے پور ی کتاب مرتب ہوجائے۔

بھارتی ماہرین کا کہنا ہے کہ آج بھارتی فوج بھاری اسلحے کی کمی‘ افسر شاہی کے سرخ فیتے اور بنیادی سہولتوں کے نہ ہونے جیسے مسائل میں گرفتار ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی کہ عام فوجی اپنی جیب سے خرچ کرتے ہیں تاکہ میدان جنگ میں اپنی جانیں بچا سکیں۔ مثلا ً کچھ عرصہ قبل مقبوضہ کشمیر میںایک فوجی دستے نے بازار سے ریتلے تھیلے خریدے تاکہ انہیں اپنے مورچوں کے سامنے رکھ سکیں۔ان فوجیوںکو رات کے وقت کشمیری مجاہدین کے حملے کاخطرہ تھا۔ اڑ ی میں بھی حملہ آوروں نے رات کوبریگیڈ کمانڈ سینٹر پر دھاوا بولا تھا۔ انہوں نے پھر آتش انگیز مادوں کے ذریعے فوجیوں کے خمیوں میں آگ لگا دی۔یہ صورت حال عیاں کرتی ہے کہ بھارتی فوج رقم کی کمی کا شکار ہے۔ حتیٰ کہ اس کے پاس اتنے فنڈز نہیں کہ اپنے فوجیوں کو ریتلے تھیلے خرید دے۔

بھارتی فوج کے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل‘ بی ایس جسوال کا کہنا ہے ’’رائفلوں سے لے کر توپوں تک‘ اسلحے کی کمی کے باعث بھارتی فوج کا مورال بہت متاثر ہو چکا۔ حقیقت یہ ہے کہ جدید ہتھیاروں کے معاملے میں ہم اپنے حریفوں سے پندہ سال پیچھے ہیں۔‘‘

حال ہی میں بھارتی فوج نے 44,600کاربائن اور 4097 لائٹ مشین گن خریدنے کے لیے ٹینڈر جاری کئے۔ صرف ایک کمپنی بھارتی فوج کے معیار پر پوری اتر سکی۔ اب یہ ٹینڈر دوبارہ جاری کرنے کا منصوبہ ہے مگر اس عمل میں چھ سال لگ سکتے ہیں۔لیفٹیننٹ جنرل راجندر سنگھ بھارتی فوج کا سابق ڈائرکٹر ملٹری جنرل ہے۔ وہ کہتا ہے ’’بھارتی فوج نے اسلحے کے خریداری کے سلسلے میں جو طریق کار اپنا رکھا ہے‘ وہ سب سے بڑا شیطان ہے۔ اس طریقہ کار میں جن چیزوںکو کم سے کم اہمیت دینی چاہیے‘ انہی کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ جبکہ اہم چیزیں نظر انداز ہو جاتی ہیں۔‘‘

اسلحے اور عام استعمال کی اشیا کے علاوہ بھارتی فوج نفری میں کمی سے بھی پریشان ہے۔ اعداد و شمار کی رو سے بھارتی فوج میں 9100افسروں اور 31 ہزار فوجیوںکی کمی ہے۔ اس کمی کے باعث بہت سے کام وقت پر مکمل نہیں ہو پاتے۔بھارتی فوج کی تربیت کے نظام پر بھی سوال اٹھائے جارہے ہیں۔ اس ضمن میں نارتھرن آرمی کا سابق کمانڈر‘ لیفٹیننٹ جنرل(ر) ایچ ایس پاناگ کہتا ہے: ’’بھارتی فوج میں 3500سنائپر شامل ہیں۔ مگر ان کا نشانہ بہت ناپختہ ہے۔ حد یہ کہ مٹھی بھر سنائپر ہی 600میٹر دور سے سر اور 1000 میٹر دور سے جسم کا ٹھیک نشانہ لگا پاتے ہیں۔ میرے نزدیک اسلحے کی کمی اتنا بڑا مسئلہ نہیں… اہم مسئلہ یہ ہے کہ بھارتی فوجیوں کو مناسب تربیت نہیں مل رہی۔ یہ ناتجربہ کار فوجی میدان جنگ میں کیا کارکردگی دکھاپائیں گے؟‘‘

بھارتی فوج کے جرنیل اتفاق کرتے ہیں کہ مودی حکومت آنے کے بعد حالات کچھ بہتر ہوئے ۔ مودی حکومت فوج کو رقم دے رہی ہے تاکہ وہ توپیں اور ٹینک خرید سکے۔ یاد رہے‘ بھارتی فوج 1987ء میں بوفوز اسکینڈل سامنے آنے کے بعد کوئی بڑی توپ نہیں خرید سکی۔ماہرین عسکریات کے مطابق اگلے دس بارہ برس میں بھارتی فوج کو جدید اسلحے کی خرید کے لیے 233 ارب ڈالر درکار ہوں گے۔ یہ ایک خطیر رقم ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ بھارتی حکومتیں یہ کھربوں روپے بھارتی فوج کو دے پائیں گی؟ شاید جنگجو قوم پرست ہندو اقتدار میں رہے‘ تو بھارتی جرنیلوں کے ارمان پورے ہو جائیں اور وہ جدید اسلحہ خرید سکیں۔ تاہم انہیں سماجی تنظیموں کی شدید تنقید برداشت کرنا پڑے گی جن کا مطالبہ ہے کہ اسلحے پر لگنے والی کثیر رقم سے کروڑوں غریب بھارتیوں کو غربت کے چنگل سے نکالا جائے۔

سائنسی ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ سے متعلق بھارتی ادارے بھارتی فوج کے لیے اسلحہ ایجاد کرتے ہیں۔ مگر ان اداروں میں کام بہت سست اور ناقص ہے۔ بھارتی ادارے ’’تیجاس‘‘ جنگی جہاز پچھلے تینتیس برس سے تیار کر رہے ہیں اور اب تک وہ بھارتی فضائیہ میں شامل نہیں ہو سکا۔اسی طرح بھارتی فوج کے لیے ارجن ٹینک دوم بھی زیر تکمیل ہے۔ دو سال قبل انکشاف ہوا کہ اس بھارتی ٹینک میں اسرائیل ساختہ ٹینک شکن میزائل تکنیکی وجوہ کی بنا پر نصب نہیں ہو سکتا۔ تب سے یہ معاملہ لٹکا ہوا ہے۔ بھارتی ادارے ایسا ٹینک شکن میزائل نہیں بنا پائے جو ارجن دوم کی نالی سے فائر ہو سکے۔

بھارتی فوج کے جرنیل بظاہر اپنی سپاہ کو مضبوط اور جنگ کے لئے ہر طرح سے تیار قرار دیتے ہیں۔ مگر اندرون خانہ انہیں اپنی کمزوریوں اور خامیوں کا بخوبی علم ہے ۔ حد یہ ہے کہ مودی حکومت نے پیسے کی کمی کے باعث ایک ماؤنٹین ڈویژن کھڑاکرنے کا منصوبہ ختم کر دیا۔ یہ ڈویژن چینی فوج کا مقابلہ کرنے کی خاطر بنانا مقصود تھا۔ ان تمام حقائق سے عیاں ہے کہ میدان جنگ میں بھارتی فوج اپنے مسائل کی وجہ سے غیر معمولی مسائل کا شکار ہوسکتی ہے۔یہی وجہ ہے ،مودی بھارتی جرنیلوں پہ دباؤ ڈال کر ’’سرجیکل سٹرائیکس‘‘ کا ڈراما کرانے میں کامیاب رہا۔ستم ظریفی یہ کہ اس ڈرامے سے بھارتی فوج کی بدنامی ہی ہوئی۔

پاک فوج کی تزویراتی کامیابی

رواں سال ماہ فروری میں بھارتی شہر جے پور میں ایک کاؤنٹرٹیررازم کانفرنس منعقد ہوئی جس کا افتتاح بھارتی صدر نے کیا۔ اس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی مشیر برائے قومی سلامتی ‘اجیت دووال نے پاکستان کا نام لے بغیر کہا ’’بعض ممالک پچھلے پندرہ سال سے سیاسی و تزویراتی اہداف حاصل کرنے کی خاطر خفیہ کارندوں(نان اسٹیٹ ایکٹرز) سے کام لے رہے ہیں۔ مگر نتائج ان کی توقع کے برعکس منفی نکلے اور انہیں کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔‘‘

پاک فوج پر بھارتی حکمرانوں کایہ الزام بہت پرانا ہے کہ وہ اپنے خفیہ ایجنٹ خصوصاً مقبوضہ کشمیر میں بھیج کر بھارت کو نقصان پہنچاتی ہے۔ پاک فوج نے مسلسل اس الزام سے انکار کیا اور کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں کشمیری مجاہدین نے تحریک آزادی شروع کر رکھی ہے۔ اور یہ کہ بھارتی حکومت مسلمانوں پر ظلم و ستم کرتی ہے‘ اسی لیے اسلامی تنظیمیں اس کے خلاف سرگرم عمل ہیں۔

دلچسپ بات یہ کہ اب بھارت میں ایسے ماہرین عسکریات کا گروہ جنم لے چکا جو یہ کہتا ہے کہ پاکستانی افواج نے بھارت کے خلاف خفیہ یا پراکسی جنگ میں بھارتی فوج کو ازحد نقصان پہنچایا ہے۔ گویا ان ماہرین کی نگاہ میں پاک فوج کی خفیہ جنگ والی حکمت عملی کامیاب ثابت ہوئی اور بھارتی فوج کو خاصا ضعف پہنچ گیا۔یہ ماہرین اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ پاکستانیوںکی پراکسی جنگ کے باعث بھارتی حکومت کو سرحدوںاور متنازع مقامات پر فوج کی نفری بڑھانا پڑی۔ یوں عسکری اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔ مثلاً اب کارگل میں پورا سال ایک ڈویژن (12ہزار فوج) تعینات رہتا ہے تاکہ مجاہدینِ کشمیر دوبارہ اس سمت سے حملہ آور نہ ہو سکیں۔

بھارتی ماہرین عسکریات کا دعویٰ ہے کہ پراکسی جنگ کے ذریعے پاک فوج بھارتی فوج کو ناکارہ بنا چکی اور اب وہ روایتی جنگ نہیں لڑ سکتی۔ وجہ یہ ہے کہ بھارتی فوج لائن آف کنٹرول پر تاریں لگا کر اور پاکستان سے ملنے والی سرحدوں پر نفری بڑھا کر مطمئن ہو گئی۔ اسے اطمینان ہو گیا کہ اب سرحد پار سے ’’دراندازی‘‘ رک جائے گی۔ لیکن آزادی کے لیے تڑپتے کشمیری مقبوضہکشمیر کے اندر سے اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔

بھارتی ماہرین عسکریات کے نزدیک مقبوضہ کشمیر میں تعینات بھارتی فوج پچھلے 25 سال سے کشمیری شہریوں کے خلاف ’’کاؤنٹر انسرجنسی آپریشنز‘‘ (Counter- insurgency operations) انجام دے رہی ہے جس میں باقاعدہ مقابلہ نہیں ہوتا۔ حالانکہ یہ کام سرحدی پولیس سے کرایا جانا چاہیے۔ نتیجہ یہ کہ بھارتی فوج لاکھوں فوجی لڑنا بھول چکے ، اگرچہ درج بالا آپریشنر انجام دینے پر انہیں شاباش اور پروموشن ضرور مل جاتی ہے۔ جبکہ بھارتی قوم بھی انہیں سر آنکھوں پر بٹھاتی ہے۔ مگر جب بھی حقیقی میدان جنگ میں ان کا اصل حریف سے مقابلہہوا‘ تو صورت حال بہت مختلف ہوگی۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website